Is Ke Baad Wohi Hota Hai Jo Sher Ke Mann Main Aye - Nusrat Javeed


اس کے بعد وہی ہوتا ہے جو ”شیر“ کے من میں آئے 
نصرت جاوید 

حکمرانوں کو دھول دھپا لگانے کے لئے عدالتی پیش دستی جسے انگریزی میں Judicial Activism کہا جاتا ہے ہمارے خطے میں 90ء کے عشرے میں متعارف ہوئی تھی۔ مفاد عامہ کے تحت فریاد (Public Interest Litigation) لے کر براہِ راست اعلیٰ ترین عدالتوں کے روبروجانے کا رواج بھارت سے شروع ہوا۔ ہمارے ہاں اس چلن کی حوصلہ افزائی مرحوم جسٹس سجاد علی شاہ نے فرمائی تھی۔
شاہ صاحب لیاری کے باسی تھے۔ عموماً انہیں درویش صفت بھی سمجھا جاتا تھا۔ ان کا ”قلندرانہ“ انداز مگر پاکستانی عوام کے سامنے 1993ء میں آیا تھا۔ اس سال کے اپریل میں غلام اسحاق خان نے اپنے صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کی پہلی حکومت کو کرپشن کے الزامات لگاکر فارغ کر دیا تھا۔ نواز شریف اپنی برطرفی کے خلاف براہِ راست سپریم کورٹ چلے گئے جس کے چیف جسٹس ان دنوں جسٹس نسیم حسن شاہ ہوا کرتے تھے۔
خالد انور‘ جن کی اس وقت تک شہرت صرف ایک ایسے وکیل کی تھی جو کاروباری قضیوں کو عدالتی مداخلت کے ذریعے حل کروانے کی مہارت رکھتے تھے‘ نواز شریف کی جانب سے دلائل دینے پر مامور ہوئے۔ افسر شاہی کی صفوں سے اُٹھ کر پاکستان کے وزیراعظم ہوئے چودھری محمد علی‘ خالد صاحب کے والد تھے۔ عام لوگوں کا خیال تھا کہ شریف الدین پیرزادہ جیسے ”قانونی اور آئینی ماہر“ سے مشورے لینے والے غلام اسحاق خان کے اُٹھائے قدم کے خلاف ”یہ کارپوریٹ لائر“ کچھ بھی نہیں کر پائے گا۔
چیف جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب نے سماعت کے پہلے روز ہی مگر اعلان کردیا کہ منتخب اسمبلی اور حکومت کو کرپشن کے بارے میں ”سنی سنائی کہانیوں“ کی بنیاد پر برطرف کرنے کے صدارتی اختیارات کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی تو خالد انور کو بہت اطمینان سے سنا گیا۔ عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ کرنے والے مجھ ایسے ناپختہ ذہن خالد صاحب کی انگریزی سے بہت متاثر ہوئے۔
خالد صاحب کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کا دفاع کرنے والے وکلاءکو مسلسل سخت ریمارکس کی بدولت سپریم کورٹ کے بنچ نے جم کر بولنے کا موقعہ ہی نہیں دیا۔ہمیں احساس ہوگیا کہ نواز شریف کی برطرف حکومت کو بحال کرتے ہوئے نسیم حسن شاہ صاحب”تاریخ“بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔بالآخر ایسا ہی ہوا۔ سپریم کورٹ نے نواز حکومت کو بحال کرنے کا ”تاریخی“ فیصلہ لکھ دیا۔یہ فیصلہ آج بھی پارلیمان کی راہداریوں میں سنگ مرمر کی تختیوں پر کندہ ہے۔اس کے باوجود صدر فاروق لغاری نے جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو صدارتی اختیارات کے تحت ہی برطرف کیا تو اسے بحال ہونانصیب نہیں ہوا۔یہ ”تاریخی فیصلہ“ 12 اکتوبر1999ء کی رات نواز شریف کی دوسری حکومت کا تحفظ بھی نہیں کر پایا تھا۔
بہرحال‘ نواز حکومت کی بحالی کے لئے لکھے ہوئے فیصلے کے خلاف سجاد علی شاہ نے ایک اختلافی نوٹ لکھا تھا۔اس نوٹ میں لاہور اور لاڑکانہ سے آئے وزرائے اعظموں کے ساتھ عدالتی برتاﺅ میں فرق کی بات بہت نمایاں انداز میں لکھی گئی۔ لیاری کے شاہ صاحب کے اس اختلافی نوٹ کی وجہ ہی سے وہ سیاسی فضاءبنی جس کی بدولت سپریم کورٹ سے بحال ہوجانے کے باوجود نواز شریف کو بالآخر استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کرنا پڑی۔ان انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر ایک بار پھر پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔وقت آنے پر انہوں نے سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنادیا۔اگرچہ شاہ صاحب ان دنوں کے سپریم کورٹ کے ایک ”جونیئر“ جج ہوا کرتے تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی ”فراخدلی“ کے ہاتھوں چیف جسٹس ہوئے سجاد علی شاہ مگر Judicial Activism کی طرف شدومد سے راغب ہونا شروع ہوگئے۔ ان کی پھرتیوں نے محترمہ بے نظیر کو بھونچکادیا۔ بالآخر چیف جسٹس اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر لغاری نے محترمہ کی دوسری حکومت کو تقریباََ وہی الزامات دہراکر فارغ کردیا جو غلام اسحاق نے 1990ء میں نواز حکومت کے خلاف عائد کئے تھے۔ محترمہ کی اس موقع پر لیکن 1993ء میں نسیم حسن شاہ کا لکھاہوا”تاریخی فیصلہ“ کوئی مدد نہیں کر پایاتھا۔ وہ ”چمک“ وغیرہ کے طعنے دینے پر مجبور ہوگئیں۔
سجاد علی شاہ مرحوم کو سپریم کورٹ کی بے اعتنائی کی بدولت نئے انتخابات کے بعد جب نواز شریف دوبارہ وزیراعظم ہاﺅس پہنچ گئے تو چند ہی دنوں میں عدالتی پیش دستیوں کے دھول دھپے برداشت کرنا پڑے۔ وہ پہلے وزیراعظم تھے جنہیں بذاتِ خود سپریم کورٹ کے روبرو بھی پیش ہونا پڑا۔ نواز شریف نے اسے اپنی توہین گردانا اور چند ہی دنوں بعد ایک عدالتی Coup کی وجہ سے سجاد علی شاہ صاحب کو سپریم کورٹ سے رخصت ہونا پڑا۔ ان کی رخصتی نے فاروق لغاری کی ایوان صدر سے فراغت بھی آسان بنادی۔
نسیم حسن شاہ اور سجاد علی شاہ کے سپریم کورٹ کے درمیان فرق کو خوب جانتے ہوئے بھی نواز شریف کی جماعت لانگ مارچ کے ذریعے بحال ہوئے ”ارسلان کے ابو“ کی عدالت میں 2008ء سے 2013ء تک قائم پیپلز پارٹی کی حکومت کو زچ کرنے کے لئے تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر مختلف فریادیں لے کر جانا شروع ہوگئی۔اپنے مخالفین کی حکومت کو سوموٹو کے ہتھیار کی بدولت دیوار سے لگاتے ہوئے نواز شریف یہ بھول گئے کہ ایک دن انہیں بھی وزیر اعظم منتخب ہونا ہے۔ جو ہتھیار وہ 2008ء سے 2013ء تک موجود حکومت کے خلاف عدالت کو متحرک رکھنے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں، وہ ایک دن ان کے خلاف بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔
پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد عمران خان اور دیگر لوگوں نے یہ ہتھیار ہی تو استعمال کیا ہے۔ اس کے حوالے سے خودکو”شہید“ محسوس کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ بالآخر کسی دن جب عمران خان وزیراعظم ہاﺅس پہنچ گئے تو ان کے سیاسی مخالفین بھی ہر دوسرے روز کسی نہ کسی بہانے سپریم کورٹ کو اس کے سوموٹو اختیارات یاد دلاتے نظر آئیں گے۔ عمران خان اس کی وجہ سے خود کو ویسے ہی بے بس ولاچار محسوس کریں گے جیسے ان دنوں نواز شریف نظر آرہے ہیں۔
ہمارے کج فہم،نااہل اور اپنی اناﺅں کے اسیر سیاست دانوں نے باہم مل کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے ان کے پاس سیاسی اختلافات کو حل کرنے کی کوئی راہ ہی موجود نہیں ہے۔ وہ اس ضمن میں ہمیشہ کسی ”تیسری“ قوت اور ادارے سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔کسی ”تیسری“ مگر غیر سیاسی قوت کو ”چوہدراہٹ“ ہمارے تمام سیاست دانوں نے بلااستثناءبہت خشوع وخضوع سے باہم مل کر عطاءکی ہے۔جنگل میں شیر آجائے والا معاملہ ہوگیا ہے جس کے بعد وہی ہوتا ہے جو ”شیر“ کے من میں آئے۔
سوموٹو اختیارات سے مالا مال ہماری سپریم کورٹ اب ”جنگل کا شیر“ بن چکی ہے۔ کیونکہ اس ملک کے کج فہم، نااہل اور اپنی اناﺅں کے اسیر ہوئے سیاستدان پارلیمان اور دیگر جمہوری اور انتظامی اداروں کے ذریعے اپنے باہمی اختلافات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیتوں سے قطعاًَ محروم ہو چکے ہیں۔ سیاست دانوں کی نااہلی سے اُکتائے عوام کو بھی نام نہاد جمہوری نظام نے فقط ہیجان کا مریض بنا دیا ہے۔ اس ہیجان سے نجات پانے کے لئے وہ سپریم کورٹ کے متحرک کردار کو سراہنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ مجھ بدنصیب کو صوفی تبسم کی طرح یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ ہمارا درداب ”لادوا“بن چکا ہے جس کا مداوا شاید سپریم کورٹ بھی نہ کر پائے۔