Dehshatgardi Ki Juziaat Aur Muharrikaat - Zahid Ikram


دہشت گردی کی جزئیات و محرکات 
زاہداکرام

دہشت گردی جنون انسان کے جنونی انتہا پسندی کی ایک قسم ہے،کچھ بیمارقسم کے لوگوں کی ذہنی تحریک ہے،جن کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ ہی کوئی مقصد،فی الوقت زیادہ تر جنونیوں(انتہا پسند/پاگل) کا تعلق مذہب اسلام سے جوڑا جا رہا ہے گو کہ برما،فلسطین وغیرہ میں ہونے والی دہشت گردی کو اپنی مرضی کی تعریف سے نوازیں،چاہیں تو حریت پسندوں کو دہشت گرد اور ریاستی دہشت گردوں کو امن و امان کے محافظ کہیں،بالفرض اسی کو اگر ہم سکہ رائج الوقت تھیوری مان لیں اس کے مطابق انکا ہدف اسلام دشمن طاقتیں ہونا چاہیے نہ کہ بے گناہ مسلمان،مساجد اور معصوم بچے،لیکن دہشت گردی ایک ایسی بے سمت قتل وغارت گری ہے جس میں اپنے پرائے کی کوئی تمیزنہیں،دہشت گردوں کی اگرنفسیات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کیونکر ہوتی ہے اور یہ لوگ کیسے کام کرتے ہیں،دہشت گرد تنظیم کیسے وجود میں آتی ہے اور اس کے محرکات زیر بحث لانے سے پہلے میں تنظیم کے سٹرکچر کو واضح کرنا چاہوں گا،جو کچھ یوں ہے ( ۱۔ دہشت گردی کا محرک، ۲۔ دہشت گرد تنظیم کا سرغنہ، ۳۔ دہشت گرد تنظیم کے کارکن یاممبران، ۴۔ دہشت گرد تنظیم کے سہولت کار، ۵۔ دہشت گرد تنظیم کے آلہ کار، ۶۔ تنظیم کی پبلسٹی )۔
دہشت گرد جیسی جنونی کیفیت کے پیچھے کوئی نہ کوئی محرک ہوتا ہے جس سے تنظیم وجود میں آتی ہے،مجھے یاد ہے جب لال مسجد آپریشن کیا گیا تو اس وقت خودکش دھماکے عروج پر تھے،مجھ تک خبر پہنچی تھی کہ’’ ہم نے سینکڑوں کی تعداد میں خود کش بمبار تیار کر لیے ہیں جو اب رکنے والے نہیں،ہم بدلہ لیں گے اپنی بہنوں بیٹیوں کے قتل کا‘‘، ظاہر ہے اس تحریک کا کوئی سر پھرا لیڈر ’سرغنہ‘بھی تھا/ہے 249جو لال مسجد آپریشن کے متاثرین میں سے ہوگا اور اس کے ممبران بھی متاثرین ہی ہونگے،اسی طرح دنیا میں جتنی بھی تحریکیں وجود میں آئی سب کی وجہ معارض ظلم اور ناانصافی پررہی ہے جسے بعد میں یہ لوگ کوئی بھی نام دے دیتے ہیں،اسی طرح شام،فلسطین،کشمیر اور افغانستان میں ہونے والی زیادتیوں کے نتیجہ میں کچھ حریت پسند/آزادی پسند تنظیموں نے جنم لیا،اگر آپ احسان اللہ احسان کا انٹرویو سنیں تو آپ کوطالبان کے سرغنہ کی ذہنیت کا پتہ چلے گا۔ کسی بھی تحریک میں سر پھرے ممبران کا اکٹھا ہوجانا بھی کوئی بڑی بات نہیں،جس کیلئے وہ پبلسٹی اور سہولت کاروں کا سہارا لیتے ہیں،آجکل پبلسٹی کے جدید ذرائع انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کئے جاتے ہیں،رہی بات سہولت کاروں کی وہ عام بکاؤ مال کی طرح ہر جگہ معقول رقم کے عوض دستیاب ہیں۔
دہشت گرد بنانے والے بھی کمال ذہین لوگ ہیں،معصوم اور بھولے بھالے ۱۲ سے ۲۰ سال کے لڑکوں کومذہب سکھاتے سکھاتے جنت کی سیر کرادیتے ہیں،یہی لڑکے لڑکیاں دہشت گردی کے آلہ کار ہوتے ہیں، چونکہ اس عمر میں صنف نازک کی طرف فطری رحجان زیادہ ہوتا ہے ان کے کچے ذہنوں میں خوبصورت حوروں کا تصور جس خوبصورتی سے اجاگرکیا جاتا ہے وہ بھی اپنی جگہ ایک کمال فن ہے جو درحقیقت قرآن میں موجود ہے لیکن اس کا حصول جس طریقے سے ان کچے ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے،اس کا کوئی تصور قرآن میں نہیں بلکہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر ان کچے ذہنوں کو گمراہ کرکے دنیا و آخرت تباہ کی جاتی ہے،ان بیچارے لڑکوں کو پتہ ہے کہ یہاں تو شادی کی منزل دور ہے چلو جلدی سے جنت جاتے ہیں اور حورو ں کا وصل حاصل کرتے ہیں،جس کیلئے وہ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ چونکہ یہ بات عام ہوگئی ہے کہ دہشت گرد جوان لڑکے ہوتے ہیں اور اب حکومتی ادارے ان کو آسانی سے پکڑ لیتے ہیں،اس لئے ان خونخوار درندوں نے لڑکیوں کو تیار کرنا شروع کردیا،جس کی مثال نورین لغاری ہے اس کے علاوہ نایئجیریا میں بھی بمبار لڑکیاں جنہوں نے ماضی میں خودکش حملے کرکے کئی لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا اور بیشمار کو زخمی و اپاہج کیا تھا،نوجوان لڑکیوں میں اس رجحان کا سبب ماسوائے فرسٹریشن یا جلد ازجلد جنت کے حصول کے علاوہ او ر کیا ہو سکتا ہے؟ سب سے بڑھ کر ان بچوں میں اسلام سے لگاؤ زیادہ ہوتا ہے،ان کا میل جول مُسلے (نام نہاد مسلمان) قسم کے لوگوں سے بھی زیادہ دیکھنے میں آیا ہے، جو یا تو ارکان ہوتے ہیں یا پھر سہولت کار،میرے ایک عزیز،انکا بیٹا مذہبی اور تھوڑا جنونی بھی تھا،مجاہدین کی کسی تنظیم کے ہتھے چڑھ گیا،یہ بات ۹۶/۹۵ کی ہے،اس وقت فیس بک اور نیٹ کا زمانہ عام نہیں تھا،یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جو حالات آج ہیں اس وقت نہ تھے،آج تو سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے یہ کام آسانی سے کیا جارہا ہے،خیر میرے دوست کے اہل خانہ کی قسمت اچھی تھے کہ کچھ ماہ کی تگ ودو کے بعد بچے کا سراغ آزاد کشمیر میں ملا اور اس کو بہت مشکل سے ان کے چنگل سے چھڑایا گیا، اسی لیے والدین اساتذہ اور رشتے داروں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی حرکات کا جائزہ لیتے رہیں اور ان کو خونی درندوں کا آلہ کار بننے سے بچائیں،دوسری بات اگر تنظیم کا سرغنہ ہاتھ آجائے تو اسکو سر عام پھانسی دے دینا چاہیے نہ کہ جیسا کہ کلبھوشن کیس میں ہو رہا ہے،ویسا تو قابل قبول نہیں، اس طرح کبھی بھی دہشت گردی کا جن بوتل میں نہیں آئے گا،رہی بات محرکات کی کہ کس طرح دہشت گرد تنظیم کو بننے سے روکا جائے تو اس کیلئے ناچیزمعذرت خواہ ہے چونکہ یہ آگ اب انٹرنیشنل سطح پر آگئی ہے،جس میں حالیہ ۳۶ ملکوں کا اتحاد جو ہمیں فرقہ وارانہ اور ریاستی دہشت گردی کی طرف لے جا رہا ہے،جس میں اب ٹرمپ بھی شامل ہونے جارہا ہے جو خود ایک مذہبی جنونی ہے جو مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا کر اپنی نفرت کی آگ کو بجھانا چاہتا ہے،اسی طرح کی ریاستی دہشت گردی کو جوانڈیا پاکستان اور کشمیر میں کھیل رہا ہے،شام،برما یا میانمار، بوسینیا و ہرزیگووینیا،فلسطین، میں کھیلی جارہی ہے دنیا کی بدترین دہشت گردی ہے اس سے بچنے کی تدابیر کرنا ہونگیں۔