چین میں فاقہ کشی
اجمل کھوکھر
چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور وہاں کے عوام بہت ہی خوشحال ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے بعد چین ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں عام آدمی کو حکومت کی جانب سے ہر طرح کی سہولیات حاصل ہیں، لیکن حال میں کچھ انٹرنیشنل ایجنسیوں نے چین کے ۳۰ صوبوں میں جو سروے کیا، اُس سے چین کی اصل تصویر سامنے آگئی ہے۔ یہ بات تو بالکل درست ہے کہ چین کے عام آدمی کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے۔ لیکن یہ لمبی عمر چین کے ۳۰ فیصد عوام کے لئے ایک مصیبت بن کر آئی ہے۔ کچھ سال قبل آبادی پر کنٹرول پانے کے لئے چین میں ایک اولاد کی پالیسی پر حکومت نے سختی سے عمل کیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک اولاد والے میاں بیوی آج تنہا ہوگئے ہیں، چین میں بھی پاکستان کی طرح ہی مشترکہ خاندان کی روایت سیکڑوں برسوں سے چلی آرہی ہے۔ لیکن روزگار کی تلاش میں اب کئی جوڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ پاکستان کی طرح ہی چین میں بھی بزرگوں کو یہ توقع ہوتی ہے کی ساٹھ برس کی عمر کے بعد کوئی انہیں سہارا دینے والا ہو، لیکن اُن کے گھروں میں کوئی دوسرا فرد نہیں ہے جو کسی بزرگ کی خدمات انجام دے کر اُن کی دیکھ بھال کرسکے۔ ان بزرگوں نے اپنی زندگی میں نہایت ہی مشکل حالات کا سامنا کیا ہے۔ پچاس کی دہائی میں چین میں جو زبردست قحط پڑا تھا، اس میں لوگوں کو بمشکل دو تین دن میں ایک دن کھانا مل پاتا تھا۔ پھر جب ماؤزے تنگ چین میں کلچرل انقلاب لاے تو لوگ مختلف انداز کی تکلیفوں کا شکار ہوئے۔ ان بزرگوں کے دماغ میں ان دردناک واقعات کی یادیں آج بھی تازہ ہیں، جو انہیں ایک دم سے سہما دیتی ہیں۔ اُن دونوں چین میں عام محنت کش کو برائے نام مزدوری ملتی تھی، جس میں سے کچھ بھی رقم بچا کر رکھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جو کچھ آمدنی ہوتی تھی اسے وہ بچوں کی پڑھائی لکھائی اور ان کی دیکھ بھال پر خرچ کرتے تھے۔ اس طرح آج جب ان کے بچے انہیں چھوڑ کر شہر چلے گئے تو یہ بزرگ پوری طرح بے یارو مددگار ہوگئے ہیں۔ اس مصدقہ سروے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سو میں سے پچیس معمر شہری نہایت غربت میں تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سو میں سے اسی ضعیف افراد کسی گمبھیر بیماری کا شکار ہیں اور چل پھر کر ہسپتال بھی نہیں پہنچ سکتے۔ سو میں سے پچاسی بزرگ بھیانک ذہنی و نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں اور وہ ہمیشہ اپنی تقدیر کو کوستے رہتے ہیں۔ کہنے کے لئے چین کی حکومت نے بزرگوں کے لئے پنشن کی اسکیم لاگو کی ہے لیکن وہ رقم اتنی معمولی ہے کہ اس سے نہ تو ان کا پیٹ بھرتا ہے، نہ ہی وہ بیمار پڑنے پر ہسپتال، نرسنگ ہوم کے خرچ کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ چین کے سابق صدر نے ایک بار کہا تھا کہ چین میں معمر لوگوں کی جیسی قابل رحم حالت ہے وہ چین کی سرکار کے لئے شرم کی بات ہے۔ ہم چین کو ایک طاقتور ملک کہتے ہیں لیکن آبادی کا ایک تہائی حصہ جو بوڑھا اور بزرگ ہے غربت، فاقہ کشی اور بیماری کا شکار ہے۔ اُنہوں نے چین کی حکومت سے اپیل کی تھی کہ معمرلوگوں کی پنشن میں اضافہ کیا جائے اور اس بات کا بھی انتظام کیا جائے کہ ان بزرگوں کو بیمار ہونے پر ہسپتال میں ان کا مفت علاج ہوسکے۔ لیکن چین کی حکومت نے سابق صدر کی اِس اپیل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ چین جہاں پر انسانیت کا راج دیکھنے کو ملتا تھا اب وہ سرمایہ داری کی وباء نے اپنے پنجے گاڑھ لئے ہیں۔ اب وہاں بھی انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ مغربی سرمایہ داری کی آلودگی نے اس خطے کی تہذیب و تمدن کو بھی آلودہ کر رہی ہے۔ درحقیقت خوشحال ملک اسے کہا جاتا ہے جہاں کی عوام خوشحال ہو لیکن عصر حاضر میں کیوں اس مرکزی پہلو کو نظر انداز کر کیا جا رہا ہے؟؟؟