احترام رمضان آرڈینینس اور رمضان میں ہمارے لٹ مچانے کی عادت
عماد ظفر
احترام رمضان آرڈینینس 2017 ایک عجیب و غریب قانون دکھائی دیتا ہے۔ اس قانون کے مطابق عوامی مقامات میں کھانا پینا ایک جرم قرار دیا گیا ہے اور ایسا کرنے والے کو جرمانے کے ساتھ قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح رمضان المبارک میں جو ہوٹل یا سینما گھر دوران روزہ اگر کسی بھی قسم کا کھانا پینا فراہم کریں گے تو انہیں بھی جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یعنی ایک لحاظ سے وہ اقلیتیں جن کا مسلمانوں کے اس مزہبی فریضے سے کوئی تعلق نہیں انہیں بھی کھانے پینے سے محروم رکھ کر جبری طور پر اس ماہ کا احترام کروایا جائے گا۔
دوسری جانب ایسے مسلمان جو بوجہ مجبوری یا خود اپنی مرضی سے روزے نہیں رکھتے ان افراد کو بھی اس قانون کی مدد سے زبردستی ایک طرح سے روزہ رکھوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سینیٹ کے جن ممبران نے اس بل کی منظوری دی ان میں چاشت و نادر ہی کوئی فرد روزہ رکھتا ہے۔ اس قسم کے متنازعہ بل کو پاس کرنے کا کیا مطلب ہے یہ تو بل پیش کرنے والے اور اسے پاس کرنے والے ہی بتا سکتے ہیں لیکن اس آرڈینینس کی موجودگی ایک طرح سے زبرستی عوام الناس کو روزہ رکھنے پر مجبور کرنا دکھائی دیتی ہے اور جب بھی کسی معاملے میں زبردستی مسلط کی جائے تو پھر شدت پسندی کا احتمال بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
روزہ رکھنا یا نا رکھنا کسی بھی فرد کا ذاتی فعل ہے اور اس کا جواب اسے خود رب باری تعالی کو دینا ہے۔ اب جو بیچاره بیمار ہے یا لاغر ہے اور کہیں گرمی کی شدت سے پانی پیتا یا مشروب پیتا دکھائی دے تو اس کو اس قانون کے تحت دھر لینا بھلا کہاں کی انسانیت ہے۔ وہ افراد جن کا عقیدہ اسلام نہیں ہے انہیں زبردستی روزوں کے احترام پر مجبور کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا پاکستان میں بسنے والے دیگر عقائد کے افراد کی اس ریاست میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو ویسے ہی نرگسیت پسندی کی انتہا ہے اور رمضان میں کسی بھی شخص کو کھاتا پیتا دیکھ کر ہم مسلمانوں کا جزبہ ایمانی ویسے ہی بھڑک جاتا ہے۔ احترام مزہب اور احترام مقدس شخصیات کے نام پر ہونے والی شدت پسندی اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں اس کے باوجود اس قسم کا متنازعہ بل پاس کرنا فہم سے بالاتر ہے۔ شاید اب توہین روزہ کے نام پر جب کسی کی جان جائے گی تو اس قانون پاس کرنے والوں کو ادراک ہو گا کہ یہ قانون کس قدر خطرناک ہے۔ کسی کے ذاتی عقیدے میں ریاست کی دخل اندازی کی بھاری ترین قیمت پاکستان کے بسنے والے باشندے چکا چکے ہیں۔
گرمیوں میں گرمی کی شدت کے باعث اکثر افراد روزہ نہیں رکھ پاتے ان بیچاروں کو جبرا کیوں احترام کے نام پر بھوکا پیاسا رکھنے کا قانون پاس کیا گیا اس کا جواب حل طلب ہے۔ ماہ رمضان کے احترام کے بارے میں اگر کوئی بل یا قانون منظور ہونا چائیے تو وہ رمضان کے مہینے میں اشیائے خردونوش سے لیکر جوتوں اور کپڑوں کا مہنگے داموں فروخت کرنے کی روک تھام سے لیکر ٹیلی ویژن چینلوں کے غیر معیاری اور ایڈورٹائزنگ کے حصول کی دوڑ کے پروگرام اور نمودو نمائش کی روک تھام سے متعلق ہونا چائیے۔ ویسے تو رمضان المبارک کا مقدس میہنہ رحمتوں اور کرم کا مہینہ کہلاتا ہے۔ البتہ ہمارے ہاں یہ مہینہ منافع خوری ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کیلیے موزوں ترین ہوتا ہے۔ اس مقدس ماہ کا نام لے کر سب سے پہلے ٹیلی ویژن چینلوں پر اسلامی ٹرانسمیشن یا افطار و رمضان کی ٹرانسمیشن کے بہانے خوب ٹی آر پی بڑھا کر اشتہارات کے زریعے اربوں روپے کا منافع کمایا جاتا ہے ان پروگراموں کا معیار اور ان کے میزبانوں کی باتیں اس قدر مصنوعی اور گھٹیا ہوتی ہیں جن کا کہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اشتہارات کی بھرمار اور بھونڈے قسم کے غیرمعیاری پروگرام کے مواد پیش کر کے رمضان کے مہینے کی سادگی کے درس کا کھلے عام مذاق اڑایا جاتا ہے۔
اشیائے خوردونوش اور روزمرہ کے استعمال کی چیزوں میں رمضان کے آتے ہی دوگنا اضافہ کر دیا جاتا ہے پرچون فروش سے لیکر ہول سیل ڈیلر تمام افراد اس کام میں آگے آگے ہوتے ہیں یوں مہنگائی کا ایک طوفان ہے جسے کہ جان بوجھ کر اس مہینے میں پیدا کیا جاتا ہے اور عام آدمی کی زندگی کو ماہ رمضان میں بھی تکلیف دہ بنا دیا جاتا ہے۔ غیر معیاری اور دو نمبر مشروبات کی بھرمار کر کے روزے داروں کی صحت سےکھیلنے کے بعد تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پر ڈالی جاتی ہے کہ حکومت کی ناہلی کے باعث مہنگی یا جعلی اشیا بکتی ہیں۔ یہی نہیں کپڑے سینے والا درزی ہو یا جعلی مشروبات بیچنے والا دوکاندار سب اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے کام کے دام بڑھا دیتے ہیں اور یوں اس مقدس ماہ کو بھی ایک ایک نفع خوری کا مہینہ بنا لیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں ایک اصول ہے کہ جب جب مذہبی تہوار آتے ہیں تو اشیا سستی کر دی جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ اس مقدس مہینے کو اور زیادہ منافع خوری کیلیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مہینے میں ہماری پھرتیاں بھی بڑھ جاتی ہیں پورا سال جھوٹ دروغ گوئی اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے، رشوت اور بدعنوانی کرنے کے بعد رمضان کے ماہ میں ہم سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح رکھ کر یوں مومن بنے پھرتے ہیں گویا کہ ہم سے پارسا کوئی اور ہے ہی نہیں یا گویا کہ رمضان کے علاوہ باقی تمام مہینوں میں جھوٹ منافقت بدعنوانی رشوت خوری کی کھلی چھوٹ ہے۔
ایک اور دلچسپ رویہ جو اس ماہ میں دیکھنے میں آتا ہے وہ آپ سے دوسرے لوگوں کا استفسار ہوتا ہے کہ روزہ رکھا کیا؟ اگر آپ نے غلطی سے کسی بھی بیماری کی وجہ یا اپنی مرضی کی بنا پر روزہ نہیں رکھا تو آپ کو ایسی عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے کہ جیسے بس ابھی آپ کو کچا چبا لیا جائے گا۔ حالانکہ دیگر عبادات کی طرح یہ بھی خدا اور بندے کا زاتی اور نجی معاملہ پے۔ ایک اورطبقہ ہمارے ہاں ماہ رمضان کو نمود و نمائش کیلئے بھی خوب پیش کرتا ہے۔ افطار اور سحر پر دعوتوں کے نام پر یوں کھانے اور روپوں کا ضیاع کیا جاتا ہے کہ اس مقدس ماہ کی اصل روح جو کہ قربانی اور اپنی خواہشات کو مارنے سے متعلق ہے ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ یوں ایک غریب یا سفید پوش انسان کیلئے یہ ماہ رمضان بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم بچانے کی تگ و دو میں گزر جاتا ہے۔ خیر ہمیں اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے ہمیں تو دکھاوا اور لوٹ مچانے سے فرصت ملے تو کچھ اخرت کی فکر کریں۔ ویسے بھی ہماری ساری توانائی محض اس بات پر خرچ ہوتی ہے کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی۔ کس نے روزہ رکھا ہے اور کس نے نہیں۔
پچھلے برس ہی ایک ہندو بزرگ کو اس بات پر مارنے کا واقع کے وہ دوران روزہ کھا پی رہا تھا اس امر کی بخوبی نشاندہی ہے کہ ہم اپنی اپنی محرومیاں مذہب کے نام پر نکالنے کے کس قدر عادی ہو چکے ہیں۔ دوران روزہ گلے سڑے پھل بیچنے سے لیکر مہنگی اور جعلی اشیائے خوردووش سے اس ماہ کی بے حرمتی نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اس ماہ کی بےحرمتی ہو جاتی ہے اور ہماری جعلی غیرت فورا جوش مارنے لگتی ہے۔ رمضان کا مہینہ ایک ایسا ایونٹ بنا دیا جاتا ہے جس یں ہم سب بقدر استطاعت اور حسب ظرف جی بھر لے لٹ مچانے کے بعد توبہ توبہ کی گرداب کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں احترام رمضان کا بل پاس کر کے حکومت نے کھلی چھٹی دی ہے کہ ہم لوگ نہ صرف روزہ رکھ کر نہ صرف اپنے آپ کو پارسائی اور تقوے کی جھوٹی سند دلوائیں بلکہ روزہ نہ رکھنے والوں کو کمزور عقیدے والا یا جہنمی ہونے کی بھی اسناد بانٹیں۔
آئیے مل کر خوب لٹ مچائیں اور پھر معاشرے پر لعن طعن کریں کہ یہ معاشرہ ہے ہی کھوکھلا اور منافق۔ مہنگائی کی زمہ دار حکومت ہے کیونکہ اسحق ڈار کو ایک ایک ریڑی بان ایک ایک پرچون فروش کے پاس جا کر قیمتوں اور اشیا کی کوالٹی پر نظر رکھنی چائیے۔ بھلا ہمارا کیا قصور اگر ہم ماہ رمضان میں اشیا کی یا اپنے اہنے کام کے دام بڑھا لیتے ہیں آخر کو سال میں تمام مہینے یہ سب کرنے کے بعد اتنی چھوٹی سی عادت تو ویسے ہی پکی ہو جاتی ہے۔ چھوڑیے کرپٹ حکومت کو اور اپنے اپنے بس اور طاقت کے مطابق اس مقدس ماہ میں بھی ایک دوسرے کا خون نچوڑیں، روزہ نہ رکھنے والوں پر لعن طعن کریں اور مہنگائی اور نانصافی کو بھی کسی اور کے کھاتے میں ڈال کر اپنے آپ کو دھوکہ دینے میں مشغول رہیں۔
دوسری جانب ایسے مسلمان جو بوجہ مجبوری یا خود اپنی مرضی سے روزے نہیں رکھتے ان افراد کو بھی اس قانون کی مدد سے زبردستی ایک طرح سے روزہ رکھوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سینیٹ کے جن ممبران نے اس بل کی منظوری دی ان میں چاشت و نادر ہی کوئی فرد روزہ رکھتا ہے۔ اس قسم کے متنازعہ بل کو پاس کرنے کا کیا مطلب ہے یہ تو بل پیش کرنے والے اور اسے پاس کرنے والے ہی بتا سکتے ہیں لیکن اس آرڈینینس کی موجودگی ایک طرح سے زبرستی عوام الناس کو روزہ رکھنے پر مجبور کرنا دکھائی دیتی ہے اور جب بھی کسی معاملے میں زبردستی مسلط کی جائے تو پھر شدت پسندی کا احتمال بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
روزہ رکھنا یا نا رکھنا کسی بھی فرد کا ذاتی فعل ہے اور اس کا جواب اسے خود رب باری تعالی کو دینا ہے۔ اب جو بیچاره بیمار ہے یا لاغر ہے اور کہیں گرمی کی شدت سے پانی پیتا یا مشروب پیتا دکھائی دے تو اس کو اس قانون کے تحت دھر لینا بھلا کہاں کی انسانیت ہے۔ وہ افراد جن کا عقیدہ اسلام نہیں ہے انہیں زبردستی روزوں کے احترام پر مجبور کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا پاکستان میں بسنے والے دیگر عقائد کے افراد کی اس ریاست میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو ویسے ہی نرگسیت پسندی کی انتہا ہے اور رمضان میں کسی بھی شخص کو کھاتا پیتا دیکھ کر ہم مسلمانوں کا جزبہ ایمانی ویسے ہی بھڑک جاتا ہے۔ احترام مزہب اور احترام مقدس شخصیات کے نام پر ہونے والی شدت پسندی اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں اس کے باوجود اس قسم کا متنازعہ بل پاس کرنا فہم سے بالاتر ہے۔ شاید اب توہین روزہ کے نام پر جب کسی کی جان جائے گی تو اس قانون پاس کرنے والوں کو ادراک ہو گا کہ یہ قانون کس قدر خطرناک ہے۔ کسی کے ذاتی عقیدے میں ریاست کی دخل اندازی کی بھاری ترین قیمت پاکستان کے بسنے والے باشندے چکا چکے ہیں۔
گرمیوں میں گرمی کی شدت کے باعث اکثر افراد روزہ نہیں رکھ پاتے ان بیچاروں کو جبرا کیوں احترام کے نام پر بھوکا پیاسا رکھنے کا قانون پاس کیا گیا اس کا جواب حل طلب ہے۔ ماہ رمضان کے احترام کے بارے میں اگر کوئی بل یا قانون منظور ہونا چائیے تو وہ رمضان کے مہینے میں اشیائے خردونوش سے لیکر جوتوں اور کپڑوں کا مہنگے داموں فروخت کرنے کی روک تھام سے لیکر ٹیلی ویژن چینلوں کے غیر معیاری اور ایڈورٹائزنگ کے حصول کی دوڑ کے پروگرام اور نمودو نمائش کی روک تھام سے متعلق ہونا چائیے۔ ویسے تو رمضان المبارک کا مقدس میہنہ رحمتوں اور کرم کا مہینہ کہلاتا ہے۔ البتہ ہمارے ہاں یہ مہینہ منافع خوری ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کیلیے موزوں ترین ہوتا ہے۔ اس مقدس ماہ کا نام لے کر سب سے پہلے ٹیلی ویژن چینلوں پر اسلامی ٹرانسمیشن یا افطار و رمضان کی ٹرانسمیشن کے بہانے خوب ٹی آر پی بڑھا کر اشتہارات کے زریعے اربوں روپے کا منافع کمایا جاتا ہے ان پروگراموں کا معیار اور ان کے میزبانوں کی باتیں اس قدر مصنوعی اور گھٹیا ہوتی ہیں جن کا کہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اشتہارات کی بھرمار اور بھونڈے قسم کے غیرمعیاری پروگرام کے مواد پیش کر کے رمضان کے مہینے کی سادگی کے درس کا کھلے عام مذاق اڑایا جاتا ہے۔
اشیائے خوردونوش اور روزمرہ کے استعمال کی چیزوں میں رمضان کے آتے ہی دوگنا اضافہ کر دیا جاتا ہے پرچون فروش سے لیکر ہول سیل ڈیلر تمام افراد اس کام میں آگے آگے ہوتے ہیں یوں مہنگائی کا ایک طوفان ہے جسے کہ جان بوجھ کر اس مہینے میں پیدا کیا جاتا ہے اور عام آدمی کی زندگی کو ماہ رمضان میں بھی تکلیف دہ بنا دیا جاتا ہے۔ غیر معیاری اور دو نمبر مشروبات کی بھرمار کر کے روزے داروں کی صحت سےکھیلنے کے بعد تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پر ڈالی جاتی ہے کہ حکومت کی ناہلی کے باعث مہنگی یا جعلی اشیا بکتی ہیں۔ یہی نہیں کپڑے سینے والا درزی ہو یا جعلی مشروبات بیچنے والا دوکاندار سب اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے کام کے دام بڑھا دیتے ہیں اور یوں اس مقدس ماہ کو بھی ایک ایک نفع خوری کا مہینہ بنا لیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں ایک اصول ہے کہ جب جب مذہبی تہوار آتے ہیں تو اشیا سستی کر دی جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ اس مقدس مہینے کو اور زیادہ منافع خوری کیلیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مہینے میں ہماری پھرتیاں بھی بڑھ جاتی ہیں پورا سال جھوٹ دروغ گوئی اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے، رشوت اور بدعنوانی کرنے کے بعد رمضان کے ماہ میں ہم سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح رکھ کر یوں مومن بنے پھرتے ہیں گویا کہ ہم سے پارسا کوئی اور ہے ہی نہیں یا گویا کہ رمضان کے علاوہ باقی تمام مہینوں میں جھوٹ منافقت بدعنوانی رشوت خوری کی کھلی چھوٹ ہے۔
ایک اور دلچسپ رویہ جو اس ماہ میں دیکھنے میں آتا ہے وہ آپ سے دوسرے لوگوں کا استفسار ہوتا ہے کہ روزہ رکھا کیا؟ اگر آپ نے غلطی سے کسی بھی بیماری کی وجہ یا اپنی مرضی کی بنا پر روزہ نہیں رکھا تو آپ کو ایسی عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے کہ جیسے بس ابھی آپ کو کچا چبا لیا جائے گا۔ حالانکہ دیگر عبادات کی طرح یہ بھی خدا اور بندے کا زاتی اور نجی معاملہ پے۔ ایک اورطبقہ ہمارے ہاں ماہ رمضان کو نمود و نمائش کیلئے بھی خوب پیش کرتا ہے۔ افطار اور سحر پر دعوتوں کے نام پر یوں کھانے اور روپوں کا ضیاع کیا جاتا ہے کہ اس مقدس ماہ کی اصل روح جو کہ قربانی اور اپنی خواہشات کو مارنے سے متعلق ہے ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ یوں ایک غریب یا سفید پوش انسان کیلئے یہ ماہ رمضان بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم بچانے کی تگ و دو میں گزر جاتا ہے۔ خیر ہمیں اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے ہمیں تو دکھاوا اور لوٹ مچانے سے فرصت ملے تو کچھ اخرت کی فکر کریں۔ ویسے بھی ہماری ساری توانائی محض اس بات پر خرچ ہوتی ہے کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی۔ کس نے روزہ رکھا ہے اور کس نے نہیں۔
پچھلے برس ہی ایک ہندو بزرگ کو اس بات پر مارنے کا واقع کے وہ دوران روزہ کھا پی رہا تھا اس امر کی بخوبی نشاندہی ہے کہ ہم اپنی اپنی محرومیاں مذہب کے نام پر نکالنے کے کس قدر عادی ہو چکے ہیں۔ دوران روزہ گلے سڑے پھل بیچنے سے لیکر مہنگی اور جعلی اشیائے خوردووش سے اس ماہ کی بے حرمتی نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اس ماہ کی بےحرمتی ہو جاتی ہے اور ہماری جعلی غیرت فورا جوش مارنے لگتی ہے۔ رمضان کا مہینہ ایک ایسا ایونٹ بنا دیا جاتا ہے جس یں ہم سب بقدر استطاعت اور حسب ظرف جی بھر لے لٹ مچانے کے بعد توبہ توبہ کی گرداب کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں احترام رمضان کا بل پاس کر کے حکومت نے کھلی چھٹی دی ہے کہ ہم لوگ نہ صرف روزہ رکھ کر نہ صرف اپنے آپ کو پارسائی اور تقوے کی جھوٹی سند دلوائیں بلکہ روزہ نہ رکھنے والوں کو کمزور عقیدے والا یا جہنمی ہونے کی بھی اسناد بانٹیں۔
آئیے مل کر خوب لٹ مچائیں اور پھر معاشرے پر لعن طعن کریں کہ یہ معاشرہ ہے ہی کھوکھلا اور منافق۔ مہنگائی کی زمہ دار حکومت ہے کیونکہ اسحق ڈار کو ایک ایک ریڑی بان ایک ایک پرچون فروش کے پاس جا کر قیمتوں اور اشیا کی کوالٹی پر نظر رکھنی چائیے۔ بھلا ہمارا کیا قصور اگر ہم ماہ رمضان میں اشیا کی یا اپنے اہنے کام کے دام بڑھا لیتے ہیں آخر کو سال میں تمام مہینے یہ سب کرنے کے بعد اتنی چھوٹی سی عادت تو ویسے ہی پکی ہو جاتی ہے۔ چھوڑیے کرپٹ حکومت کو اور اپنے اپنے بس اور طاقت کے مطابق اس مقدس ماہ میں بھی ایک دوسرے کا خون نچوڑیں، روزہ نہ رکھنے والوں پر لعن طعن کریں اور مہنگائی اور نانصافی کو بھی کسی اور کے کھاتے میں ڈال کر اپنے آپ کو دھوکہ دینے میں مشغول رہیں۔