توہینِ مذہب اور ملکی قانون
عبد الحی
یہ ایک حساس موضوع ہے اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر قلم اُٹھانے پر مجبور ہوں کیونکہ مردان یونیورسٹی سانحہ کے آئے روز جو حقائق سامنے آ رہے ہیں وہ کسی بھی عام پاکستانی مسلمان کے لیے دل دہلا دینے والے ہیں، پچھلے کئی سالوں میں مذہب کے نام پہ کئی ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے ملکیِ مذ ہبی قانون میں تبدیلی کی باتیں بار بار سامنے آ تی رہی ہیں، بیشر قانون دان، علماء اکرام، دانشور حضرات اس بارے میں بات کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اینکر پرسن بھی اس حوالے سے پروگرام کرنے میں احتیاط برتتے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک سچا مسلمان اپنی زندگی میں مذہب کو اپنی ہر چیز حتٰی کہ اپنے خاندان اور اپنی سانسوں پربھی ترجیح دیتا ہے وہ کسی صورت بھی مذہبی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا، تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ایسے واقعہ میں ملوث شیطان نما انسان کوسزا دینے میں کسی مسلمان نے اُسے قانون کی طرف سے دی جانے والی سزا کا انتظار نہیں کیا بلکہ اُس گستاخ کو اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کیا ہے اور پھر خود کو ہنستے مسکراتے سُولی پر جُھلوا بھی لیا، میری بات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن میرا یہ دعوٰی ہے کہ جب تک دنیا قائم ہے ایسا ہو تا رہے گا کسی بھی گستاخ کیلئے کسی مسلمان کے سامنے کی جانے والی مذہبی گستاخی اُس کی آخری غلطی ہی ہو گئی، ایک اور بات جو اس معاملے سے جڑی ہے اور وہ یہ کہ اس وقت پوری غیر اسلامی دنیا میں حقِ آزادیِ رائے کی آڑ میں اسلام کے خلاف بیانات دے کر مسلمانوں کے جذبات کو آئے دن مجروح کیا جا رہا ہے اور وقتا فوقتا دنیا کے مختلف کونوں سے گستاخِ اسلام کے ناپاک الفاظ سامنے آتے رہتے ہیں ایسے واقعات کی وجہ سے پوری اُمتِ مسلمہ میں انتحائی بے چینی اور پریشانی پائی جاتی ہے، اسی وجہ سے ہم اپنے ملک اپنے معاشرے میں کسی گستاخی کا صرف سنتے ہی ہیں تو بغیر چھان بین کے ہی اُسے سچ مان لیتے ہیں اور کچھ بھی کر گزرتے ہیں سانحہ مردان یونیورسٹی میں بھی ایسا ہی ہوا۔
سانحہ مردان کی جو صورتِ حال اب تک سامنے آئی ہے اُس کے مطابق ملک کے اسی قانون اور لوگوں کے انہیں جذبات کا سہارا لیتے ہوئے یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایک طالبِ علم کوبہت پلاننگ کے ساتھ گستاخِ مذہب کا الزام لگوا کر لوگوں کے ہجوم کے ہاتھوں قتل کروا دیا، قارئین میں آپ کوایک دفعہ دوبارہ بتاتا چلوں کہ ایسے ہی بہت سارے واقعات ہمارے یہاں رونما ہو چکے ہیں جس میں ایک نام نہاد مسلمان کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کو زاتی جھگڑے زاتی وجوہات کی بناء پر قتل کر دیتا ہے اور مرنے والے پر گستاخِ مذہب کا الزام لگا کر قانون کی سزا سے بچنے کی کوشش کرتا ہے ایسے بے ضمیر، واہیات اور اسلام دشمن انسان کو کیا کہا جائے میرے پاس تو الفاظ بھی نہیں ہیں،ایک بات جو ایسے واقعات سامنے آنے کے بعد میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایک شخص جو کسی کو ناحق قتل کرتا ہے اور پھر مذہب کا سہارا لے کر خود کو دنیا کی سزا سے بچا لیتا ہے وہ شخص اپنی باقی زندگی کتنی جی لے گا؟کیا کھا لے گا؟ کیا پی لے گا؟ کتنی دیر یہاں رہ لے گا؟ اور پھر ایک دن جب وہ خالقِ کائنات کے روبرو پیش ہو گا تو کس منہ سے ہو گا؟اور وہاں جہاں ناانصافی کا کوئی تصور نہیں ہے وہاں کس قانون کا سہارہ لے گا؟ اور کیا جھوٹ بول کے خود کوسزا سے بچائے گا؟
قارئین مشال قتل کیس میں بھی آئے روز کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے آ رہی ہے اور سب سے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس سانحہ کی کرتا دھرتا یونیورسٹی انٹظامیہ کوہاتھ ڈالنے کی ابھی تک کسی نے جراٗ ت نہیں کی، اب تک طالب علموں کے اُس جاہل گروپ کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں جنہوں نے صرف سُنی سنائی باتوں میں آ کر ایک گھر کا چراغ بجھا دیااور اب کہتے ہیں کہ ہمارے سے غلطی ہو گئی ہم بہکاؤے میں آ گئے تھے، پتہ نہیں یونیورسٹی کی انتظامیہ میں وہ کونسے ایسے طاقتور شیطان بیٹھے ہیں کہ اتنے گواہ اور ثبوتوں کے باوجود بھی ابھی تک ایک گرفتاری بھی عمل میں نہیں آئی ،مجھے اپنے ملک کے قانون پہ اتنا ہی بھروسہ ہے جتنا کہ ایک عام شہری کو ہے میں بس ایک بات کہنا چاہتا ہوں کے زمین کے اُوپر یہ لوگ کتنے ہی بڑے فرعون یا نمرود بن کرہی کیوں نہ بیٹھ جائیں پر نہ بھولیں کہ اُن کے اختتام کا بھی ایک دن معین ہے اور پھر نہ تو کوئی حکومت کام آتی ہے نہ حکمران نہ کوئی طاقت کام آتی ہے نہ کوئی طاقتوار، وہا ں اگر کچھ چلتا ہے تو بس ایک ربِ کائنات کا حکم اور رب کی پکڑ سے کوئی رہائی نہیں ہے تو زمین کے اوپر چلنے والوں کے لیے ابھی بھی وقت ہے کہ وہ اپنا احتساب اپنا جرم خود قبول کر لیں اور یاد رکھیں زمین کے نیچے کا نظام کسی دنیاوی قانون، گواہوں اور ثبوتوں کا محتاج نہیں کیونکہ اللہ تو دلوں کے احوال تک سے واقف ہے۔