ہندوستانی معاشرے میں ہندوتوا سوچ کی جڑیں زور پکڑنے لگیں!
ایمان ملک
بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی کہانی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں مگر اب تو اس انتہا پسندی(سیفرانائزیشن) کے بیج بھارتی اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں بھی نشونما پانے لگے ہیں۔ جس کا ثبوت کرالا(ساؤتھ انڈیا) میں سنگھ پریوار کے کلیدی لیڈران کو محض خراج تحسین پیش کرنے کے لئے متعارف کرایا جانے والا نصاب ہے۔ یہ نصاب ہندوتوا نظریے کی بانی تنظیم آرایس ایس(راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے تعلیمی ونگ نے متعارف کروایا ہے اور اس میں متعدد تاریخی حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔
اس سے قبل ماضی میں بھی متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جب مرکز میں موجود بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت اوراس کی نظریاتی پیرنٹ تنظیم یعنی آرایس ایس نے بھی اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں ہندوتوا نظریات کی بنیاد پر تبدیلی لانے کی کوششیں کیں۔ اور اپنی اسی پرانی روش کو برقرار رکھتے ہوئےاب ایک بار پھرآرایس ایس نے ملیالم زبان میں گریڈ 4 سے گریڈ 12 تک کے طالب علموں کے لئے 9 کتب شائع کروائی ہیں۔ اورتشویش طلب بات یہ ہے کہ انہی کتب میں ایک ثقافتی نقشہ بھی شائع کیا گیا ہے جن میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ جس سے بخوبی طور پر خطے میں بھارت کی جارحانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔
اس سے قبل بی جے پی کے انتہا پسند لیڈر سنگیت سوم نے بھارت کے عظیم قومی ورثے تاج محل( جوایک مسلمان مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا اور اب وہ ریاستی حکومت کو 21 کروڑ روپے کا سالانہ زرمبادلہ مہیا کر رہا ہے) کو ہندوستانی ثقافت پر بد نما داغ قراردیتے ہوئے بھارت میں پنپنے والی انتہا پسندی کو مزید ہوا دی ہے۔ اس عمل سے ظاہرہوتا ہے کہ بی جے پی تاریخ کو مسخ کرنے اور آرایس ایس کی خواہش کے مطابق ہندوتوا فلاسفی کی روشنی میں ازسرنو لکھنےمیں مگن ہے جس میں متواتر بھارت کی اسلامی شناخت اور تشخص کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ اور آر ایس ایس اپنے اسی ہولناک ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے راستے کے تمام پتھر چن چن کر صاف کر رہی ہے۔ جس کی مثال ہندو انتہا پسندی کے خلاف برسریپکار خاتون صحافی گوری لنکیش(ہفت روزہ اخبار لنکیش پتر کی ایڈیٹر) کا بیمانہ قتل ہے۔
بھارت میں اقلیتیں نا صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ انہیں شدھی جیسی تحریکوں کے ذریعے زبردستی طاقت کے زور پر ہندو بنانے کی کوششیں اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ عدم برداشت اور عدم رواداری بھارتی معاشرے کی بنیادوں کو تیزی سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ جہاں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والاامتیازی سلوک تو معمول کی بات ہے۔ مگر اب وہاں کے لبرل اور سیکولر طبقے اس نا انصافی اور بربریت کے خلاف اپنی آوازیں بلند کرنے لگے ہیں۔ اسی لئے متعدد ممتاز بھارتی لکھاریوں اور ادیبوں نے بھی احتجاجاً اپنے اعزازات حکومت کو واپس کیے۔
بلا شبہ بھارت کی اس انتہا پسند روش سے سیکولرازم کے خوبصورت لبادے میں پوشیدہ بھارت کا ہولناک چہرہ تیزی سے بے نقاب ہورہا ہے جس نے اپنی شناخت تو سیکولر ملک کے طور پر کرائی مگر حقیقت میں وہ ہندو انتہا پسندی کا مرکز و محور ہے۔ اور ناقدین کی رائے میں بھارت میں مودی سرکار کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی یہ انتہا پسندی خود بھارت کے وجود کے لئے بھی کسی بڑے خطرے سے کم نہیں خاص طور پر جب بھارت میں 30 سے زائد علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔
نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے دلسوز مظالم، اور وہاں پر ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیاں اور پاک بھارت خراب تعلقات یقنی طور پر ہندو انتہا پسندی کے شکار مودی سرکار کے جنگی جنون اور پاکستان دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور بھارتی دہشتگرد کلبھوشن کی بلوچستان سے رنگے ہاتھوں گرفتاری اوراعتراف جرم کے بعد بھارت کی پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہونے میں مزید کسی ثبوت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کے دورِ اقتدار میں پاک بھارت امن مزاکرات کے امکانات بالکل معدوم ہو چکے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان اور بھارت کے مابین روایتی دشمنی اور ناخوشگوار تعلقات میں تیزی سے ہوتا ہوا اضافہ جنوبی ایشیاء کے لئے خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ دونوں ممالک جوہری ریاستیں ہیں۔ اور ان کے درمیان کشیدگی ہی سارک کی ناکامی اوراس خطے کی پسماندگی کی بڑی وجہ تصور کی جاتی ہے۔ لہٰذا جنوبی ایشیاء کی ترقی و خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ بھارت ہمسایہ ممالک پر اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے اور علاقائی حاکمیت کے خبط اور خوابوں سے جلد از جلد باہر نکلے۔