مظفرآباد کی ویرانی اور جدا ہوتا نیلم جہلم کا پانی
طاہر احمد فاروقی
آزاد کشمیر کے انتخابات اسلام آباد مسلم لیگ ن کی سرکار کیلئے درپیش آزمائش میں بہت بڑی راحت ثابت ہوئے تھے مگر اب یہاں آزاد کشمیر بالخصوص مظفرآباد ڈیژن کیلئے آزمائش کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ وہاں کی نواز شریف سرکار کے مسلسل و شدید ترین دباؤ پر نیلم جہلم ہائیڈرل پراجیکٹ سے بجلی کی پیداوار شروع کرنے کی تیاریاں ہو چکی ہیں مگر اس سے پہلے اس پراجیکٹ کی معمار اسلام آباد سرکار واپڈا اور کمپنی نے یہاں کے عوام کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے جو کچھ کرنا تھا وہ ہوائی نعرے دعوے ہی ثابت ہوئے ہیں اگرچہ اس کی ذمہ دار ماضی کی وہ ریاستی نعرہ لگانے والی کانفرنس ہے جس نے اقتدار کی عوض پراجیکٹ پر کام شروع ہونے سے پہلے معاہدے کی بات کرنا ہی فضول سمجھا تھا مگر ن لیگ کے سربراہ نواز شریف نے معاہدے سمیت یہاں کے عوام سے جو وعدے کیئے تھے وہ وہاں چار سال اور یہاں گیارہ سال سے زائد لیگی حکومت کا عرصہ ہونے کے باوجود پورے نہیں ہو سکے ہیں اور اب پنجاب میں دوبارہ مینڈیٹ کے حصول کیلئے لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے سارہ ہی زور نیلم جہلم پراجیکٹ کو آپریشنل کرنے پر لگا دیا ہے جسکے باعث واپڈا نے دریا کا رخ موڑ کر پانی پراجیکٹ سرنگ کی طرف لے جانے کا فیصلہ کرلیا ہے مگر اس سے پہلے دنیا کے سبھی مذاہب کے تقاضوں آئین قانون ضابطے کے مطابق یہی فریضہ بنتا تھا یہاں کے علاقوں کی آبادیوں کو اس کے بعد درپیش آزمائشوں سے محفوظ بنا لیا جاتا یعنی دریا کا پانی اپنی زندگی کے اثرات کے ساتھ رواں دواں رہتا درجہ حرارت بڑھنے کے خطرے کا تدارک کیا جاتا ماحولیاتی طوفان سے سد باب یقینی بنایا جاتا نوسیری سے مظفرآباد گڑھی دوپٹہ کوہالہ تک ساری آبادی کو پینے و استعمال کے صاف پانی کی ضروریات کا اہتمام ہو جاتا سیوریج ٹریٹمنٹ سسٹم بن گیا ہوتا دیہاتوں میں سو سے زائد واٹر سپلائی سکیمیں شہر میں واٹر باڈیز کے شاندار پراجیکٹس پر عوام اطمینان سے ہوتے متاثرہ آبادی کو روزگار ہنر مندی سمیت ترقی خوشحالی کے زرائع اسباب میسر آچکے ہوتے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے اس پراجیکٹ کے آغاز سے ہی سب ہی حکومتیں سوئی رہیں اور خود سیاسی قیادتیں عوام بھی شریک جرم بنے رہے جو شخصیات یا لوگ توجہ دلاتے رہے ان کو نظر انداز کر کے حقیر کر دیا گیا اور اب جب پانی سر سے گزرنے کو تیار ہے تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں اگرچہ یہ سچ ہے ان دریاؤں کے سونے سے زیادہ قیمتی پانی کو انسانی فلاح کا موجب بنایا جاتا خاص کر توانائی (بجلی) کے حوالے سے منصوبے شروع ہو جاتے جس کیلئے یہاں کی قیادت نے 1985 میں اسلام آباد کے حاکموں کی توجہ دلائی تھی مگر جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بڑے بڑے ڈیمز بنا لیئے تو ان کو ہوش آیا اور وہ بھی چلتے پانی کے ساتھ بجلی پیدا کرنے کے حل کی موجودگی کے باوجود دریا کا رخ موڑنے پانی روک کر طریقے کے زریعے اختیار کیا گیا ہے اس میں بھی درجے بالا سب اقدامات کا پیشگی اہتمام نہ کرنا اسلام آباد سرکا ر واپڈا یہاں کی حکومتوں عوام کا ایسا جرم عظیم ہے جسکا خمیازہ آج اور کل کی نسلیں بھکتیں گی اب بھی وقت ہے کم از کم احتیاطی تدابیر اقدامات یقینی بنانے کیلئے منفی رویے اور شر انگیزی پھیلانے والے عناصر کو دور رکھتے ہوئے پرامن بامقصد تعمیر ی جدوجہد منطم کی جائے معاہدے سے لیکر تمام ناگزیز اقدامات تک پانی سرنگ میں داخل کرنے سے روکا جائے ورنہ جسطرح پاکستان نواز اینڈ کو نے قرضوں میں ڈبو دیا ہے اسطرح یہاں کے متاثرہ علاقوں کے عوام ماحولیاتی طوفان پانی کے بحران سیوریج کے نہ ہونے کے عذاب سمیت زندگیوں کو ویران کر کے رکھ دے گی۔ بلکہ مستقبل میں خود پنجاب کی زرعی زمینوں کیلئے موت اور ہزارہ کے علاقوں کیلئے بھی بہت بڑے مسائل پیدا ہوں گے۔ یہ حکومت پاکستان سبھی اداروں شعبوں مکاتب فکر آزاد حکومت اپوزیشن کی زیادہ ذمہ داری ہے اس ضمن میں جلد بازی کے بجائے حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرے اور سیاسی قیادتیں عوام بھی مخالفت برائے مخالفت کے بجائے مثبت موقف کے ساتھ بیداری کا ثبوت دیں۔ ناصرف یہ بہت بڑی آزمائش ہے بلکہ آزاد کشمیر میں معمول کے امور بالخصوص مالیاتی ایشوز اور انتظامی معاملات تعمیر و ترقی کے عمل و کارکردگی کے حوالے سے بہت تلخ حقیقتیں ناسور بن سکتی ہیں جسکے لیئے آزاد کشمیر حکومت کو دارلحکومت مسلسل بیٹھ کر پہرہ داری کے ساتھ کام کرنا ہو گا جسکا فقدان سرکاری مشینری نے کام کرنے والوں کیلئے بھی حوصلہ شکنی کا موجد ثابت ہورہا ہے قول و فعل کا تضاد آخر کب تک چلے گا؟؟؟؟؟