تقاضے
علی محمود
دنیا میں انسان کی زندگی جسم اور روح کے حسین امتزاج کا نام ہے اس دنیا میں جسم کے بنا روح نا مکمل ہے اور روح کے بنا جسم کسی کام کا نہیں۔ اسی لحاظ سے جسم اور روح کی خوراک اور ان کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، چونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے بہت ضروری ہیں اس لئے ان دونوں کی ضرورتوں کا برابر خیال رکھنا متوازن زندگی کے لئے بہت اہم ہوتا ہے۔ اس صدی کے بہت سے اور مسائل کی طرح یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کی طرف ہم نے کبھی دھیان نہیں دیا۔ آج ہم میں سے ہر کوئی خود کو ادھورا محسوس کرتا ہے ہر کوئی ہر وقت ایک عجیب سی بے چینی اور کشمکش میں مبتلا رہتا ہے سب کچھ ہونے کے باوجود ادھورا پن اور یہ بے چینی ہماری ذات کا حصہ بنی رہتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہےکہ ہم جسم کو خوراک بھی دے دیتے ہیں اس کے تقاضے بھی پورے کرنے میں لگے رہتے ہیں لیکن ہم اس کے ساتھ ہی روح کو بالکل نظر انداز کرتے رہتے ہیں جس کانتیجہ اس صورت میں نکلتا ہے کہ ہماری روح کمزور ہو کر ہمارے وجود کابوجھ بن جاتی ہے۔ جسم کے تقاضوں کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں جسم کو خوراک چاہیے ہوتی ہے اس کو رشتے درکار ہوتے ہیں، اپنی خوشیاں بانٹنے کے لئے دوست اور اپنے درد بانٹنے کے لئے ہمددر کندھوں کی ضرورت ہوتی ہے، جسم کو پیار دینے کے لئے بھی کوئی چاہیے ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی شدید چاہے جانے کی خواہش بھی ہوتی ہے، اس کو صحت کے لئے ورزش بھی چاہیے ہوتی ہے اور بیماریوں کے لئے علاج بھی چاہیے ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے کبھی روح کے تقاضوں، روح کی خوراک اور روح کی صحت کا خیال نہیں رکھا ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ روح کی تسکین بھی ضروری ہوتی ہے اس کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں بعض اوقات تو انسان جسمانی تقاضے پورے کرتے کرتے گزر جاتا ہے روح کے تقاضوں کی باری ہی نہیں آتی اور کبھی کبھی روح کے تقاضوں کی طرف انسان کا دھیان اس وقت جاتا ہے جب زندگی کا کھیل اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہوتا ہے عمر کے آخری حصہ میں اسکا دھان روح کی طرف اس لئے جاتا ہے کیونکہ انسان جسمانی تقاضے پورے کر کے ریٹائر زندگی گزار رہا ہوتا ہےاور اس وقت انسان کے سارے دوست ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑ چکے ہوتے ہیں، سب رشتے وقت کی گرد میں دھندلا چکے ہوتے ہیں، تنہائی کے علاوہ کوئی بھی ساتھ نہیں ہوتا۔ اس حالت میں انسان سکون اور اطمینان کی تلا ش میں روح کے سفر پر نکلتا ہے جہاں پر انسان کا ساتھی صرف اور صرف وہ تنہائی ہوتی ہے جس سے انسان ساری زندگی بھاگتا رہتا ہے ساری زندگی اس کو اپنا دشمن سمجھتا ہے لیکن حقیقت میں انسان کا سب مخلص اور وفادار دوست انسان کی تنہائی ہوتی ہے یہ تنہائی انسان کی راز دار بھی ہوتی ہے اور دکھ سکھ بانٹنے والی بھی ہوتی ہے۔ انسان جب روح کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اس سفر پر نکلتا ہے تو آئینہ میں اپنا آپ بھیانک لگنے لگتا ہے اپنا ماضی اپنے سامنے آکھڑا ہوتا ہے انسان ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہوتاہے اور سارے کردار مدعی بنے آتے رہتے ہیں اور گواہی دیتے رہتے ہیں، اس عدالت میں انسان جھوٹ بھی نہیں بول سکتا کیونکہ یہ زندگی کا وہ مقام ہوتا ہے جہاں خود سے جھوٹ بولنے کی نہ ہمت ہوتی ہے اور نہ ہی خود سے جھوٹ بولنے کی طاقت ہوتی ہے۔ انسان ہر روز اپنے ضمیر کی عدالت میں پیشیاں بھگتتا ہے ہر روز مرتا ہے، لوگوں پر کئے گئے ظلم اور نا انصافیوں کے حوالے سے ہر روز نئی اور اذیت ناک سزا کاٹنی پڑتی ہے اور ساتھ ساتھ قید تنہائی کی سزا تو بہت پہلے سے اسکا مقدر بن چکی ہوتی ہے۔ احساس جرم کاٹٹا رہتا ہے، دیمک کی طرح وجود کو کھوکھلا کرتا رہتا ہے۔
ہماری ترتیب زندگی کے ہر معاملے میں الٹی ہے ہم ساری زندگی جسمانی بھوک اور جسمانی تقاضے پورے کرنے میں لگا دیتے ہیں روح کے تقاضوں کی باری جب آتی ہے تو وقت گزر چکا ہوتا ہے لیکن اگر ہم اس ترتیب کو سیدھا کر لیں تو ایک خوبصورت زندگی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں روح کے تقاضے اور روح کی بھوک کو وقت کے ساتھ ساتھ پورا کر لیا جائے تو ضمیر کی عدالت سے ہر کیس میں باعزت بری ہوتے رہیں گے نہ کسی پر ظلم کریں گے نہ کسی کے حق پر ڈاکا ڈالیں گے نہ کسی کا دل دکھائیں گے، روح کے تقاضے پورے کرنے کے بعد، روح کی بھوک مٹانے کے بعد نہ تو جسمانی بھوک کی گنجائش رہتی ہے نہ ہی جسمانی تقاضے اپنی حد عبور کرتے ہیں۔ نہ ہی خواہشات کے جن بوتل سے باہر آکر سرکشی پر مجبور کرتے ہیں انسان انتہائی خوبصورت دھیمی، متوازن اور اطمینان والی زندگی گزار کر دوسرے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اپنی ترتیب کو درست کرنے کی کوشش کریں اپنی روح کو اپنے ضمیر کو مرنے مت دیں اگر یہ مر گیایا یہ کمزور ہو گیا تو بظاہر سانسیں چل رہی ہوگی وجود میں زندگی کی گرمی بھی ہوگی لیکن حقیقت میں اپنی زندگی کی متعفن نعش کو اپنے کندھوں پر آٹھائے پھر نا پڑے گا۔ روح کے تقاضوں کو سمجھنے کے لئے تنہائی بہت ضروری ہوتی ہے ہر روز کچھ وقت خود کو دیا کریں اپنے ضمیر کی عدالت میں روز پیش ہوکر ہر روز اپنا محاسبہ کریں روح کی سب سے اہم خوراک اللہ سے آپ کا رشتہ ہے اسکو کبھی بھی ٹوٹنے مت دیں اس رشتے کو جتنا مضبوط کریں گے اتنی ہی آپ کی روح طاقت ور ہو گی۔