بارے صحت کا بھی بیان ہوجائے


بارے صحت کا بھی بیان ہوجائے۔۔۔ تحریر حیات محمد حیات (کالام، سوات)۔

ویسے ’’ صحت کا انصاف‘‘ کا مقصد عوام کی صحت کا خیال رکھنا ہے یا پھر سیاسی صحت کو ہشاش بشاش رکھنا ہے اس بارے کالم پڑھنے کے بعد قارئین ہی بہتر فیصلہ دے سکتے ہیں ،ویسے تو خیبر پختونخوا بالعموم اور سوات بالخصوص کے بے چارے مریض و لاغر سول اسپتالوں کی صحت بارے ہر خاص و عام کو بخوبی علم ہے لیکن کالام سول اسپتال کی بگڑتی ہوئی صحت بارے بھی کچھ بیان ہوجائے جس پر مختلف بیماریوں نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔
بصد ادب و احترام ’’صحت کا انصاف ‘‘ والوں سے گزارش کی جاتی ہے کہ یہ کالم نہ پڑھیں!ہوسکتا ہے ہمارے لفظ لفظ میں بسی مختلف قسم کی موذی امراض آپ صاحبان کی صحت شادماں کو شاق نہ کردیں!
یوتھ کونسل کالام کے صدر ڈاکٹر ناصر کے ساتھ کالام سول اسپتال کے داخلی گیٹ سے ہوتے ہوئے ہمیں ایک تاریک اور بھیانک سے کمرے میں گئے جہاں پر اسپتال انچارج ڈاکٹر خان بہادر اسپتال کے دیگرجملہ عملے کے ساتھ ایک انگھیٹی میں آگ تاپے بیٹھے ہوئے تھے۔ علیک سلیک کے بعد شیڈول کے مطابق ڈاکٹر خان بہادرسول اسپتال کالام کی’’ صحت بارے کہانی ‘‘ تقریر کرتے گئے اور ہم تحریر کرتے گئے۔
تو قارئین کرام ! آئیں ہم آپ کو سناتے ہیں سول اسپتال کی’’ صحت بارے کہانی‘‘ ڈاکٹر خان بہادر کی اپنی زبانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
گذشتہ سیلاب کے بعد تادم تقریر اسپتال میں بجلی نامی کوئی چیز نہیں ۔ ایک گھساپٹا جنریٹر پڑا ہوا ہے لیکن اس کی پیٹ بھرنے کے لئے فیول نہیں۔ڈاکٹروں اور دیگر عملہ کو اپنا انجن تک ٹھنڈا کرنے کے لئے پینے کا پانی بھی موجود نہیں۔
میڈیسن ختم ہوچکی ہے ، میڈیسن سپلائرز موجود نہیں، مزید سپلائی کے لئے ان کھنڈرنما سڑکوں۔۔۔یہاں پر ایک اور موضوع کالم لکھنے کے لئے سر اٹھاتا ہے لیکن چلو رہنڑدے۔۔۔۔ پر سفر کرتے ہوئے منگورہ سے خود وصول کرنا پڑتا ہے وہ بھی اگر اس سڑک نما کھنڈرات سے گزرتے ہوئے اگر ایک آدھ شیشی بچ بھی جائے تو۔۔
کل ملاکے ہم پنتالیس سٹاف اسپتال میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں جس میں پندرہ نان لوکل سٹاف ہیں اور نان لوکل سٹاف میں سات فی میل نرسنگ سٹاف بھی شامل ہیں لیکن ان کی رہائش کے لئے کوئی جگہ موجود نہیں۔۔۔یہاں پر ہمارا قلم رک جاتا ہے اور ہم بیچ میں بولنے کی گستاخی کرتے ہیں کہ جناب اتنی وسیع و عریض عمارت اور پھر بھی ۔۔۔۔۔۔۔!سوال پورا ہی نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے گویا ہوئے ۔اسپتال کے چند کمروں کے علاوہ پوری بلڈنگ پر پاک آرمی اور دیگر سرکاری ملازمین نے اپنا تسلط جمالیا ہے ۔جس کے ’’کارن‘‘ تمام نان لوکل سٹاف اسپتال بدر ہوچکے ہیں میل سٹاف کو تو ہم نے کسی نہ کسی طریقے سے ایڈجسٹ کیا ہے لیکن فی میل سٹاف کا مسلہ گھمبیر ہے۔
ہم نے پھر سے بیچ میں خلل ڈال کر کہانی کو بے مزہ کردیا اور پوچھا کہ آپ لوگوں نے متعلقہ حکام کو اس گھمبیر مسلے سے آگاہ کیا ہے ۔۔۔۔؟
تو فرمانے لگے ہم خود ریہ مسلہ لیکر ڈی ایچ او سوات کے حضور گئے تھے ، جب ہم نے پاک آرمی کا نام لیا تو انہوں نے اپنی ہونٹوں پر انگلی رکھی اور صاف صاف انکار کردیا کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔۔۔۔۔۔بہت اچھے !
اس کے علاوہ عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ عمارت میں رنگ و روغن تو دور کی بات دیواریں بوسیدہ ہوکر گرنے والی ہیں جس کی مرمت کے لئے کوئی فنڈ موجود نہیں۔
اس کے پیٹ پیچے والی بوسیدہ اور میلا دیواراس کی بات کا صاف گوہی دے رہا تھا جس پر میل کے مختلف نقشے بنے ہوئے تھے ۔
ہم نے ورق بند کردیا اورسول اسپتال کی بگڑتی ہوتی طبعیت کو’’ صحت کے انصاف والوں‘‘ کے گوش گزارکرنے کی یقین دہانی کرتے ہوئے دم دبا کر بھاگنے والے ہی تھے کہ کلینکل پیتھالوجی ڈاکٹر عالمزیب نے ہمیں بازو سے پکڑ کر لیبارٹری میں وارد ہوئے جہاں پر ایک کمپوٹر سورہا تھا اور کچھ ٹیسٹوں کے آلات بکھرے پڑے تھے ۔ انہوں نے چند Smears ہمیں دکھائیں جن پر ٹی بی ٹسٹوں کے لئے بلغم جمع کئے ہوئے تھے اور ریکارڈ بک نکال کر ہمیں ٹی بی کے چند پازیٹوں کیسز بھی دکھائے جن میں ایک مہینے کے اندر سات ٹی بی جیسے موذی مرض کے کیسز تھے اور ان کے مطابق بجلی نہ ہونے کی وجہ اسے وہ اپنے خرچ پر یہ ٹسٹیں اپنے پرائیویٹ کلینک میں سرانجام دے رہے ہیں ان کے مطابق اگر اسی طرح حکومت کا منہ تاکتے رہیں گے تو یہ مرض ایک مریض سے دوسرے میں منتقل ہوتا جائے گا اور اسی طرح مرض پھیلنے کا یہ سلسہ جارہی رہے گا اور پوری وادی کالام کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ 
قارئین کرام! تعلیم و دیگر شعبوں میں حکومت نے اب تک وادی کالام جیسے پسماندہ علاقوں کے ساتھ جو انصاف روا رکھا ہے وہ تو آپ بخوبی جانتے ہیں لیکن’’ صحت کا نصاف ‘‘والا بلند بانگ نعرہ جو آپ کی سماعت سے ٹکرا رہا ہے کیا یہ کہانی سننے کے بعد بھی آپ کو صحت میں انصاف نامی کوئی چیز نظر آرہی ہے ۔۔۔۔۔؟