Churi Maar Bhai - Kausar Abbas


چھری مار بھائی! 
کوثرعباس 

میرے پیارے چھری ماربھائی!پہلے میں نے سوچا کہ یہ عرضی تھانیدار کے نام لکھوں گا کہ آپ کو کھلی چھوٹ دے، لیکن پھر سوچا کہ وہ تو صرف ایک تھانے کا انچارج ہے اور اس کے اوپر بھی کئی انچارج، ایسے بندے کو عرضی دینے کا بھلا فائدہ کیا ہوگا؟ غور کرنے کے لیے اپنے ہوٹل چلا گیا۔ آپ کی یہ غلط فہمی دور کردوں کہ ”اپنے ہوٹل“ سے مراد یہ نہیں ہے کہ میں کوئی ہوٹل چلاتاہوں۔ ہوٹل تو شیداہی چلاتاہے۔ میں تو صرف مالک ہوں۔ جانے کو تو میں کسی اچھے ہوٹل میں بھی جا سکتا ہوں، مجھے زیب بھی یہی دیتا ہے لیکن وہاں چائے پیسوں کی ملتی ہے اور یہاں مفت۔ شیدے کی جرات نہیں ہے کہ مجھ سے پیسے مانگے۔ وہ بیچارہ ڈرتا ہے کہ اگر پیسے مانگے تو کہیں ہوٹل خالی کراکے طافو کباڑیے کو ہی نہ دے دوں۔ ہوٹل جاکر سکون سے بیٹھ گیا، کام تو کوئی تھا نہیں، اس لیے مکمل اطمینان سے غورکرتا رہا کہ کس کی خدمت میں درخواست دائر کروں؟ پورے چالیس کپ چائے اڑانے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاکہ یہ خط آپ ہی لکھا جائے۔ 
چھری مار بھائی! آج کل ٹی وی آن کریں یا اخبارات اٹھا لیں، ہر طرف تمہارا ہی چرچا ہے۔ ہر گلی، ہر چوک، ہر تھڑے اورہر محفل کا موضوع سخن تم ہی ہو۔ ایسی شہرت کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ کسی جگہ تمہیں چھری مار کہا جارہا ہے، کوئی نقاب پوش، کوئی چاقو مار اور کوئی چاقوبردار کا نام دے رہا ہے۔ پچھلے دنوں تین چار بزرگ ہستیاں آپس میں گفتگوکر رہی تھیں۔ قریب جا کر سناتو ایک بزرگ کہہ رہے تھے”اس کا نام چھری مار ہے“۔ ”نہیں! چھری تو مؤنث ہے“دوسرے بزرگ نے جواب دیا”وہ مرد ہے تو اسے چاقو مارہونا چاہیے“۔ یہ سن کر حاجی صاحب نے فرمایا”ہو سکتا ہے اس نے ”چھری“ کا نام کسی عورت کی وجہ سے اختیار کیا ہو“۔ ”چھری مؤنث اور چاقومذکر، تو بھلے لوگو! جوڑ تو ہمیشہ نر مادہ کا ہی بنتا ہے نا ں“پاس بیٹھے شرفو نائی نے ایک ناقابل تردید حقیقت کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے اس کی بات سنی اور مسکراتاہوا چل دیا۔ چاقو ہو، چھری ہو یا پھر خنجر، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میرے نزدیک اصل بات یہ ہے کہ میڈیا تمہاری صرف منفی تصویرپیش کررہاہے، وہ تمہیں ایک چھلاوے کے طور پر پیش کر رہا ہے جو ایک موٹر سائیکل پر سوا ر ہے، آتا ہے اور کسی نقاب پوش عورت کو نشانہ بنا کر غائب ہوجاتا ہے۔ تمہیں عورتوں کا دشمن کہا جا رہا ہے، پولیس کو بھی مطعون کیا جا رہا ہے کہ وہ تمہیں پکڑنے میں ناکا م کیوں ہے؟کل ہماری انجمن کا اجلاس ہواجس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ کہیں اس پروپیگنڈے سے بددل ہوکرتم بیٹھ ہی نہ جاؤ۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہاری حوصلہ افزائی کے لیے خط لکھا جائے تا کہ لوگوں کو تمہارے پازیٹوپہلو سے بھی واقفیت ہو۔ 
 اے چھری مارمحسن! ہم کس منہ سے آپ کا شکریہ اداکریں؟ ہم آپ کے احسانات کا بدلہ کبھی نہیں اتارسکیں گے۔ آج مہینے کی ستائیس تاریخ ہے اور ابھی تک ہمارے گھروں میں نصف تنخواہ موجود ہے۔ میری شادی کو پچیس سال ہو گئے اوراس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہر مہینے کی پندرہ تاریخ تک میری تمام تنخواہ قربانی لگ چکی ہوتی تھی۔ جب بھی تنخوا ملتی، بیگم صاحبہ کا پیار بڑھنے لگتا تھا۔ پہلے پہل تو مجھے اپنی قسمت پر رشک آتا تھا کہ اتناپیار کرنے والی بیوی ملی ہے لیکن پھریہ غلط فہمی دور ہوگئی اور یہ سب کچھ آپ ہی کی بدولت ہوا ہے۔ چھری مار بھائی!تنخواہ ملنے کے بعد پہلا اتوار میرے لیے بہت بھاری تھا۔ پورا ہفتہ صبح سویرے اٹھنا، ناشتا تیارکرنا، تیار ہونا، بچوں کو سکول چھوڑنااور پھر وقت پر آفس پہنچنا، سوچتا تھا کہ اتوار کو مزے سے دیر تک سوئیں گے لیکن واہ نصیبا! یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ رات کو ہی وارننگ دے دی جاتی تھی کہ صبح شاپنگ کے لیے جانا ہے۔ شاپنگ مال میں جاتے ہی پتا نہیں بیگم کو ایسے کیوں لگتا تھا کہ یہ چیز بھی گویا اس ہی کے لیے بنی ہے۔ جوں جوں پرس خالی ہوتا جاتا توں توں بیگم کا دل بھرتا جاتا۔ پرس کے خالی ہونے سے بیگم کے دل کا کیا تعلق ہے؟یہ ایک پیچیدہ کیمسٹری ہے۔ بہرحال یہ سلسلہ تب تک چلتا رہتا جب تک ہمارے گھر سے تنخواہ نام کی چڑیا اڑنہ جاتی۔ لاکھ بار منع کیا کہ اتنے سارے کپڑے، زیور، جوتے اور میک اپ کا کرنا کیاہے؟ جواب ملتا”فلاں فلاں کے گھر منگنی کا فنکشن ہے، کس کس کے گھر میں شادی ہونا ہے، کہاں کہاں چالیسواں اور کہاں کہاں سنت ابراہیمی اداکی جانے والی ہے“۔ اس دوران آنکھ لگ جاتی تو وہ مجھے کہنی مار کے کہتیں ”اجی! سن رہے ہو؟“لیکن کہتے ہیں کہ ہررات کا سویراضرورہوتا ہے۔ قسمت نے پلٹا کھایا، آج کل یہ سارے سلسلے رک گئے ہیں اور میں اتوار کو خوب دن چڑھے تک سوتا بھی ہوں۔ میں حیران تھا کہ یہ تبدیلی کیونکر آئی ہے؟ پھر پتا چلا کہ اس کا سہرا تمہارے سے سجتاہے۔ 
آج بیگم سے شاپنگ کاکہاتوکہنے لگیں ”کیوں مروانا ہے مجھے؟ ان دنوں شہر میں ایک نقاب پوش چھری مارآیا ہوا جو حسین اورنوجوان عورتوں پر چاقوسے وار کر کے فرارہوجاتا ہے۔ میں تو باہرنہیں جاؤں گی“۔ بیگم کی بات حقیقت تھی لیکن ”نوجوان“ کا لفظ ذرا عجیب سالگا۔ جب یقین ہوگیا کہ بیگم اب باہر جانے والی نہیں تب سے میں بھی ایک فیاض اور سخی شوہر بن گیا ہوں جو ہرروز بیگم کو کہتا ہے کہ شاپنگ کے لیے جانا ہے لیکن ہرروز جواب ملتاہے”نہیں!“۔ چھری مار بھائی! یہ سب تمہاری بدولت واقع ہوا ہے۔ تمہاری وجہ سے اس مہینے قرض لینے سے جان چھوٹ گئی ہے۔ تمہاری کوششیں جاری رہیں تو اگلے دوماہ تک لیا ہوا قرضہ بھی واپس کردیا جائے گا۔ بلکہ مجھے تو چارسال تک اپنا ذاتی گھر بھی تعمیر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے بشرطیکہ تم اتنے عرصے تک زندہ رہے تو۔ خط کے ساتھ ہم تمہیں ایک اعلیٰ پائے کا چاقوبھی بھیج رہے ہیں۔ امید ہے کہ ہمارایہ ادنیٰ سا تحفہ قبول کریں گے۔ 
فقط: انجمن باہمی برائے شوہران ِمجبورستان