Talashi Shuru Ho Jaane Ke Bawajood - Nusrat Javeed


"تلاشی“ شروع ہو جانے کے باوجود؟ 
نصرت جاوید 

وہ دن کہ جس کا وعدہ تھا....“ میرے اس کالم کو لکھ دینے کے تقریباََ چار گھنٹے بعد طلوع ہونے والا ہے۔ دو بجے سہ پہر ”فیصلہ“ سنادیا جائے گا۔ اس کے بعد پاکستان وہ نہیں رہے گا جو گزشتہ 70 سال سے جمعرات کی صبح میرے قلم اٹھانے تک نظر آرہا ہے۔کوئی تہلکہ خیز بات ہو نہ ہو،کم از کم یہ ضرور طے ہوجائے گا کہ اس ملک میں قانون سب کے لئے برابر ہے۔”بڑے“ اور ”طاقتور“ لوگ اب قانون کی گرفت سے بچ نہیں پائیں گے۔ انہیں ”تلاشی“ دینا ہوگی۔
مجھے یقین ہے کہ ”بڑے لوگ اب قانون کی گرفت سے بھاگ نہیں پائیں گے“ والی اطلاع ہمارے ایک سابق صدر-جناب پرویز مشرف- بھی بیرون ملک کسی بہت ہی قیمتی فلیٹ میں بیٹھ کر سن رہے ہوں گے۔”فیصلہ“ آجانے کے بعد شاید ہمارے کئی حق گو اینکر خواتین وحضرات ان سے تبصرہ آرائی کے لئے رجوع بھی کریں گے۔ ان کی زبان سے ادا ہوئے کلمات ”تاریخ بن گئی“والے گماں کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں کافی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔
میری بدقسمتی کہ ”انقلابی وقت“ سے پہلے پیدا ہوگیا تھا۔اپنے صحافتی کیرئیر کے ابتدائی ایام میں 1979ء کے آغاز کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں ایک ”تاریخی“ اپیل کی سماعت ہورہی تھی۔وہاں پیش ہونے والے شخص کو لاہور ہائیکورٹ نے قصور کے ایک تاریخی خاندان کے سربراہ کو قتل کروانے کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔”مجرم“ ٹھہرائے شخص کا تعلق لاڑکانہ سے تھا۔شاید وہ کوئی ”بڑا“ آدمی نہیں تھا مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلسل چار روز تک وہ سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑا اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے میں مصروف رہا۔سپریم کورٹ کے دفاتر ان دنوں راولپنڈی کے پشاور روڈ پر ہوا کرتے تھے۔مجھے اس مقدمے کی رپورٹنگ کے لئے علی الصبح اُٹھ کر اپنی موٹرسائیکل پر اسلام آباد سے وہاں جانا ہوتا تھا۔علی الصبح کی سردی سے محفوظ رہنے کے لئے سوجتن کرنا پڑتے تھے۔
بہرحال اس اپیل کی سماعت ختم ہوئی۔لاہور ہائیکورٹ کی سنائی سزا کو درست قرار دے دیا گیا۔4 اپریل 1979ء کی صبح مجرم قرار دئے اس شخص کو پھانسی بھی دے دی گئی۔ ”تاریخ“ بن گئی مگر یہ ملک نہیں بدلا۔ہم ویسے کے ویسے ہی رہے۔
1979ء تو دور کی بات ہے ۔چند ہی برس قبل وکلاءکی جانب سے چلائی ایک طویل تحریک اور بالآخر نواز شریف کی قیادت میں ہوئے لانگ مارچ کی بدولت سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس اپنے عہدے پر بحال ہوئے تھے۔عوامی پذیرائی کی طاقت سے مالا مال بے شمار جاں نثاروں کے اس چیف نے اپنے عہدے پر بحال ہوتے ہی تہیہ کرلیا کہ مبینہ طورپر قومی خزانے سے چراکر سوئٹزرلینڈ کے ایک بینک میں چھپائی خطیر رقوم کا سراغ لگایا جائے گا۔اس سراغ کو یقینی بنانے کے لئے ضروری تھا کہ پاکستان کا وزیر اعظم ایک سرکاری خط لکھ کر سوئس حکومت سے تعاون کی درخواست کرے۔یوسف رضا گیلانی نے وہ خط لکھنے سے انکار کردیا۔اس کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کا آئین اسے ایک غیر ملک کو اپنے ہی صدر کی جانب سے مبینہ طورپر چھپائی رقوم کا سراغ لگانے کی درخواست بھیجنے کا حق نہیں دیتا۔
وزیر اعظم کے اس مو¿قف کو ”توہینِ عدالت“ ٹھہرایا گیا۔گیلانی اس توہین کا ارتکاب کرنے کے جرم میں وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کردئیے گئے۔ان کی جگہ گوجر خان سے رکن قومی اسمبلی ہوئے راجہ پرویز اشرف نے سنبھال لی۔ موصوف نے وہ ”چٹھی“ اپنا عہدہ بچانے کی خاطر لکھ بھی ڈالی۔سوئس بینکوں میں چھپائی رقوم کا مگر اب بھی سراغ نہیں مل پایا ہے۔انہیں قومی خزانے میں لے کر آنا تو بہت دور کی بات ہے۔
4 اپریل 1979ء کی صبح ہوئی پھانسی،گیلانی کی فراغت اور جناب پرویز مشرف صاحب کی راحت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں بدنصیب اس ”تلاشی“ کے بارے میں ہرگز مسحور اور شاداں نہیں محسوس کرپایا جوگزشتہ سال نومبر میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے اثاثوں کی بابت شروع ہوئی تھی۔میں ٹی وی سکرینوں پر بہت رونق لگاتی اور کئی ہفتوں تک پھیلی اس ”تلاشی“ کا بھی بہت شوق سے مشاہدہ نہیں کرپایا۔چند ہی گھنٹوں بعد اس”تلاشی“ کے بارے میں ”فیصلہ“ بھی آجائے گا۔مجھے اس فیصلے کے بارے میں ککھ خبر نہیں۔ایک بات کا البتہ پورا یقین ہے اور وہ یہ کہ 20 اپریل 2017ء کو آئی جمعرات ہرگز وہ دن نہیں ہے۔” جس کا وعدہ“ ہوا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس ملک کا ایک اور وزیر اعظم فارغ کردیا جائے گا۔
20 اپریل 2017ء کی جمعرات سے زیادہ میرے ذہن پر ویسے بھی اُس ضمنی انتخاب کے نتائج سوار ہیں جو اسلام آباد سے چند گھنٹوں کی مسافت پر واقعہ تلہ گنگ میں صوبائی اسمبلی کی ایک خالی ہوئی نشست پر ہوا۔گزشتہ منگل کے روز ہوئے اس انتخاب کے بارے میں مجھے گماں تھا کہ اس نشست کے لئے پاکستان مسلم لیگ نون کے نامزد کردہ امیدوار کویہ نشست جیتنا بہت مشکل ثابت ہوگا۔مقابلہ اس کا تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار سے تھا۔اس امیدوار کی حمایت کے لئے چودھری پرویز الٰہی کی مسلم لیگ،پیپلز پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ)بھی متحد ہوگئے تھے۔مقابلہ ون آن ون ہوگیا۔ون آن ون بنائے اس مقابلے میں اپنے امیدوار کی فتح کو یقینی بنانے کے لئے عمران خان صاحب تلہ گنگ بھی تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ایک پُرہجوم اور پُرجوش جلسے سے خطاب بھی کیا۔
تحریک انصاف کے ایک انتہائی باخبر اور مخیر رہ نما جہانگیر ترین بھی اس حلقے میں بہت متحرک رہے۔پولنگ شروع ہونے سے قبل سیالکوٹ سے عثمان ڈار اور لاہور سے علیم خان بھی وسائل سے مالامال اس حلقے میں پہنچ گئے۔بالآخر نتیجہ آیا تو مسلم لیگ نون کا امیدوار تحریک انصاف کے امیدوارسے 21 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیت گیا۔ میں ووٹوں کے اس حیران کن فرق کے بارے میں ابھی تک پریشان ہوں۔سمجھ نہیں آرہی کہ ”تلاشی“ شروع ہوجانے کے باوجود نواز شریف کا نمائندہ تلہ گنگ سے کیوں جیت گیا ہے وہ بھی حیران کن اکثریت کے ساتھ۔