Tax Chore Kon? - Zahid Ikram


ٹیکس چور کون؟؟ 
(حکومتى پیندے میں سوراخ) 
زاہداکرام 

آپس کی بات ہے اپنی محنت کی کمائی سے دوسروں کیلئے کچھ حصہ نکالنا دل گردے کی بات ہے زکوۃ، خیرات بھی اسی وقت بٹتی ہے جب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مصیبت گلے آلگے، اکثر سننے میں آتا ہے کہ، پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے، FBR کے اشتہارات بھی اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتے دکھائی دیتے ہیں، کہ ٹیکس چوری کی وجہ سے ملک ترقی، نہیں کر پارہا، سیاسی اشرافیہ اور حکومتی لوگ برملا اس کا اظہار کرتے ہیں (کہ وصول شدہ ٹیکس کی رقوم ناکافی ہیں ان کی عیاشیوں کے لئے )، یہ درست ہے کہ حکومتی کاروبار چلانے کیلئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ پیسہ اس ملک میں رہنے والے ادا کرتے ہیں، جس کو ٹیکس کا نام دیا جاتا ہے، جو حکومت (اگر ہو تو) اکٹھا کرنے کے بعد عوام كى مختلف سہولیات اور بنیادی ضروریا ت پر خرچ کرتی ہے۔ ٹیکس کی کئی اقسام مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آتی ہیں جن میں اہم قسم آمدن یا ویلتھ ٹیکس ہے، اسلام میں اس کو زکوۃ کے نام سے جانا جاتا ہے، زکوۃ بیت المال میں جمع ہوتی ہے جو بعد میں عوام پر خرچ کی جاتی ہے، جبکہ پاکستان میں زکوۃ بھی کاٹی جاتی ہے جو غریبوں تک نہیں پہنچتی۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، جس کا زیادہ تر انحصار زراعت پر تھا، لیکن اب بیرونی قرضوں او ر ٹیکسوں کے فرسوہ نظام پر ہے، پاکستان میں رائج ٹیکسوں کی اقسام۔ ۔ ۔ جن میں سے بعض ڈائریکٹ ٹیکسز ہیں اور کافی ان ڈائریکٹ ٹیکسز ہیں، میں کوئی ٹیکس ایکسپرٹ نہیں، مگر میں ایک عام ٹیکس دہندہ شہری ہوں جو ٹیکسوں کی چکی میں روز پستا ہوں اور روزانہ درج ذیل ٹیکس دینے پر مجبور ہوں، دل کے پھپھولے ہیں جن کی ایک طویل لسٹ ہے، جن میں چند معروف آپکی نظر ہیں، اگر کم زیادہ ہوں تو مجھے آگاہ کریں۔ ۔ ۔ 
بجلی پر ٹیکس، پانی پر ٹیکس، سوئی گیس پر ٹیکس، پٹرول پر ٹیکس، ٹول ٹیکس، فوڈ پرٹیکس، کار اور سکوٹر پر ٹیکس، ہیلتھ ٹیکس، ویلتھ یا آمدن پر ٹیکس، بینک سے رقم نکلوانے پر ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، کیپٹل ویلیو ٹیکس، موبائیل پر ٹیکس، موبائیل میں کارڈ لوڈ یا بیلنس ڈلوانے پر ٹیکس وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ اس ملک کا ایک عام شہری جس کی تنخوا ہ کچھ بھی ہووہ اپنے گھر کے پراپرٹی ٹیکس سے شروع ہوکر ہر قسم کی ضرورت پر ٹیکس دیتا ہے، جوحکومت صارف کی جیب سے زبردستی نکلوا لیتی ہے، اور صارف چوں چرا بھی نہیں کر پاتا، جبکہ سیاسی اشرافیہ اور بيشترحکومتی مشینری کے افراد ان ٹیکسوں سے مستثنی ہیں۔ 
ایک چھوٹے کنبے کے گھر یلو صارف کے بلوں اور ٹیکسوں کا احوال پڑھ لیں، جس میں اگر گھر اسکا اپنا ہے تو اسے سالانہ پراپرٹی ٹیکس کے نام پر ایک معقول رقم حکومت کو دینا پڑتی ہے، اگر اس نے اپنے گھر کا کچھ حصہ کرایہ پر دے رکھا ہے تو پھر کچھ زیادہ معقول رقم دینا پڑتی ہے، اس کے بعد گھر کے بلوں کی باری آتی ہے، تو ٹیکسوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، یہاں ایک عام سے گھر کی مثال پیش کرتا ہوں، جس میں ایک سال میں صرف شدہ بجلی، ۱۷ اگست ۲۰۱۶ء سے ۱۷ اگست ۲۰۱۷ء تک کے کل ٹوٹل یونٹ 6400 تھے جس کا ٹوٹل بل 108201 روپے آیا، بجلی کی قیمت6687.43، جنرل سیلز ٹیکس 15752 روپے، ایکسائیز ڈیوٹی 1183.93 روپے دی، مختلف سرچارج کی مد میں 22854 روپے دیے، یعنی صارف نے صرف بجلی کے بل پر ۷ قسم کے ٹیکس ادا کئے، حکومت اپنے بجلی کے نام نہاد منصوبوں کیلئے ایک طرف عوام کی کھال اتار رہے ہیں، اور بجلی پھر بھی ناپیدجبکہ دوسری طرف ترقیاتی بینکوں اور یو ایس ایڈ سے قرضے لیے جاتے ہیں، بہت سال تک نیلم جہلم پراجیکٹ کے نا م پر بھی ٹیکس اور قرضہ لیا جاتا رہا ہے -آپ باقی بل دیکھ لیں ان میں بھی جنرل سیلز ٹیکس کے نام پر کافی رقم ہتھیا لی جاتی ہے، مثال کے طور پر اپنے گھر کے سارے بل اٹھا کر دیکھ لیں، ادراک ہو جائے گا، سواری کی بات کر لیں، خریدتے وقت ۳۰۰ گنا ٹیکس ادا کیا پھر سالانہ ٹوکن کے نا م پر ٹیکس، پٹرول پر بھی ٹیکس اور آئے دن مہنگا ئی اور ہڑتال، روڈ پرآجائیں ٹول ٹیکس، موبایل پر ٹیکس بیلینس لوڈ کرواتے ہی کٹوتی، کھانا کھانے چلے جائیں، فوڈ ٹیکس، وہ بھی ناقص اور غیر معیاری ملاوٹ زدہ کھانے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ٹیکس یا جزیہ دینے پر ہم ٹیکس چور نہیں، اعتراض ہے تو بس اتنا کہ خدارا، اس کے بدلے حکومت / ریاست وہ سہولیات تو د ے جو عوام کا حق ہے، اگر شہری کی تنخواہ سے جو انکم ٹیکس کٹوتی ہوتی ہے وہ اس کی موت کے بعد اس کی فیملی کو دس گنا معاوضہ کی رقم قانون کے مطابق جو بنتی ہے وہ تو خودکار سسٹم کے تحت ملے، انصاف کے تقاضے تو پورے ہوں۔ 
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بیرونی قرضے جن کا بوجھ آخر ۱۷ء تک 7.9 کھرب تک پہنچ جائے گا، اور مزید قرضوں کیلئے حکومت عوام کے اثاثے موٹر ویز، ڈیمز، ایئرپورٹس گروی رکھوا چکی ہے اس کے علاوہ عوام سے ٹیکس بھی آخر پیسہ کہاں جاتا ہے، جبکہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں، کوئی بنیادی سہولیات ٹھیک طریقے سے نہیں دی گئی، سکولوں کا انتظام دیکھ لیں ناکافی اور خستہ حال بلڈنگز، اساتذہ کی تعداد ناکافی، لوگ بہتر تعلیم کیلئے اپنے بچوں کو پرایؤیٹ سکولوں میں مہنگی فیسوں پر داخل کروانے پر مجبور، صحت کی سہولیات کا تذکرہ کیا جو چند ہسپتال لاہور جیسے بڑے شہر میں موجود ہیں وہ بھی ہندووں اور غیروں کی مہربانی سے وجود میں آئے جیسے گنگا رام، میو ہسپتال، گلاب دیوی، لیڈی ولینگٹن اور شیخ زائدوغیرہ ان کا بھی اللہ حافظ، نئے تو بنائے نہیں گئے کہیں، لوگ پرائیویٹ مہنگے علا ج پر مجبورا ن کی جگہوں پر اورنج ٹرین پر اربوں خرچ، کیونکہ وہاں سے کک بیکس جو ملنا ہوتی ہیں، پینے کا صاف پانی اب تو بڑے شہروں میں بھی خواب رفتہ ہوا۔ 
یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ریاست میں موجود افراد کی نگہداشت کریں اور یہ بھی ریاستی اداروں کے فرائض میں شامل ہے، کہ وہ ریاست کو مضبوط بنائیں، لوگ چین کی مثال دیتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں بتائیں گے عوام اور حکومت کا کیا کردار رہا ہے، یورپ کی مثال لیں تو دیکھیں کون کونسی سہولیات حکومت کی طرف سے دی جاتی ہیں عوام سے لیے گئے ٹیکسوں کے مقابل، کیوں ترقی پذیر ممالک کے ہنر مند وہاں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ 
محکمہ ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن نے گذشتہ ۲ ماہ ۱۷ء میں 9218.846 روپے ٹیکس کی مد میں اکھٹے کئے، مگر ڈار صاحب نے تو حد کردی، پچھلے چار سال سے وزیر خزانہ ہیں، جن پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے پھر بھی عہدہ پر براجمان ہیں، انہوں نے ملک کے تاجروں، صنعت کاروں، دکانداروں اور ملازم پیشہ افراد کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا؟ عوام پر کئی قسم کے ٹیکسز لاگو کردیئے اور اکٹھا ہواتمام پیسہ مل بانٹ کر دوبئی اور لندن میں جائیدادیں خریدنے پر لگا دیا، اور ہر بچہ پیدائشی مقروض ہے، ملک میں قرضوں کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہے، قومی ادارے انحطاط کا شکا رہیں، تجارتی خساروں کی بات ہی کیا، رہی عوام تو وہ تو ٹیکس دیتی ہے ٹیکس چور نہیں لیکن حکومت کے پیندے میں ہی سوراخ ہے جس کو بند کرنے کی ضرورت ہے۔