اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم ہوا ہمارا معاشرہ
نصرت جاوید
پیر کے روز چھپنے والے کالم کو اتوار کی صبح لکھ کر دفتر بھجوانے کے بعد میں دن کا بقیہ حصہ چھٹی گزارنے میں مصروف رہا۔ سونے سے قبل ٹی وی کھولا تو رپورٹرز،اُکھڑی سانسوں کے ساتھ کراچی کی شاہرائہ فیصل کواس شہر کی ”ریڈزون“ سے ملانے والے ایک مقام پر پولیس اور PSP کے کارکنوں کے مابین جھڑپوں کا ذکر کررہے تھے۔
مجھے اپنی جوانی کے دنوں میں پاکستان ٹیلی وژن پر دکھائے ہاکی میچ یاد آنا شرو ع ہوگئے۔ مرحوم فاروق مظہر صاحب کی بھاری بھر کم آواز جو کلیم اللہ اور سمیع اللہ کی ایک دوسرے کو گیند پاس کرتے ہوئے گول کی طرف بڑھنے کی داستان بہت جوش وخروش کے ساتھ بیان کرتی۔ بالآخر ”گول ہوجاتا“ اور ہم سب کو ٹھنڈ پڑجاتی۔ ارسطو کے فنِ ڈرامہ کی بابت دریافت کئے Catharsis والی کیفیت۔
شہر کراچی کے بہت محنت سے بنائے ”ترجمان“ نے ا توار کی شب ”ملین“ کارکنوں کے ساتھ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے گھر پر دھاوابولنے کا اعلان کیا تھا۔ مراد علی شاہ اگرچہ اس شب کراچی میں موجود ہی نہیں تھے۔ وزیر اعظم انہیں پنجاب،KPK اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کے ہمراہ برادر ملک چین لے گئے تھے جہاں One Belt One Road کے منصوبے پر ایک عالی شان عالمی کانفرنس ہورہی تھی۔ پاکستان کا اس منصوبے میں کردار کلیدی ہے۔ پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے بے تحاشہ باہمی اختلافات کو پشِ پشت ڈال کر وہاں خود کو یک جا دکھایا۔ ایک اچھا فیصلہ جس کی تعریف ضروری ہے۔
شہر کراچی کے بہت محنت سے بنائے ”ترجمان“ نے مگر یہ دن دُنیا کو یہ بتانے کے لئے چنا کہ اس کے شہر پر گویا”غیروں“ کی حکومت ہے۔ ان بے حس ”قا بضوں“ نے ان تمام ضلعی اداروں کے وسائل کو اپنے استعمال کے لئے ہتھیا لیا ہے جن کے ذریعے کراچی کو صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہوسکتا ہے۔ گلیاں،محلے اور بازار صاف ستھرے نظر آسکتے ہیں۔
مراد علی شاہ اگر اپنے گھر پر موجود ہوتے تو شاید ”ترجمان“ کے جمع کئے ہوئے ”ملین لوگ“ دھاوا بول کر انہیں یرغمال بنالیتے۔ ان سے غالباََ ایسے کاغذات پر دستخط لئے جاتے جو کراچی کی کمائی دولت کو اس کے شہری نمائندوں تک منتقلی کویقینی بنادیتے۔
کوئی حکومت خواہ وہ کتنی ہی لولی لنگڑی کیوں نہ ہو،اپنے ”چیف ایگزیکٹو“ کے سرکار کی طرف سے دئیے گھر پر ایسے دھاوے کو مگربرداشت نہیں کرسکتی۔ ”ترجمان“ کو لہذا اس مکان کی طرف بڑھنے سے روکنا ضروری تھا۔ اس ضمن میں مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے۔ ”ترجمان“ مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اپنا مارچ جاری رکھنے پر بضد رہے۔ بالآخر وہی ہواجو ایسے معاملات میں ہوا کرتا ہے۔
”ترجمان“ کے کارکنوں کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر پولیس نے آنسو گیس کے چند شیل پھینکے۔ واٹرکینن کا استعمال بھی ہوا۔ تھوڑی ماراماری کے بعد ”ترجمان“ کو دیگر کئی افراد کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس وین کی طرف بڑھتے ہوئے یہ ”ترجمان“ موبائل فون کے ذریعے مختلف ٹی وی چینلوں کو اپنی گرفتاری کی کتھا بھی بیان کرتے رہے۔ انہیں اس بات پر بھی بہت پریشانی تھی کہ پولیس انہیں گرفتار کرکے کلاکوٹ تھانے لے جارہی ہے۔
کراچی کے جغرافیے سے لاعلم لوگوں کو شاید خبر نہ ہوکر کلاکوٹ اس شہر کی ایک قدیمی بستی لیاری میں واقع ہے۔ ”پاک سرزمین“ کے خود ساختہ نمائندے اس بستی کو لیکن ”نوگوایریا“ شمار کرتے ہیں۔ وہاں کے ہر باسی کو ممکنہ ”عزیربلوچ“ سمجھاجاتا ہے۔ نام نہاد پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کے خود کو ”شائستہ“ سمجھنے والے لوگ اس بستی سے خوف کھاتے ہیں۔ انہیں وہاں پھیلی غربت سے پریشانی نہیں ہوتی گھن آتی ہے۔
بظاہر”گرفتا ر“ ہوئے ”ترجمان“ کے موبائل فون کے ذریعے قوم سے خطاب کے دوران ہی ٹی وی سکرینوں پر چودھری نثار علی خان کا ایک بیان بینڈ باجے والی ”بریکنگ نیوز“ کی صورت نمودار ہوا۔ مرکزی وزیر داخلہ نے ”ترجمان“ کو حراست میں لئے جانے کی مذمت کی۔ انہیں اس بات پر بہت دُکھ ہوا کہ صوبائی وزیر اعلیٰ کے گھر کی جانب بڑھتے مارچ کو آنسو گیس کے گولے برسا کر روکا گیا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ہمارے آئین نے شہریوں کو کچھ بنیادی حقوق دے رکھے ہیں۔ جمہوریت میں مظاہرین پر لاٹھیاں نہیں برسائی جاتیں۔
چودھری نثار علی خان کے دھانسو بیان پر مبنی ”ٹِکرز“ پڑھتے ہوئے میرا بدبخت ذہن گزشتہ سال کے نومبر کو یاد کرنے پر مجبور ہوگیا۔ عمران خان صاحب نے سپریم کورٹ کو پانامہ دستاویزات کے انکشاف کی وجہ سے اچھلے سکینڈل کی تحقیقات پر مجبور کرنے کے لئے اس مہینے اسلام آباد کے ”لاک ڈاﺅن“ کا اعلان کررکھا تھا۔ ”لاک ڈاﺅن“ والے دن تحریک انصاف کے رہ نما خود کو بنی گالہ والے گھر میں محصور کئے پش اپس لگاتے رہے۔ اسلام آباد کے ”لاک ڈاﺅن“ کو یقینی بنانے کے لئے البتہ پشاور سے صوبائی وزیر اعلیٰ ایک بڑے لشکر کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ اٹک کا پل پار کرتے ہی ان کا سواگت مگر آنسو گیس کے گولوں کی بارش سے ہوا۔ کئی گھنٹوں تک پشاور سے آئے لشکر اور پنجاب پولیس کے مابین مقابلہ جاری رہا۔ بالآخر عمران خان صاحب نے پرویز خٹک کو حکم دیا کہ وہ دل بڑا کریں اور اپنے کارکنوں کو مزید مشکل میں ڈالنے کی بجائے واپس لوٹ جائیں۔ چودھری نثار علی خان کو اس روز نجانے کیوں آئین،شہری حقوق اور جمہوری نظام میں احتجاج کا حق وغیرہ یاد نہ آئے۔
چودھری نثار علی خان سے گلہ مگر مناسب نہیں۔ اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم ہوئے ہمارے معاشرے میں اصل بات پنجابی زبان والا”شریکا“ ہے۔ چکری کے راجپوت کا ”شریکا“ پیپلز پارٹی ہے۔ اس پارٹی کے چودھری اعتزاز احسن جیسے بہت ہی پڑھے لکھے اور شاعر رہ نما، وزیر داخلہ کو نواز حکومت کی ہربرائی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ چودھری صاحب کو بھی حساب برابر کرنے کے لئے موقعہ کی تلاش رہتی ہے۔ اتوار کی شب وزیر داخلہ کو موقعہ مل گیا اور انہوں نے ایک دھانسو بیان دے کر گول برابر کردیا۔
اتوار کی رات کے آخری پہروں میں شہر کراچی کے بہت محنت سے بنائے ”ترجمان“ کو رہا بھی کردیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کراچی کے شہریوں کی اکثریت کو یہ کالم لکھتے وقت بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوا ہوگا۔ محلوں اور بازاروں میں کچرے کے ڈھیر بھی اپنی جگہ موجود ہوں گے۔ پوائنٹس مگر ہر سیاسی فریق نے بنالئے ہیں۔
سندھ پولیس نے ثابت کردیا کہ وہ رینجرز کی مدد کے بغیر بھی ”ملین مارچ“ پر قابو پاسکتی ہے۔ شہر کراچی کے بہت محنت سے بنائے ”ترجمان“ بھی اپنی ہٹ کے پکے ثابت ہوئے اور چودھری نثار علی خان کی آئینی اور جمہوری نظام سے وابستگی بھی مستند ٹھہری۔ میرے اور آپ جیسے عام شہریوں کے ہاتھ اس معرکے میں کیا آیا؟ معاف کیجئے گا۔ ٹھینگا۔
اتوار کی شب ہوئے تماشوں کے باوجود مجھ سے یہ توقع رکھنا بھی زیادتی ہے کہ ملکی سیاست پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے کچھ بقراطی فقرے لکھ کر اس کالم کو بھاشن کی صورت دوں۔ ہمارے ملک میں سیاست ہرگز نہیں ہورہی۔ سٹریٹ تھیٹر ہورہا ہے۔ اس سے لطف اندوز ہونے کی ہمت کم از کم مجھ میں تو اب باقی نہیں رہی۔