پاکستانی گیم آف تھرونز
عماد ظفر
پاکستانی سیاست کو سمجھنے کیلئےمشہور امریکی ڈرامہ سیریل گیم آف تھرونز دیکھنا لازم و ملزم ہے۔ اس ڈرامہ سیریل کی کہانی ناول نگار جارج مارٹن کے مشور ناول سیریز اے سانگ آف آئس اینڈ فائر (A Song Of Ice And Fire) پر مبنی ہے۔اور طاقت کے حصول کی خاطر چلے جانی والی چالوں اور سازشوں کے گرد گھومتی ہے۔ اس ڈرامہ سیریل کی مانند ہماری سیاست میں بھی اقتدار اور طاقت حاصل کرنے کیلئے ایسی ایسی چالیں چلی جاتی ہیں کہ خود اس ڈرامہ سیریل کا ڈائریکٹر اگر یہ دیکھے تو بے انتہا حیرت میں مبتلا ہو جائے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں پردہ سکرین پر اسـوقت عوام کے سامنے کچھ اور حقیقت ہے ،جبکہ درپردہ طاقت کی بساط کے سب فریق اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں۔
پانامہ پیپرز کیس کے فیصلے کے بعد سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ اس وقت ہر فریق طاقت کے حصول کیلئے بساط پر نت نئی چالیں چل رہا ہے۔ نواز شریف اور ان کی جماعت کو اس وقت اقتدار بچانا پے اور اس کیلئے انہیں وقت خریدنا ہے۔ وہ درپردہ قوتیں جو پاکستان کے سیاہ و سفید کی مالک ہیں انہیں مزید وقت تو نواز شریف کو دینا مقصود ہے مگر کچھ اس انداز سے کہ ہر آنے والے دن میں نواز شریف کے خلاف رائے عامہ کی مخالفت بڑھتی جائے۔ زرداری نے سندھ کو بچانا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نواز شریف کو شکاریوں کے چنگل میں پھنسا رہنے دینا ہے تا کہ ان کا اپنا قلعہ مضبوط رہے۔عمران خان کو امید ہے کہ نادیدہ قوتیں کسی بھی طریقے سے بساط الٹ کر یا تو ایک قومی حکومت تشکیل دے دیں گی یا پھر شریف خاندان کو مائنس کر کے عام انتخابات میں انہیں پنجاب میں فری ہینڈ دے دیا جائے گا تا کہ وہ کسی بھی ممکن طریقے سے وزارت عظمی کے عہدے تک پہنچ سکیں۔ یہ چار فریق اس وقت اس بساط کے مرکزی کھلاڑی ہیں۔ لیکن اس بساط کے دیگر کھلاڑی بھی اب خاصی بہتر پوزیشن میں آ چکے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم پاکستان اور اسفند یار ولی اور ان کی جماعت اس بساط پر اپنا وزن نواز شریف کے پلڑے میں ڈالے بیٹھے ہیں۔ نادیدہ قوتوں کی وہ کوشش کہ متحدہ اپوزیشن بنا کر نواز شریف کو پرویز مشرف اور زرداری کی طرح بے عزت کر کے اقتدار سے نکالا جائے، فی الحال اس کے حصول میں ابھی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ وکلا تحریک چلا کر دباؤ بڑھانے کی کوششیں بھی سود مند ہوتی دکھائی نہیں دیتیں کیونکہ عاصمہ جہانگیر، علی احمد کرد، اور دیگر نامور وکلا رہنما نہ صرف ایک منتخب وزیر اعظم کے خلاف تحریک چلانے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ نادیدہ قوتوں یا عمران خان کے کسی بھی صورت وکلا کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی کوشش کے خلاف یہ رہنما میدان میں کود پڑیں گے اور کسی بھی صورت ایک منظم وکلا تحریک کو جنم نہیں لینے دیں گے۔ دوسری جانب متحدہ اپوزیشن کے قیام میں بھی بدستور رکاوٹیں ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی مومنٹ پاکستان اور عمران خان کے صوبائی حلیف شیر پاؤ کی جماعتیں، حکومت مخالف کسی بھی قسم کی تحریک چلانے میں نہ تو دلچسپی رکھتی ہیں نہ ہی عمران خان کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرناچاہتی ہیں جو ان کی سیاسی تقویت کا باعث بنے۔
آصف زرداری اورپیپلز پارٹی گو متحدہ اپوزیشن کیلئے شور وغل تو مچا رہے ہیں لیکن درپردہ نہ تو وہ اس مقصد میں سنجیدہ ہیں اور نہ ہی عمران خان کو وہ سیاسی محاذ پر لیڈ کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یوں پاکستانی سیاست کی یہ گیم آف تھرونز مـزید دلچسپ ہوتی جا رہی ہے۔ نواز شریف کو جے آئی ٹی کے ذریعے نااہل نہیں کیا جا سکے گا یہ بات نادیدہ قوتوں سمیت تمام فریق جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فی الوقت میڈیا کے ذریعے رائے عامہ کو نواز شریف کے خلاف مشتعل کر کے ایک ایسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس کے ذریعے یہ تاثر قائم کیا جا سکے کہ نواز شریف دراصل اس وطن میں کرپشن کی جڑ ہے۔ اس بیانیے کو تشکیل دینے کے دو پہلو ہیں ایک نواز شریف اور ان کی جماعت کے خلاف پڑھے لکھے لوگوں کی نفرت قائم کرنا، دوسرا بین الاقومی سطح پر یہ تاثر قائم کرنا کہ نواز شریف اخلاقی طور پر حق حکمرانی کھونے کے علاوہ شہری مڈل کلاس آبادی کی حمایت بھی کھو چکے ہیں۔ یہ تاثر قائم کر کے نادیدہ قوتیں بین الاقوامی دنیا کو یہ پیغام بھی پہنچانا چاہتی ہیں کہ پاکستان میں ڈی فیکٹو طور پر ان کی حکومت ہے اس لیئے ہر معاملے میں ان کی رائے اور تائید حاصل کرنا ناگزیر ہے۔
دوسری جانب نواز شریف کو اگر جے ٹی آئی سے کلیرنس مل بھی جائے تو بھی اگلے انتخابات تک ان کی پوزیشن انتہائی کمزور رہے گی کیونکہ بہر حال ان کے خلاف نادیدہ قوتوں نے ٹھیک ویسا ہی بیانیہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں تشکیل دے دیا ہے جو ضیاالحق کے دور میں بینظیر بھٹو اور ان کے خاندان کے خلاف تشکیل دیا گیا تھا۔ اس وقت ایک تازہ انتخابی مینڈیٹ حاصل کرنا نواز شریف کیلیئے ناگزیر ہے لیکن استعفے یا اسمبلیاں تحلیل کرنے کی صورت میں ان کے خلاف تیارکردہ بیانیے کو مزید تقویت ملے گی اور عوام شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہوئے سمجھے گی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے جو نواز شریف نے اقتدار چھوڑنے کا سوچا۔ خود نواز شریف بھی جانتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کی موجودگی اور پانامہ کیس کے الزامات کے سائے تلے فوری انتخابات ان کی جماعت کے حق میں نہیں۔ اس لیئے وہ ہر ممکن طریقے سے یہ سال مسند اقتدار پر بیٹھ کر گزارنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ اگر اس سال بھی جلسے جلوسوں دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا تو انہیں کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس لیئے اس گیم آف تھرونز میں نواز شریف کی اگلی چال میں نادیدہ قوتوں کے مہرے کو اسی تلوار سے ہلاک کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کے ذریعے نواز شریف کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔
عمران خان ،جہانگیر ترین یہ بات جانتے ہیں کہ باسٹھ تریسٹھ کا اگر اطلاق ہوا یا آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کا دائرہ کار بڑھا تو اس کی زد میں آکر کر دونوں نااہل ہو جائیں گے یہی بات زرداری صاحب بھی سرے محل اور فرانس محل سمیت سوئس اکاؤنٹس کے متعلق بھی جانتے ہیں۔ اس لیئے عمران خان اور زرداری کی کوشش ہو گی کہ بجائے اس پانامہ کیس کا قانونی حل نکالنے کے اس معاملے کو مزید ایک سال میڈیا اور سڑکوں پر گھسیٹا جائے تا کہ اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون پانامہ کے بوجھ تلے دب کر پنجاب سے کچھ نشستیں ان دونوں جماعتوں کی جھولی میں ڈالے۔ الیکٹرانک میڈیا کے سیٹھوں اور مالشیے قسم کے اینکرز و صحافی کی اگلے سال چاندی رہی گی۔ نادیدہ قوتوں اور ان کے مہروں سے مالی فوائد حاصل کرنے کے علاوہ ریٹنگ بھی خوب ملے گی اور صحافت کے نام پر خوب جم کر دلالی کرتے ہوئے روپیہ پیسہ بٹورا جائے گا۔ اس گیم آف تھرون میں موجود سب فریق ایک دوسرے کی چالوں سے آگاہ بھی ہیں اور اپنا اپنا رول بھی خوب طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ صرف اس کو دیکھنے والے یعنی عوام نہ تو اس گیم کی باریکیوں سے واقف ہیں اور نہ ہی اس حقیقت سے کہ اس پاکستانی گیم آف تھرونز میں ان کی حیثیت اس تماشائی جیسی ہے جو محض سیٹیاں بجانے اور تالیاں بجا کر اس فلم کو شوق واشتیاق سے دیکھتے ہوئے بخوشی و رضامندی اس فلم کے اگلے سیزن یا حصے کا انتظار کرتے پائے جا رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم بین یا تماشائی یعنی عوام اس حقیقت کو جانتے بوجھتے فراموش کر دیتے ہیں کہ اس فلم پر اٹھنے والے تمام تر اخراجات کا بوجھ ان کی ہی جیبوں پر پڑتا ہے اور ان کے زمہ صرف تالیاں بجانے کا کام نسل درنسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ سن پچاس کی دہائی سے شروع ہونے والی اس پاکستانی گیم آف تھرونز کے نئے سیزن اور حصے اسوقت تک پیش ہوتےرہیں گے جب تک تماشائی فلم بینی کی لت کو چھوڑ کر حقیقت کی دنیا میں بس کر اپنی اپنی خود ساختہ اناؤں اور چھوٹے چھوٹے مالی و معاشی مفادات کے حصول کے بجائے آنے والی نسلوں کے بہتر مستبل کے بارے میں سوچنا شروع نہیں کریں گے۔
پانامہ پیپرز کیس کے فیصلے کے بعد سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ اس وقت ہر فریق طاقت کے حصول کیلئے بساط پر نت نئی چالیں چل رہا ہے۔ نواز شریف اور ان کی جماعت کو اس وقت اقتدار بچانا پے اور اس کیلئے انہیں وقت خریدنا ہے۔ وہ درپردہ قوتیں جو پاکستان کے سیاہ و سفید کی مالک ہیں انہیں مزید وقت تو نواز شریف کو دینا مقصود ہے مگر کچھ اس انداز سے کہ ہر آنے والے دن میں نواز شریف کے خلاف رائے عامہ کی مخالفت بڑھتی جائے۔ زرداری نے سندھ کو بچانا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نواز شریف کو شکاریوں کے چنگل میں پھنسا رہنے دینا ہے تا کہ ان کا اپنا قلعہ مضبوط رہے۔عمران خان کو امید ہے کہ نادیدہ قوتیں کسی بھی طریقے سے بساط الٹ کر یا تو ایک قومی حکومت تشکیل دے دیں گی یا پھر شریف خاندان کو مائنس کر کے عام انتخابات میں انہیں پنجاب میں فری ہینڈ دے دیا جائے گا تا کہ وہ کسی بھی ممکن طریقے سے وزارت عظمی کے عہدے تک پہنچ سکیں۔ یہ چار فریق اس وقت اس بساط کے مرکزی کھلاڑی ہیں۔ لیکن اس بساط کے دیگر کھلاڑی بھی اب خاصی بہتر پوزیشن میں آ چکے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم پاکستان اور اسفند یار ولی اور ان کی جماعت اس بساط پر اپنا وزن نواز شریف کے پلڑے میں ڈالے بیٹھے ہیں۔ نادیدہ قوتوں کی وہ کوشش کہ متحدہ اپوزیشن بنا کر نواز شریف کو پرویز مشرف اور زرداری کی طرح بے عزت کر کے اقتدار سے نکالا جائے، فی الحال اس کے حصول میں ابھی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ وکلا تحریک چلا کر دباؤ بڑھانے کی کوششیں بھی سود مند ہوتی دکھائی نہیں دیتیں کیونکہ عاصمہ جہانگیر، علی احمد کرد، اور دیگر نامور وکلا رہنما نہ صرف ایک منتخب وزیر اعظم کے خلاف تحریک چلانے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ نادیدہ قوتوں یا عمران خان کے کسی بھی صورت وکلا کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی کوشش کے خلاف یہ رہنما میدان میں کود پڑیں گے اور کسی بھی صورت ایک منظم وکلا تحریک کو جنم نہیں لینے دیں گے۔ دوسری جانب متحدہ اپوزیشن کے قیام میں بھی بدستور رکاوٹیں ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی مومنٹ پاکستان اور عمران خان کے صوبائی حلیف شیر پاؤ کی جماعتیں، حکومت مخالف کسی بھی قسم کی تحریک چلانے میں نہ تو دلچسپی رکھتی ہیں نہ ہی عمران خان کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرناچاہتی ہیں جو ان کی سیاسی تقویت کا باعث بنے۔
آصف زرداری اورپیپلز پارٹی گو متحدہ اپوزیشن کیلئے شور وغل تو مچا رہے ہیں لیکن درپردہ نہ تو وہ اس مقصد میں سنجیدہ ہیں اور نہ ہی عمران خان کو وہ سیاسی محاذ پر لیڈ کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یوں پاکستانی سیاست کی یہ گیم آف تھرونز مـزید دلچسپ ہوتی جا رہی ہے۔ نواز شریف کو جے آئی ٹی کے ذریعے نااہل نہیں کیا جا سکے گا یہ بات نادیدہ قوتوں سمیت تمام فریق جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فی الوقت میڈیا کے ذریعے رائے عامہ کو نواز شریف کے خلاف مشتعل کر کے ایک ایسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس کے ذریعے یہ تاثر قائم کیا جا سکے کہ نواز شریف دراصل اس وطن میں کرپشن کی جڑ ہے۔ اس بیانیے کو تشکیل دینے کے دو پہلو ہیں ایک نواز شریف اور ان کی جماعت کے خلاف پڑھے لکھے لوگوں کی نفرت قائم کرنا، دوسرا بین الاقومی سطح پر یہ تاثر قائم کرنا کہ نواز شریف اخلاقی طور پر حق حکمرانی کھونے کے علاوہ شہری مڈل کلاس آبادی کی حمایت بھی کھو چکے ہیں۔ یہ تاثر قائم کر کے نادیدہ قوتیں بین الاقوامی دنیا کو یہ پیغام بھی پہنچانا چاہتی ہیں کہ پاکستان میں ڈی فیکٹو طور پر ان کی حکومت ہے اس لیئے ہر معاملے میں ان کی رائے اور تائید حاصل کرنا ناگزیر ہے۔
دوسری جانب نواز شریف کو اگر جے ٹی آئی سے کلیرنس مل بھی جائے تو بھی اگلے انتخابات تک ان کی پوزیشن انتہائی کمزور رہے گی کیونکہ بہر حال ان کے خلاف نادیدہ قوتوں نے ٹھیک ویسا ہی بیانیہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں تشکیل دے دیا ہے جو ضیاالحق کے دور میں بینظیر بھٹو اور ان کے خاندان کے خلاف تشکیل دیا گیا تھا۔ اس وقت ایک تازہ انتخابی مینڈیٹ حاصل کرنا نواز شریف کیلیئے ناگزیر ہے لیکن استعفے یا اسمبلیاں تحلیل کرنے کی صورت میں ان کے خلاف تیارکردہ بیانیے کو مزید تقویت ملے گی اور عوام شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہوئے سمجھے گی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے جو نواز شریف نے اقتدار چھوڑنے کا سوچا۔ خود نواز شریف بھی جانتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کی موجودگی اور پانامہ کیس کے الزامات کے سائے تلے فوری انتخابات ان کی جماعت کے حق میں نہیں۔ اس لیئے وہ ہر ممکن طریقے سے یہ سال مسند اقتدار پر بیٹھ کر گزارنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ اگر اس سال بھی جلسے جلوسوں دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا تو انہیں کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس لیئے اس گیم آف تھرونز میں نواز شریف کی اگلی چال میں نادیدہ قوتوں کے مہرے کو اسی تلوار سے ہلاک کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کے ذریعے نواز شریف کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔
عمران خان ،جہانگیر ترین یہ بات جانتے ہیں کہ باسٹھ تریسٹھ کا اگر اطلاق ہوا یا آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کا دائرہ کار بڑھا تو اس کی زد میں آکر کر دونوں نااہل ہو جائیں گے یہی بات زرداری صاحب بھی سرے محل اور فرانس محل سمیت سوئس اکاؤنٹس کے متعلق بھی جانتے ہیں۔ اس لیئے عمران خان اور زرداری کی کوشش ہو گی کہ بجائے اس پانامہ کیس کا قانونی حل نکالنے کے اس معاملے کو مزید ایک سال میڈیا اور سڑکوں پر گھسیٹا جائے تا کہ اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون پانامہ کے بوجھ تلے دب کر پنجاب سے کچھ نشستیں ان دونوں جماعتوں کی جھولی میں ڈالے۔ الیکٹرانک میڈیا کے سیٹھوں اور مالشیے قسم کے اینکرز و صحافی کی اگلے سال چاندی رہی گی۔ نادیدہ قوتوں اور ان کے مہروں سے مالی فوائد حاصل کرنے کے علاوہ ریٹنگ بھی خوب ملے گی اور صحافت کے نام پر خوب جم کر دلالی کرتے ہوئے روپیہ پیسہ بٹورا جائے گا۔ اس گیم آف تھرون میں موجود سب فریق ایک دوسرے کی چالوں سے آگاہ بھی ہیں اور اپنا اپنا رول بھی خوب طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ صرف اس کو دیکھنے والے یعنی عوام نہ تو اس گیم کی باریکیوں سے واقف ہیں اور نہ ہی اس حقیقت سے کہ اس پاکستانی گیم آف تھرونز میں ان کی حیثیت اس تماشائی جیسی ہے جو محض سیٹیاں بجانے اور تالیاں بجا کر اس فلم کو شوق واشتیاق سے دیکھتے ہوئے بخوشی و رضامندی اس فلم کے اگلے سیزن یا حصے کا انتظار کرتے پائے جا رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم بین یا تماشائی یعنی عوام اس حقیقت کو جانتے بوجھتے فراموش کر دیتے ہیں کہ اس فلم پر اٹھنے والے تمام تر اخراجات کا بوجھ ان کی ہی جیبوں پر پڑتا ہے اور ان کے زمہ صرف تالیاں بجانے کا کام نسل درنسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ سن پچاس کی دہائی سے شروع ہونے والی اس پاکستانی گیم آف تھرونز کے نئے سیزن اور حصے اسوقت تک پیش ہوتےرہیں گے جب تک تماشائی فلم بینی کی لت کو چھوڑ کر حقیقت کی دنیا میں بس کر اپنی اپنی خود ساختہ اناؤں اور چھوٹے چھوٹے مالی و معاشی مفادات کے حصول کے بجائے آنے والی نسلوں کے بہتر مستبل کے بارے میں سوچنا شروع نہیں کریں گے۔