Is Daur Ke Ganjay Farishtay - Nusrat Javeed


اس دور کے ”گنجے فرشتے“ 
نصرت جاوید 

قیامِ پاکستان سے چند برس قبل اور بعد کی دہائیوں میں بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ایک ہدایت کار بہت مشہور ہوئے۔ نام ان کا کے آصف تھا۔ ان کا ذکر سعادت حسن منٹو نے فلمی اور ادبی شخصیات کے بارے میں لکھے خاکوں پر مشتمل ”گنجے فرشتے“ میں بھی کیا ہے۔ 
منٹو کی آنکھ قوتِ مشاہدہ سے مالا مال تھی۔ کسی شخص کو اپنا موضوع بناتے توX Ray کی صورت اس کا ا ندر پوری طرح کھول کر دکھا دیتے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ فلم اور ادب کے شعبوں سے متعلقہ چند نامور افراد اپنے فن پر توجہ دینے کی بجائے اپنی ذاتی زندگی کو ”ڈرامائی“ بناکر لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادب سے وابستہ ایسے چند لوگ مگر انتہائی تخلیقی بھی ہوا کرتے تھے۔ فلم والوں کے ساتھ ایسا معاملہ کم ہی دیکھنے کو ملا۔ 
ادب کے حولے سے لاہوری زبان میں ”رنگ بازی“ کی انتہائی مثال منٹو کی نظر میں آغا حشرکاشمیری تھے۔ مکمل ڈرامہ اورمجسم شوباز۔ دھیمے انداز میں ”فقیروں“ کی مانند غلیظ اور بدبودار لباس میں بے نیاز دکھنا میراجی کی مجبوری تھی۔ یہ دونوں مگر بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال بھی تھے۔ 
فلمی دنیا سے متعلق ”رنگ باز“ مگر منٹو کو تخلیقی حوالوں سے ہمیشہ بانجھ نظر آئے۔ ڈبلیو زیڈ احمد اس کی عملی مثال تھے۔ فلم بنانے میں کئی برس لگادیتے۔ اس دوران مگر پبلسٹی کے جدید ترین ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے ہمیشہ خبروں میں رہتے۔ لوگوں کو محسوس ہوتا کہ شاید بہت تیاری کے ساتھ کوئی ایٹم بم ایسی شے ایجاد کرنے میں مصروف ہیں۔ 
کے آصف کا شمار بھی منٹو نے ایسے ہی ”رنگ بازوں“ میں کیا تھا۔ موصوف نے کئی برس لگاکر شہزادہ سلیم کی انار کلی سے محبت والی کہانی کو ”مغل اعظم“ کی صورت میں فلم بند کیا۔ اس فلم کی بے تحاشہ پبلسٹی ہوئی۔ اپنی نمائش کے روز پہلے ہی شو کے بعد مگر یہ فلم ”ڈبہ“ ثابت ہوئی۔ ہماری بدقسمتی کہ ”مغل اعظم“ کی ریلیز کے وقت منٹو وفات پاچکے تھے۔ زندہ ہوتے تو اس فلم کا ذکر کرتے ہوئے کے آصف کی ذات کو بھی ”گنجا فرشتہ“ بناکر مزید بے نقاب کردیتے۔ 
کے آصف بہرحال میرے اس کالم کا موضوع نہیں ہے۔ ذکر مجھے اتوار کی شب بہت دھوم دھڑکے کے بعد ریلیز ہوئی Paradise Leaks کا کرنا تھا۔ اس کی بابت لکھنے کے لئے قلم اٹھایا تو ”مغلِ اعظم“ یاد آگئی۔ وہ یاد آئی تو منٹو کے ”گنجے فرشتے“اور کے آصف بھی۔ 
گزشتہ کئی دنوں سے مقامی اور عالمی صحافت کے ”کے آصف“ ہمیں بہت مہارت کے ساتھ خبردار کررہے تھے کہ Panama جیسی Leaks کی ایک اور قسط منظر عام پر آنے والی ہے۔ Panama دستاویزات کی پہلی قسط آئی تو نام ان میں 400 سے زیادہ پاکستانیوں کے تھے۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ آپ کو ان میں سے کسی ایک شخص کا نام بھی یاد نہیں رہا ہوگا۔ نواز شریف کا نام ان لیکس میں موجود نہیں تھا۔ ان کے بچوں کی بنائی آف شور کمپنیوں کے ذریعے لندن میں خریدے فلیٹوں کا ذکر البتہ ضرور ہوا۔ اس ذکر کی بنیاد پر ہمارے ہاں طوفان اٹھا۔ آف شور کمپنی بنانا ایک بہت بڑا ”جرم“ تصور کیا گیا۔ یہ طے کرلیا گیا کہ ایسی کمپنیاں صرف ”سیاسی“ افراد ہی اقتدار کے دنوں میں کمیشن وغیرہ کے ذریعے کمائی حرام رقوم کو کسی نہ کسی طرح Launder کرکے بیرون ملک بھجواکر وہاں پراپرٹی کے دھندے کے ذریعے مزید منافع کمانے کے لئے بنایا کرتے ہیں۔ 
نواز شریف اور ان کے خاندان سے جب پانامہ دستاویزات میں بتائے فلیٹوں کی بابت پوچھ تاچھ شروع ہوئی تو دریافت یہ ہوا کہ عمران خان صاحب نے بھی لندن میں ایک فلیٹ آف شور کمپنی بناکر ہی خریدا تھا۔ ان کے شفاف ترین معاون جناب جہانگیر ترین نے توایسی ہی کمپنی کے ذریعے فلیٹس نہیں برطانیہ میں محل نما فارم ہاﺅس خرید رکھے ہیں۔ 
عمران خان اور جہانگیر ترین کی آف شور دریافت ہوئیں تو ہمیں بتایا گیا کہ چند آف شور کمپنیاں ”حلال“ بھی ہوا کرتی ہیں۔ اس حوالے سے مجھ ایسے جاہلوں کو Tax Evasion اور Tax Avoidance کے مابین فرق سمجھانے کی کوششیں ہوئیں۔ 
آف شور کمپنی کے حوالے سے مجھ ایسا کند ذہن صرف ایک سوال اٹھائے گا۔ نواز شریف کے بچوں کی جو کمپنیاں ہیں ان کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا؟ اگر یہ سرمایہ نواز شریف نے، فرض کریں، اپنے پہلے دور اقتدار میں لاہور اسلام آباد موٹروے بنانے والی کمپنی سے Kickbacks کے ذریعے حاصل کیا۔ اسے قوم سے چھپا کر کسی نہ کسی صورت Launder کرکے اپنے بچوں کے اکاﺅنٹس میں منتقل کردیا تو ان بچوں کی بنائی کمپنیاں ہر صورت ”حرام“ ہیں۔ 
سپریم کورٹ کی 6 ہیروں پر بنائی JITہمیں ابھی تک ایسے کوئی ثبوت مگر دکھا نہیں پائی ہے۔ ایک ”اقامہ“ اگرچہ دریافت ہوگیا جس کی وجہ سے نواز شریف اپنے عہدے سے فارغ کردئیے گئے۔ اپنی فراغت کے بعد سے اب وہ احتساب عدالت کے سامنے اپنی بے پناہ دولت کے ذرائع کا حساب دیں گے۔ عدالت مطمئن نہ ہوئی تو جیل جائیں گے۔ ان کے دشمنوں کو بہت مزا آئے گا۔ 
Panama میں آئے دیگر ناموں کو لیکن ایسی کسی ذلت اور تکلیف کا سامنا کرنا نہیں پڑا ہے۔ وہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی ہنسی خوشی بسر کررہے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کرے گا۔ Panama دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد سے ”حرام کمائی“ کے بارے میں مچایا شور صرف اور صرف شریف خاندان کے لئے مختص رہا ہے اور رہے گا۔ 
لوگوں کو بہت امید تھی کہ Paradise Leaks کے بعد شاید شریف خاندان جیسا کوئی اور ”موٹا شکار“ حق پرست ٹی وی والوں کو دست یاب ہوجائے گا۔ امید یہ بھی تھی کہ شاید اب باری سب پر بھاری مشہور ہوئے زرداری کی ہو۔ بات مگر بنی نہیں۔ بہت بڑا پہاڑ کھودنے کے بعد پاکستان کے حوالے سے Paradise Leaks میں شوکت عزیز کا نام سامنے آیا ہے۔ وہ مگر عسکری اشرافیہ کی نگہبانی میں 1999 سے 2007 تک پہلے وزیر خزانہ اور بعدازاں وزیر اعظم کے عہدوں پر فائز رہنے کے بعد اس ملک سے واپس اپنی اصل Base پر تشریف لے جاچکے ہیں۔ سیاسی عمل میں حصہ لینے کا اب انہیں کوئی شوق نہیں۔ چند دنوں کے ذکرکے بعد یقینا بھلادئیے جائیں گے۔ 
Panama اور Paradise جیسی Leaks کے ذریعے جو ڈرامے ہورہے ہیں وہ قطعاََ”ڈبہ“ ہیں۔ مجھ ایسے دن رات مشقت کے بعد روزمرہّ کا رزق کمانے والے افراد مگر ان کی بدولت ”بے نقاب“ ہوئے ناموں کے بارے میںبہت لطف محسوس کرتے ہیں۔ ہماری وقتی جلن کی تشفی ہوجاتی ہے۔ Super Rich شمار ہوتے لوگ وحشی درندوں کی طرح ہر صورت منافع کمانے کو بے چین نظر آتے ہیں اور اس ضمن میں آف شور کمپنیاں بناتے ہیں۔ 
بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ Panama اور Paradise جیسی Leaks کے بارے میں بہت نازاں محسوس کرنے والے "Investigative" صحافیوں نے کمال کیا دکھایا ہے۔ یہ دونوں Leaksانہیں آف شور کمپنیوں کو قانونی Coverفراہم کرنے والی کمپنیوں میں کام کرنے والے چند افراد نے ان کمپنیوں کے Data میں سے چوری شدہ معلومات کے ذریعے فراہم کی ہیں۔ 
اخلاقی اعتبار سے Data کی یہ چوری اپنی جگہ ایک بددیانتی ہے۔ آپ سوچ سمجھ کر آف شور کمپنیوں کو قانونی Cover فراہم کرنے والوں کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ دھندا ”حرام“ ہے تو اتنے برس تک ایسی کمپنی سے وابستہ کیوں رہے؟ ہوسکتا ہے بالآخر آپ کا ”ضمیر جاگ“ گیا۔ آپ نے ”ٹیکس چوروں“ کے بارے میں معلومات اس کمپنی کے Data سے جس کے لئے آپ کام کرتے رہے، چرالیں انہیں چند صحافیوں کے حوالے کردیا۔ ”ٹیکس چوروں“ کو ”بے نقاب“ کرنے والے ان ”مجاہدوں“ نے مگر اپنی جان بچانے کے بہانے گمنامی اختیار کئے رکھی۔ وہ خود تو گمنام رہے مگر ICIJ کے صحافی ان کے چوری شدہ Data کو بے نقاب کرتے ہوئے خود کو اس دور کے سقراط ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ خود کو پھنے خان ثابت کرتے یہ صحافی اس دور کے ”گنجے فرشتے“ ہیں۔ افسوس منٹو نہ رہا۔ وہ زندہ ہوتا تو ان کی ”رنگ بازیوں“ کی ویسے ہی خبرلیتا جیسی اس نے آغا حشر کاشمیری کی صورت لی تھی۔