سعودی عرب میں تبدیلیاں۔ ۔ ۔ کرپشن یا شطرنج
نجم الثاقب
سعودی عرب کے شاہ سلمان نے2015 میں شاہ عبداللہ کی تدفین کے بعد 79 برس کی عمر میں تخت سنبھالنے کے بعد اپنے بھتیجے محمد بن نائف کو ولی عہد اور اپنے 29 سالہ بیٹے شہزادہ سلمان کو وزیر دفاع کا عہدہ دیاجو دنیا کے سب سے کم عمر وزیر دفاع قرار پائے۔ آج کے ولی عہد محمد بن سلمان کا شمارسعودی عرب کا بادشاہ ہونے سے پہلے ہی اس خطے کے سب سے بااثر شخصیات میں ہونے لگا ہے۔ محمد بن سلمان نے چارج لیتے بہت ہی قلیل عرصہ میں سعودی عرب کی تاریخ میں ایسی تبدیلیاں کیں جس کی مثال کبھی نہیں ملتی۔ ساری دنیا میں ان کے فیصلوں کی گونج سنائی دے رہی ہے آنے والے دنوں میں ملکی سیاست کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر اس کے اثرات مرتب ہونگے۔ سعودی عرب کے اندر دہشت گرداور بنیاد پرست عناصر کے ارد گرد گھیرا تنگ کیا جار ہا ہے۔
محمد بن سلمان نے عہدہ سنبھالتے ہی داخلہ امور کے ساتھ دفاع اور معیشت پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا اور بڑے پیمانے پر دفاعی اور معاشی اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ سعودی عرب کی تیل کی آمدن کم ہوتی چلتی جار رہی اور منافع آدھا رہ گیا ہے جس کا اثر معاشرے کے تمام مکتبہ فکرافرادکی زندگیوں پر پڑ رہا ہے۔ سعودی عرب کی بقاء کے لئے بہت ضروری ہے کہ جتنا جلدی ہو سکیں ایسی معاشی اصلاحات کا نظام نافذ کیا جس سےترقی و خوشحالی کی نوعید دوبارہ لا جا سکے۔ محمد بن سلمان نے بہت سے معاشی منصوبوں کا اعلان کیا جن میں اربوں ڈالر مالیت کا ماڈرن نئے شہروں کی تعمیر اور بزنس و کاروباری زون کے تعمیری منصوبہ جات شامل ہیں۔ ولی عہد نے سعودی ریاست کے شمال مغرب بحر احمر کے ساحل اور عقابہ خلیج کی طرف چھبیس ہزار مربع کلومیٹر پر این۔ ای۔ او۔ ایم گرینڈ منصوبے کا اعلان کیا جس سے سعودی عرب کا ایشیا، یورپ اور افریقی ممالک سے باسانی رابطہ ہو پائے گا یہ منصوبہ 2030 تک سعودی معاشیت میں تقریبا 2 سو ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ لانے میں معاون ثابت ہو گا۔ سعودی عرب کے شہری سالانہ تقریبا 80 ارب ریال سیاحت کے نام پر بیرون ممالک میں خرچ کرتے ہیں۔ محمد بن سلمان کی کوشش ہے کہ وہ تمام انٹرنیشنل لیول کی سہولیات یہاں فراہم کیں جائیں جس سے سعودی شہریوں کے ساتھ بیرون ممالک کے سیاح بھی یہاں کا رخ کرنے پر مجبور ہو جائیں جس سے سرمایہ کاری کے موقع پیدا ہونگے او ر سعودی اکامی مضبوط ہو پائے۔
محمد بن سلمان نے نوجوانوں کے لئے نئے روز گار کے موقع پیدا کرنے کی پالیسی مرتب کی تاکہ جب مغربی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تعلیمی وظائف کے پروگرام مکمل ہونے کے بعد سعودی نوجوان ملک لوٹے تو ان کو نوکریوں کی تلاش نہ کرنی پڑے۔ خواتین کو گاڑیاں چلانے کی اجازت ملنا بھی ان کی حکم عملی کا نتیجہ جس سے پوری دنیا میں مساوی حقوق کا پیغام دیا گیا۔
سعودی شاہ نے کرپشن کو روکنے کےلئے اینٹی کرپشن کمیٹی بنائی جس کا سربراہ 32 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان کو مقرر کیا جس نے سعودی سلطنت امور اور السعود خاندان کی کاہیا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ محمد بن سلمان نے شاہی خاندان سے ابتدا کرتے ہوئے گیارہ سابق اور چار موجودہ شہزادوں سمیت 38 سابق وزراء سمیت ہائی آفیشل: شہزادہ ولید بن طلال، شہزادہ متعب بن عبداللہ، شہزادہ ترکی بن عبد اللہ (سابق گورنر ریاض)، شہزادہ ترکی بن ناصر (سابق سربراہ محکمہ موسمیات)، شہزادہ فہد بن عبداللہ بن محمد (سابق نائب وزیر دفاع)، خالد التویجری(سابق سربراہ ایوان شاہی) محمد الطبیشی (سابق سربراہ ایوان شاہی)، عمرو الدباغ (سابق گورنر ساجیا)، سعود الدویش (سابق سربراہ ایس ٹی سی)، صالح کامل اور انکے بیٹے عبداللہ و محی الدین، الولید البراہیم (این بی سی گروپ کے مالک)، عادل فقیہ(سابق وزیر اقتصاد و منصوبہ بندی)، ابراہیم العساف (سابق وزیر خزانہ)، عبداللہ السلطان (بحریہ کے سبکدوش کمانڈر)، خالد الملحم (السعودیہ کے سابق ڈائریکٹر)، بکر بن لادن(چیئرمین بن لادن گروپ) اور سرمایہ کار محمد العمودی سمیت دیگر افراد شامل ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں سابق فرمانروا شاہ عبداللہ کے بیٹے کے ساتھ بہت ہی قریبی ساتھی بھی شامل ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان گرفتاریوں کا ایک مقصد شاہ عبداللہ کی سوچ اور باقیات کو بھی دفن کرنا لگتا ہے۔ بظاہر ان تمام افراد کو مالی کرپشن، منی لایڈرنگ، اختیارات کا ناجائز استعمال کے میگا الزامات کی بنیاد پر گرفتار کرنے کے احکامات جاری کئے۔ محمد بن سلمان نے تمام نجی طیاروں کی اڑن پر پابندی عائد کر دی گئی ہے تاکہ کوئی بااثر شخصیات سعودی عرب سے فرار نہ ہو پائے۔ سعودی حکومت میں شامل ہونے کے باوجود کئی بااثر شاہی افراد کو سلطنت کے امور سے فارغ کر دیا ہے۔
دنیا کے امیر ترین سعودی شہزادہ الولید بن طلال بھی گرفتار ہونے والی لسٹ میں شامل ہے جو18 ارب ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ گنگ ڈیم ہولڈرنگ سعودی عرب کی اہم ترین بزنس کمپنی ہے، دنیا بھر میں ٹویٹر، ایپل اور سٹی گروپ بینکس، فورسیزنس ہوٹلز اور نیوز کارپوریشن میں بڑے پیمانے پر شہزادہ الولید بن طلال نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان کمپینوں میں دوتہائی اکثریت خواتین کی ہے جو ان کی وجہ شہرت بھی ہے۔ شہزادہ الولید بن طلال معتدل اسلامی افکار کے مالک سمجھے جاتے ہیں ان کا شمار ترقی پسند شخصیات میں ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ شہزادہ الولید بن طلال نےمتعدد مرتبہ محمد بن سلمان کی اصلاحات اور پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔
ماضی میں السعود خاندان کے تمام ریاستی امور کے عہدے مختلف گھرانوں کے درمیان تقسیم کیے جاتے رہے ہیں تاکہ پوری طرح سلطنت میں خاندان کی طاقت کا اثر و رسواخ برقرار رہے۔ حالیہ گرفتاریوں کے بعد تمام اہم عہدے محمد بن سلمان کے زیر اثر آ گئے جن میں ملڑی، داخلی، سلامتی اور نیشنل گارڈ کے امور سلطنت شامل ہیں۔
سعودی اعلامیہ کے مطابق تمام افراد کے خلاف قانون و قواعد کے مطابق بلا کسی رعایت کے کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ آئندہ آنے والا وقت ا ور حالات ہی سے پتا چل پائے گا کہ محمد بن سلمان حقیقی معنوں میں سعودی عرب کی ترقی و خوشحالی کے خیر خواہاں یا صرف اپنے اقدار واختیار کو مضبوط کرنےکے لئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ سب اقدامات اٹھا رہے ہیں۔