ہمارے نظامِ تعلیم کی بہتری کیلئے ضروری اصلاحات
اجمل کھوکھر
حالیہ یو این رپورٹ کے مطابق پاکستان کا نظام تعلیم دور حاضر کے مقابلے میں پرائمری سطح میں50 اور سکینڈری سطح کے معیار میں 60 سال پیچھے چل رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً 56لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے یعنی آوارہ اطفال ہیں۔یہ بات ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ کیوں نہ ہو؟ کیونکہ نظام تعلیم ہی کسی ملک کی قومی، سماجی، نظریاتی اور معاشی ترقی کے لیے ریڑھ کہ ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن جس ملک کے بجٹ کا صرف 2.4% جی ڈی پی (GDP)تعلیم پر خرچ ہو رہا ہو اور اس میں سے بھی تقریباً 80%اساتذہ کرام کی تنخواہوں کی مد میں نکل جاتا ہو جب کہ خوش قسمتی سے پاکستان میں پرائمری سطح تک کے اسا تذہ کی تنخواہیں بہت کم ہیں تو باقی کتنا بچتا ہے جو کوالٹی ایجو کیشن کے لیے استعمال کیا جا ئے جبکہ سال رواں کے ٹاپ رینکنگ والے ممالک جیسا کہ جنوبی کوریا، جاپان، سنگا پور، ہانگ کانگ، فن لینڈ اور یونائیٹڈ کنگڈم وغیرہ کا تعلیمی بجٹ 6-7%سے کم نہیں ہے۔تعلیم کی اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خوب سے خوب تر مختلف پالیسیاں اور ایکشن پلان تیار کیے گئے کیونکہ یہ سب ہائی پروفائل لوگوں نے بنائے جن کو گراس روٹ لیول کے مسا ئل کا کوئی علم نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کوئی پالیسی یا پلان آج تک کارگر ثابت نہیں ہوا آج پاکستان تعلیمی ورلڈ رینکنگ میں 159/177پوزیشن پر ہے یعنی چاڈ، سنٹرل افریقن ریپبلک ، مالی، سوڈان ، بینن اور افغا نستان سے بمشکل ایک قدم آگے ہے۔حتی کہ بنگلا دیش بھی تعلیمی میدان میں ہم سے سبقت لے چکا ہے اسکی بھی ورلڈ رینکنگ میں 34/177پوزیشن ہے ۔ سری لنکا اور نیپال جیسے ممالک بھی اپنا تعلیمی بجٹ 3-4% GDP-GNP مختص کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں اس قسم کی کوئی صورت نظر نہیںآ رہی ۔ جنرل مشرف کے دور 2006-07 میں ہائیر ایجوکیشن کے لیے 500 ملین سے بڑھاکر 14بلین کے فنڈز مختص کیے گئے لیکن اس کے بعد کسی نے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی صرف نت نئی پالیسیاں ہی مرتب ہوتی رہیں۔ آج پاکستان میں 260,903 انسٹیٹیوٹ کام کر رہے ہیں جن میں 180,846سرکاری اور باقی یعنی 80,057پرائیویٹ ہیں ان میں 41,018,384 سٹوڈنٹس زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ پاکستان کا لٹریسی ریٹ سرکاری اعدادد شمار کے مطابق 57% ہے اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو انگوٹھا لگانے کے بجائے بڑی مشکل سے اپنا نام لکھ پاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کوالٹی ایجوکیشن بس نام کی ہی ہے یہی وجہ ہے کہ آج برطانیہ میں اعلی تعلیم کے سلسلے میں جانے والے پنجاب یونیورسٹی کے گریجوایٹ کو بھی وہاں پہلے لٹریسی ٹیسٹ پاس کرنا ہوتا ہے ۔ نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے جو ماضی میں پالیسیاں بنائی گئیں وہ پہلی تعلیمی کانفرنس 1947 ، نیشنل کمیشن آف ایجوکیشن، نئی تعلیمی پالیسی 1970، قومی تعلیمی پالیسی 1979، نیشنل ایجوکیشن پالیسی 1998-2010اس کے علاوہ بہت سے اصلاحاتی پالیسیاں بھی سامنے آئیں "مگر یہ مسئلہ ہر بار رہا وہیں کا وہیں" پیچھلے چند سالوں سے ہمارے کچھ اعلی اذہان نے ایسی بے مثال قسم کی پالیسیاں متعارف کروائیں جن کو عملی جامہ پہنانے میں ایک پائی کی رقم بھی خرچ نہیں ہوتی یہ ہمارے ملک کے لیے بے نظیر قسم کی پالیسیاں ہیں۔
Universal Primary Education Door to door campaign/ اس قسم کی پالیسیوں کو پاکستان میں بہت سراہا جا رہا ہے کیونکہ اشرافیہ تعلیم پر کچھ خرچ کرنا نہیں چاہتی اور ان پالیسوں میں کوئی اضافی بجٹ کی ضرورت نہیں اورسونے پہ سہاگہ یہ کہ اس میں تمام تر ذمہ داری ٹیچر پر ہی عائد کر دی گئی ہے ۔اس پالیسی میں ٹیچر کو در بدر جا کر چھپن لاکھ آوارہ بچوں کو سکول گھسیٹ لانا ہے اور مطلوبہ اہداف پورا نہ ہونے کیصورت میں PEDA ایکٹ کی تلوار سے ٹیچرکاذبح ہونا شامل ہے۔ پاکستان کی 76-80%آبادی خط غربت تلے زندگی گزار رہی ہے اس مہنگائی میں جینا کسی جنگ سے کم نہیں اس لیے بہت سے لوگ بچوں کو سکول نہیں بھیجتی بلکہ چائلڈ لیبر کے ذریعے مالی معاونت حاصل کرتے ہیں اس صورت حال میں ایک ٹیچر کیا کرے۔
دراصل گورنمنٹ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتی ہی نہیں بلکہ ایک حکم(پالیسی) سے اپنی تمام تر ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتی ہے۔ ہمیں دور حاضر کیمطابق نظام تعلیم کو لاکر کھڑا کرنیکے لیے گراس روٹ لیول سے بہت سی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے جیسا کہ سب سے پہلے تعلیمی بجٹ 2.4%سے بڑھا کر کم از کم 5%کر دیا جائے ۔پرائمری اور سکولوں کو اس قدر پر کشش اور ہر بنیادی ضرورت سے آراستہ ہونا چاہیے تاکہ بچوں میں سکول پڑھنے کی خواہش خود بخود پیدا ہو ساتھ ہی اعلی تعلیم اور تربیت یافتہ سٹاف کی تعینا تی ۔ بقول صدر مگابے "آپ نوجوانوں کو کیسے قائل کریں گے کہ تعلیم ہی کامیابی کی کنجی ہے جبکہ ہم اپنے اردگرد تعلیم یافتہ لوگوں کو غریب اور مجرموں کو امیر دیکھتے ہیں" پاکستان میں بالکل یہی صورت حال ہے اس لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے میڈیا کو یہ اہم رول ادا کرنا چاہیے الیکٹرونک میڈیا پر ایسے پروگرام ہونے چاہیں جن سے والدین میں علم کی اہمیت کا احساس پیدا ہو ماضی اور حال کی تعلیم یافتہ شخصیات کو بطور ہیرو پیش کرنا چاہیے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں بمشکل پرائمری و مڈل پاس فلمی لوگ ہیرو سمجھے جاتے ہیں۔ ایلیمنٹری سطح سے ہی ٹیکنیکل ایجوکیشن کا آغاز ہو جانا چاہیے تاکہ فارغ التحصیل طالب علم کو تلاش رزق کے لیے در بدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں اس طرح شرح بیروز گاری بھی کم ہو تی رہے گی ، طلبا اور خاص کر طالبات کے سکول آنے جانے کے ذرائع کی ذمہ داری مستقل طور پرگورنمنٹ کی ہونی چاہیے۔مفت تعلیم کا مطلب یہ نہیں کہ ایک درسی کتاب پکڑا کر گورنمنٹ تمام تر ذمہ داری مبرا ہو جائے بلکہ سکول میں رجسٹرڈ بچوں کی ہر تعلیمی ضرورت جیسا کہ یونیفارم، سٹیشنری اور دوپہر کا کھانامہیا کرنا چاہیے۔غریب ترین بچوں کو ماہانہ وظیفہ دینا چاہیے تاکہ ان کے والدین کی معاشی معاونت ہو سکے۔شرح بیروزگاری جلد از جلد کم جائے ورنہ حصول تعلیم کو وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے، اعلی تعلیم یافتہ طبقہ کو خصوصی مراعات اور اختیارات دیے جائیں فی الحال تو ہمارے معاشرے میں کسی 18th سکیل کے آفیسر کو ایڈمنسٹریٹو ادارے کا چپڑاسی بھی خاطر میں نہیں لاتا۔تعلیمی اداروں کی 100%سکیورٹی اور سٹوڈنٹس کی صحت کی تمام تر ذمہ داری حکومت کی ہو،اساتذہ کو غیر تدریسی سرگرمیوں جیسا کہ الیکشن ڈیوٹیز، مردم شماری اور امتحانات کی نگرانی وغیرہ سے دور رکھا جائے ۔ ہائیر ایجوکیشن کے لیے مخصوص فنڈمیں ممکنہ حد تک اضافہ اور سکالر شپس کا طریقہ ہائے کار اور شرائط کو آسان کیا جائے۔ شہریوں کی تعلیم کی ذمہ داری حکومت وقت کی ہے یہ پاکستان کے آئین میں ہے اس سے ہرزہ سرائی کرنے والے پر سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ اسکے ساتھ ہی حکومت وقت سے درخواست ہے براہ کرم پاکستان کے مستقبل کو پالیسیوں، کمیشن اور ایکشن پلانز کی نذر نہ کریں بلکہ اس پر سنجیدہ حکمت عملی تیار کر کے اس پر عمل پیرا ہو۔