Kisi Ki Aah Se Darain - Ali Mehmood


کسی کی آہ سے ڈریں 
علی محمود 

بادشاہ تیمورکا شمار تاریخ کے چند بڑے فاتحین میں کیا جا تا ہے۔ بادشاہ تیمور کوامیر تیمور اور تیمور لنگ بھی کہا جاتا ہے اس کی ایک ٹانگ میں نقص تھاجس کی وجہ سے اس کو لنگ کہا جاتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں پچپن ممالک کو فتح کیا۔ اوراس کی فوج نے تقریباً سترہ ملین لوگوں کو قتل کیااس کی فوجیں جس علاقے کو فتح کرتیں تھیں ان کو اس بات کی اجازت ہوتی تھی کہ وہ وہاں کے لوگوں کو ساتھ جو جی چاہیں سلوک کریں۔ اس نے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ انسانی کھوپڑیوں کے مینار بھی بنوائے۔ بادشاہ تیمور کہا کرتا تھا کہ جب میں کٹی گردن سے اچھلتا ہوا خون دیکھتا ہوں تو مجھے عجیب سی لذت محسوس ہوتی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود وہ ایک انسان بھی تھا۔ اور اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے یہ جتنا بھی ظلم کر لے خون کی جتنی بھی ندیاں بہا لے۔ بارحال اس کے اندر موجود اچھائی اور برائی کی جنگ چلتی رہتی ہے۔ احساس ندامت زندگی کے کسی موڑ پر سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ تیمور آخری وقت میں اکثر رات کو رویا کرتا تھا۔ اور احساس ندامت میں اس قدر اونچا رویا کرتا تھا کہ اس کی چیخیں اس کے چوبدار سنا کرتے تھے۔ مورخ لکھتے ہیں کہ عمر کے آخری حصہ میں اس کو ڈراونے اور خوفناک خواب آنا شروع ہو گئے تھے میں یہاں دو خوابوں کا ذکر کر رہا ہوں۔ وہ دیکھتا ہے کہ بہت سارے مرے ہوئے لوگ ایک ساتھ اس کی طرف بڑھتے چلے آرہے ہیں اور وہ اس کے اتنے قریب آجاتے ہیں کہ اسکا دم گھٹنے لگتا ہے۔ وہ صبح اپنے بزرگ روحانی پیشواوں کو اکھٹا کر کے اپنے خواب کے بارے میں دریافت کرتا ہے وہ اسکو مشورہ دیتے ہیں کہ اللہ سے سچے دل سے توبہ کریں اور اپنی عبادات اور وضائف میں اضافہ کر دیں۔ ایک اور خواب جسکا ذکر ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک کھلی جگہ میں کچھ لوگ بیٹھ کر کچھ حساب کتاب اور جانچ پڑتال میں مصروف ہیں اس نے سمجھا کہ یہ دنیا کی دولت اور مال و اسباب کی جانچ پڑتا ل کر رہے ہیں۔ یہ ان کے پاس جا کر پوچھتا ہے کہ کس کس کی دولت کا تم حساب کتاب اور جانچ پڑتال کر رہے ہو ؟ وہ کہنے لگے ہم مال و دولت کا حسا ب کرنے کے لئے نہیں بیٹھے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس کس کے پاس زندگی کی کتنی مہلت باقی رہ گئی ہے۔ اس نے ان سے پو چھا کہ میرے پاس کتنی مہلت ہے؟ وہ کہنے لگے بہت تھوری۔ وہ فوراً جاگ جاتا ہے اور جلدی سے اپنے روحانی پیشوا کے پاسجاتا ہیا اور اس سے سارا ماجرہ دریافت کرتا ہے۔ لیکن ان روحانی پیشوا کے پاس اس کے جواب میں صرف خاموشی تھی۔ کیونکہ وہ جانتے تھی ایسی باتوں کا کوئی جواب نہیں ہوا کرتا
اگر ہم اپنے اردگرد نظردوڑائیں تو ہمیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ جو بھی کسی پر ظلم کرتا ہے یا کسی کا دل دکھاتا ہے وہ زندگی کے کسی مرحلے پر اسکا خمیازہ ضرور بھگتا ہے۔ مظلوموں کی آہیں بھیانک خواب بن کر ہر وقت پیچھا کرتی رہتی ہیں۔ دل سے نکلی آہ میں بڑا اثر ہوتا ہے وہ بڑی دور تک جاتیں ہں۔ ظلم کرنے کا اختیار صرف اور صرف حکمرانوں یا بادشاہوں کو ہی نہیں ہوتاہے بلکہ ہر صاحب اختیار کے پاس یہ اختیار موجود ہو تا ہے۔ اور ہر انسان کسی نہ کسی حد تک کسی نہ کسی طرح سے صاحب اختیار ضرور ہے۔ چاہے اس کے کام کرنے والے ملازم ہوں، اس کے خاندان کے افراد ہوں اسکی اولاد ہو یا کو ئی چاہنے والاہو۔ مالک اپنے ملازمین کی عزت نفس کو ہر طرح سے روندنے کی کوشش کر کے وقتی طور پر اپنی انا کی تسکین کرتا ہے والدین یا خاندان کے بڑے ہر صورت اپنی مرضی مسلط کر کے اپنا اختیار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جواب میں اولاد جو والدین کی بہت بڑی کمزوری ہوتی ہے وہ اپنے والدین کا دل دکھانے میں کسی طور بھی رعایت نہیں کرتے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کسی پر بھی ظلم کر کے یا کسی کا دل دکھا کر کوئی بھی خوش نہیں رہ سکتا۔ بادشاہ تیمور کی طرح مظلوموں کی سسکیاں اور اہیں بھوت بن کر ڈراتی رہتی ہیں کبھی خواب میں کبھی حقیقت میں۔ اج ہی اپنی گزری زندگی پر نظر ڈوڑائیں اور دیکھیں جس جس پر آپ نے ظلم کیا ہے یا جس جس کا دل دکھایا ہےاس کو ڈھوندیں اس سے معافی مانگیں۔ اور اس بات کا عہد کریں کہ ائندہ کی زندگی میں یہ غلطی دوبارہ نہیں دھرائیں گے۔ بلھے شاہ کیا خوب فرما گئے ہیں۔ 
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے 
ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا
اک بندے دا دل ناں ڈھاویں 
رب دلاں وچ رھیندا