Siasat Se Hat Ker - Irshad Bhatti


سیاست سے ہٹ کر 
ارشاد بھٹی 

جب بھی سیاست کے علاوہ کچھ لکھوں تو بُرے وقتوں کے اچھے دوست میجر عامر کہیں ’’کن چکروں میں پڑگئے ‘ تصوف سے نکلو ‘ ملکی صورتحال پر لکھاکرو‘‘لیکن عامر بھائی یقین جانئے دو دن لگا رہا کہ پاناموں ‘اقاموں اور منی ٹریل میں پھنسی سیاست ‘نااہلی کے آئی سی یو میں پڑی معیشت‘ سب چھوڑ چھاڑ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے سیاستدانوں‘ بڑی بُری طرح تقسیم ہوچکے میڈیا اور ’’سانوں کی ‘‘بن کر تماشےدیکھتی قوم کے حوالے سے کچھ لکھوں مگر جب تمام تر کوششوں کے باوجود 2 دنوں میں د و سطریں بھی نہ لکھ پایاتوپھر نہ چاہتے ہوئے بھی سیاست سے ہٹ کر لکھ رہا اور تصوف پر ہی لکھ رہا ‘لہٰذا عامر بھائی معذرت۔ اب حاضر ہے پچھلے 3 سالوں میں ’’صوفی ازم ‘‘ کے حوالے سے جو کچھ پڑھا‘ اسکا نچوڑ ‘ اگر دو چار لمحوں کیلئے آپ بھی دل ودماغ سیاست سے ہٹانا چاہتے ہیں تو پھر دیر کس بات کی۔ ۔ بسم اللہ کریں ! 
کہا جاتا ہے کہ صوفی یونانی لفظ (sophos) سے نکلا او راس کا مطلب دانش، کہا یہ بھی جائے کہ صوفی لفظ صفہ سے جسکا مطلب پتھرکی گدی، ایک روایت یہ بھی کہ صوفی لفظ صوف سے نکلا‘ جسکے معنی اون کے کپڑے، یہ روایت اس لئے حقیقت کے قریب کہ تحقیق ثابت کر چکی صوفیاء اون کے کپڑے پہنا کرتے تھے، اب سوال یہ کہ صوفی کون‘ جواب ایک صوفی کی ہی زبانی ’’ جب روح اور جسم کی صفائی مکمل ہوجائے تو بندہ صافی اور جب صافی( بندے) کی زندگی میں صرف اللہ کی ذات ہی رہ جائے تب وہ صوفی‘‘، اگلا سوال یہ کہ صوفی ازم کا آغاز کیسے ہو‘ جواب یہ کہ آغاز ارادے سے کیونکہ ارادہ مخفی شعور کی بیداری کا نام، ابنِ سینا کہیں ’’ارادہ اس شوقِ آرزو کا نام کہ جس کا احساس تب پیدا ہو جب انسان مکمل طور پر خود کو تنہا اور بے سہارا سمجھے ‘‘، ارادے کے بعد ریاضت یعنی تربیت اور تربیت مطلب نفس عمارہ کو نفسِ مطمئنہ کے تابع کرنا اور جب ارادہ اور ریاضت وہاں آپہنچے کہ جہاں ہر شئے میں جلوہ خدا دکھائی دے تو سمجھو صوفی ازم کا سفر شروع ہو گیا۔ حضرت رومی ؒ کے زمانے میں کسی نے خاقانی سے پوچھا’’ صوفی ازم کیا ہے‘‘، جواب ملا’’صوفی ازم کا مطلب جب انسان کو غم‘لطف دینا شروع کر دیں یعنی To find joy in the heart when afflictions come، ثنائی نے ایک بار کہا ’’دنیا میں دو طرح کے لوگ ایک صوفی اور دوسرے فریبی۔ صوفی وہ جن کی روح پاک اور جو محبت و اخلاص بانٹنے والے ‘فریبی deceptive فریب سے کام لینے والے‘‘، حضرت علی بخش ہجویری ؒ فرمایا کرتے ’’ صوفی وہ جس کے خیالات اور عمل میں ایسا باہوش توازن کہ جہاں جسم وہاں روح اور جہاں روح وہاں جسم بھی‘‘، حضرت امام غزالی ؒ فرمائیں ’’صوفی ترکِ دنیا نہیں کرتے ‘ کھانا پینا نہیں چھوڑتے اور دنیا کی کوئی شے رد نہیں کرتے ‘ یہ علیحدہ بات کہ وہ کسی دنیاوی چیز کا پیچھا بھی نہیں کرتے ‘‘، حضرت عبدالرحمن ؒ جامی کہیں کہ جیسے ’’صوفیانہ زندگی 2 ادوار یعنی لاعلمی سے لاعلمی کے خاتمے اور خود فریبی سے خودی کی تکمیل پر مشتمل ‘‘، ویسے ہی صوفی راہ کے مسافروں کو 4 سفرکرنا پڑیں، پہلا سفر مخلوق سے خالق کی طرف، دوسرا خالق شناسی، تیسرا خالق سے جدا ہوئے بغیر مخلوق کی طرف لوٹنا اور چوتھا سفر مخلوق کے درمیاں مگر حق تعالیٰ کی معیت میں، گو کہ صوفی ازم میں ترکِ دنیا نہیں مگر خلوت کا ہونا بہت ضروری، اور خلوت دوطرح کی، ایک خلوت عام یعنی غیر اللہ اورکم سمجھ لوگوں سے الگ تھلگ رہنا اور ان سے صرف ضرورت کے وقت ملنا جبکہ خلوت خاص کا مطلب سب لوگوں سے دورہو کر علیحدگی میں اپنا محاسبہ کرنا۔ 
حضرت ذوالنون مصری ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ صوفیا وہ جنہوں نے ہر شئے پر خدا کو فوقیت دی، حضرت بایزید بسطامی ؒ کہیں کہ ’’جب تک بندہ اس زمین کی طرح نہیں ہوجاتا کہ جس پر نیکوکار اور گناہ گار دونوں رہ رہے، جب تک وہ اس درخت کی طرح نہیں بن جاتا کہ جو ہر ایک پر سایہ کر ے اور جب تک وہ بارش کی طرح نہیں ہو جاتا کہ جو سب پر برسے، تب تک وہ صوفی نہیں بن سکتا‘‘، حضرت جنید بغدادی ؒ کا فرمانا کہ ’’ صوفی کی راہ 8 پیغمبروں کی خصوصیات پر مشتمل، حضرت ابراہیم ؑ کا ایثار جو اپنے بیٹے تک کو قربان کر دینے پر تیار، حضرت اسماعیل ؑکی فرمانبرداری جو باپ کے حکم پر جان لٹانے کیلئے راضی، حضرت یعقوبؑ کا صبر، حضرت زکریا ؑ کی اسراریت (جب خدا نے کہا کہ تم انسانوں سے 3 دن تک بات نہیں کروگے)، حضرت یونس ؑ کی تنہائی اور وہ بھی ایسی کہ وہ اپنے ہی ملک میں اجنبی، حضرت یوسف ؑ کا دنیا کو تیاگ دینا، حضرت موسیٰ ؑ کا اون پہننا، اوررسالت مآبؐ کی ایسی فقیری کہ تمام خزانوں کے ہوتے ہوئے بھی فرمادیں کہ’’فقرمیرا فخر ‘‘۔ 
تاریخ بتائے کہ اپنی محبت میں گرفتار انسان کو صوفی ازم سے ہی پتا چلا کہ اپنی ذات تو کچھ نہیں، اسکی تو کوئی حیثیت ہی نہیں، بلکہ یہ ذات تو کسی دوسرے کی امانت، یہ بھی صوفی ازم ہی سکھائے کہ ہماری تکلیفوں کی وجہ حبّ ِ نفس اورحبّ ِ جاہ اور صوفی ازم وہ راہ کہ جس پر چل کر بندہ اپنے رب کی یوں قربت حاصل کر لے کہ پھر خود پروردگارفرمائیں ’’جب تومیرے قرب کی چاہ میں قریب آئے تو پھر میں ایسی محبت کروں کہ وہ کان بن جاؤں جس سے تو سنے، وہ آنکھ بن جاؤں جس سے تو دیکھے، وہ زبان بن جاؤں جس سے تو بولے اوروہ ہاتھ بن جاؤں جس سے تو کام کرے‘‘۔ 
جب صوفیاء کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پہلی صدی کے صوفیوں میں ابوذرغفاری ؒ اور حضرت سلمان فارسی ؒ سرفہرست اور انکے بعد ابوہاشم ؒ اور سفیان غوریؒ، دوسری صدی کے صوفیاء میں حضرت حسن بصری ؒ، ابراہیم بن ادہم ؒ اور رابعہ بصری ؒ، تیسری صدی کے صوفیاء میں شفیق بلخی ؒمعروف کلخی، بایزید بسطامی ؒ اور جنید بغدادی ؒ، چوتھی صدی میں ابوبکر شبلی ؒ، ابو نصر سراج طوسیؒ اور ابوالفضل سرخسی ؒ، پانچویں صدی شیخ ابوالحسن خرقانی ؒاورابوالحسن علی بن عثمان ہجویریؒ، چھٹی صدی خواجہ عبداللہ انصاریؒ اورابو حامد محمد غزالیؒ، ساتویں صدی میں احمد جامیؒ، شیخ نجم الدین کبریؒ اورشیخ فرید الدین عطارؒ، آٹھویں صدی حاتم طائی کی نسل سے محی الدین ابن عربی ؒ، صدر الدین محمد قونویؒ اور مولانا جلال الدین محمد بلخی رومیؒ، نو یں صدی خواجہ حافظ شیرازیؒ، شیخ محمود شبستریؒ اورشاہ نعمت اللہ ولیؒ اور دسویں صدی کے اہم صوفی نورالدین عبدالرحمن جامی ؒ۔ 
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ صوفی ازم صرف ایشیاء میں ہی نہیں بلکہ اس کے یورپ میں بھی بہت چرچے ‘ اس حوالے سے مشرق کی طرح مغرب میں بھی فکر اور رجحان کے کئی نئے پہلو دریافت ہوئے، جیسے جوائن ولی (join ville)کا سترہویں صدی میں رابعہ بصری ؒ کی شخصیت اور روحانی مقام کے بارے میں یورپ کو آگاہ کرنااور جرمن افسانہ نگار مسکس ویل یورپ کا صوفی ازم کا نظریہ متعارف کروانا، اسی طرح ایک طرف جب یورپ میں سولہویں اور سترہویں صدی میں مولانا روم کے رقص کی کہانیاں سنی اور سنائی جارہی تھیں تو دوسری طرف فرانس میں صوفی ازم کی داستانیں عام ہو چکی تھیں، پھر adam oleariusکا شیخ سعدی ؒ کی کتاب ’’گلستان سعدی‘‘ کا جرمن زبان میں ترجمہ کرنا۔ 
کلکتہ میں سرولیم جونز کا حافظ شیرازی کی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کر دینا، اے آر اربری کا صوفی ازم کی تاریخ قلمبند کرنا اور ای ایچ پالمرکا 1867 میں Oriental Mysticism، ہنری کاربون کا ایران میں صوفی ازم کے بارے میں کتاب لکھنا، Reynold Nicholson کا حضرت رومی ؒ کی شاعری کو بنیاد بنا کر صوفی ازم سمجھانا اورHellmut Ritter کی فرید الدین عطارؒ کے بارے میں کتاب The ocean of the soul ’’روح کا سمندر ‘‘میں توکل اور صوفی ازم کو بیان کرنا اور پھر بات یہیں نہیں رُکتی بلکہ کل کی طرح آج بھی یورپ میں صوفی ازم کی مقبولیت کا یہ عالم کہ قرآن کے بعد اب بھی سب سے زیادہ کتابیں صوفی ازم کی ہی فروخت ہور ہیں۔ 
دوستو! قصہ مختصر !ہزار باتوں کی دوباتیں‘ پہلی یہ کہ صوفی ہی بتائے کہ’’ اللہ اکبر کا مطلب صرف یہی نہیں کہ اللہ سب سے بڑا بلکہ اللہ کو سب سے بڑامان اور جان کر اللہ کے یوں قریب آجانا کہ پھر اسکی عظمت کا نظارہ ہو سکے‘‘ اوردوسری بات:صوفی ہی سمجھائے کہ ’’ اللہ سے عشق کرو تو ایسا کہ پھر زندگی اور موت کا ہر فرق مٹ جائے ‘‘۔