عمران خان اور مریم نواز کی فتح
عماد ظفر
طویل اور اعصاب شکن انتظار کے بعد پانامہ پیپر کیس کا فیصلہ آ گیا۔ملکی سیاسی تاریخ کے اس اہم ترین فیصلے کو لیکر عدلیہ پر بیحد دباؤ تھا۔ فیصلے میں نواز شریف کو عدالت نے نااہل تو قرار نہیں دیا لیکن ان کو اور ان کے بیٹوں کو جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے سامنے پیش ہونے کا حکم ضرور دے ڈالا۔ اس فیصلے کے اندر بذات خود دو فیصلے موجود ہیں۔پہلا نکتہ یا فیصلہ نواز شریف کی نااہلی سے متعلق ہے جسے معزز عدلیہ نے رد کرتے ہوئے نواز شریف کو نااہل قرار نہیں دیا۔ شارٹ ٹرم میں یقینا یہ فیصلہ نواز شریف اور ان کی جماعت کے حق میں آیا ہے لیکن اس فیصلے کے دور رس نتائج عمران خان اور ان کی جماعت کے حق میں آئے ہیں۔ کیونکہ عدالت نے نواز شریف کو کوئی کلین چٹ نہیں دی بلکہ اس معاملے کی مزید تحقیق کیلئے ایک جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بناتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کے بچوں کو اس میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ یہ دراصل عمران خان کے موقف کی جیت ہوئی ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی بیرون ملک رقوم کی منتقلی دوسرے شکوک و شبہات موجود ہیں کہ رقوم کی منتقلی مکمل طور پر قانونی طریقے سے نہیں کی گئی تھی۔ اس فیصلے نے میری دانست میں نواز شریف کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا ہے ۔عدالت عظمی نے کہیں بھی فیصلے میں یہ زکر نہیں کیا کہ آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک رقوم کی منتقلی کے حوالے سے شریف خاندان پر لگائے ہوئے الزام غلط ثابت ہوئے ہیں۔ عمران خان نے اپنا مقدمہ چونکہ شروع ہی سے نواز شریف کی نااہلی کو بنیاد بنا کر لڑا اس لیئے شاید اب انہیں نواز شریف کو نااہل نہ قرار دینے کے عدالتی فیصلے پر خفت اور سبکی محسوس ہو رہی ہو گی۔انہوں نے اپنےکارکنان کو جس حد تک یہ یقین دلوایا ہوا تھا کہ عدالت کے زریعے نواز شریف کو نااہل قرار دلوا کر وہ نواز شریف سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارہ پا لیں گے اور اس عدالتی فیصلے کے بل پر فوری انتخابات کے ذریعے مسند اقتدار پر جا بیٹھیں گے وہ اول دن سے ہی ایک دیوانے کے خواب کی مانند تھا۔ ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بنا پر نواز شریف کو نااہل قرار دینا ناممکن تھا۔اس فیصلے میں بس یہ دیکھنا تھا کہ کیا عدلیہ عمران خان اور دیگر فریقین کی پیٹیشن میں لگائے گئے الزامات کو کو رد کر دیتی ہے؟ اور دراصل عدلیہ نے اپنے فیصلے کے ذریعے یہ بتا دیا کہ انہوں نے پیٹیشن میں لگائے گئے تمام الزامات کو تسلیم کرتے ہوئے مزید تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اخلاقی اعتبار سے اس فیصلے کے آنے کے بعد نواز شریف کی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے۔کیونکہ روز اول سے ان کا موقف تھا کہ وہ عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کر دیں گے لیکن ان کی جانب سے فراہم کردہ ثبوتوں پر عدالت عظمی مطمئن نظر نہیں آئی۔ اس سارے فیصلے کی روشنی میں فی الحال جو ایک سیاسی شخصیت مکمل فاتح بن کر نکلی پے وہ مریم نواز ہے۔ عدلیہ نے اپنے فیصلے میں مریم نواز کا نہ تو کوئی زکر کیا اور نہ ہی انہیں جائنٹ انوسٹیگیشن ٹرائببنول میں پیش ہونے کا حکم دیا۔یعنی مریم نواز کو ایک طرح سے کلین چٹ مل گئی اور اب اگلے انتخابات میں مریم نواز باآسانی مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم بااثر انداز میں چلا سکیں گی۔ اس کیس میں مریم نواز کو کلین چٹ کا ملنا ایک انتہائی اہم پہلو ہے جسے اکثر تجزیہ نگار سمجنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔نواز شریف کے نااہل ہونے یا نا ہونے سے بہت زیادہ فرق اس لیئے بھی نہیں پڑتا کہ اگلے انتخابات میں ان کے بجائے مریم نواز نواز وزارت عظمی کی امیدوار ہوں گی ان کا اس کیس کی آئندہ کی تفتیش سے کلیئر ہو جانا ان کی جماعت کیلئے تقویت و اطمینان کا باعث ہے۔ دوسری جانب عمران خان اور ان کی جماعت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ بہر حال انہوں نے نواز شریف کے خلاف اپنا بیانیہ نہ صرف مضبوط کیا بلکہ عدالت عظمی سے ایک جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹراوبننول بنوا کر کسی حد تک اپنے پانامہ سے متعلق پوائنٹس کو مزید مضبوط کیا۔آج کے اس فیصلے کی رو سے نواز شریف کی ذاتی اخلاقی و سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا ،عمران خان کو دور رس سیاسی فائدہ حاصل ہوا جبکہ مریم نواز کو کلین چٹ کی صورت میں فتح نصیب ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ اکثر طاقت کی بساط پر رانی کو بادشاہ کیلئے قربان کیا جاتا ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ بادشاہ نے رانی کو بچانے کیلئے خود کو قربان کر دیا۔