مسلح ”مجاہدین“ پر دباﺅ ڈالنے کی بے جا امریکی توقعات!
نصرت جاوید
امریکی ایوان صدر پہنچ جانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مہینوں تک ہمیں انتظار کروایا۔ بالآخر اپنے جرنیلوں کے ساتھ طویل ملاقاتوں اور صلاح مشورے کے بعد اس نے 4 ماہ قبل ایک تقریر جھاڑدی۔ مقصد اس تقریر کا افغانستان کے بارے میں ”نئی“ امریکی پالیسی کا تعارف بتایا گیا تھا۔ پاکستان مگر اس کا اہم ترین موضوع رہا۔ ہم پر الزام لگاکہ امریکہ سے ”اربوں ڈالر“ اینٹھ لینے کے باوجود ہم اس کو افغانستان میں ”امن“ قائم کرنے نہیں دے رہے۔ ”حقانی نیٹ ورک“ جیسے ”دہشت گردوں“ کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ پاکستان کی مبینہ پشت پناہی کی وجہ سے افغانستان کی 40 فی صد سے زائد زمین وہاں کی حکومت کے اختیار تلے نہیں رہی۔ اس زمین پر فضائی حملوں کے ذریعے حکومت مخالف عناصر کا خاتمہ کرنے کی کوششیں ہوں تو وہ پاک، افغان سرحد پار کرکے پاکستان آجاتے ہیں جہاں ان دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہیں کئی برسوں سے موجود ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ لگی لپٹی رکھے بغیر تواتر کے ساتھ برسرعام یہ دعویٰ کرنا شرع ہوگئی ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ترجیحات کے مطابق ”امن“ اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک ریاستِ پاکستان کے تمام ادارے یکسو ہوکر ”حقانی نیٹ ورک“ جیسے دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات نہ اٹھائیں۔ انہیں اس امر پر مجبور کریں کہ وہ ہتھیار پھینک کر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں دیرپاامن کی راہیں دریافت کریں۔
افغانستان میں موجود اپنی ہر مشکل کا الزام پاکستان کے سر ڈالتی اس تقریر کے بعد ہم اس میں استعمال ہوئی زبان پر بہت ناراض ہوئے۔ ان الفاظ کو ادا کرتے ہوئے امریکی صدر کا لہجہ بھی ناقابلِ برداشت تھا۔ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کی وجہ سے ہمارے ہاں قیادت کا سنگین بحران پیدا ہوچکا تھا۔ اس کے باوجود نو منتخب وزیر اعظم نے تواتر کے ساتھ عسکری قیادت کے ساتھ مشاورتی اجلاس کئے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے نام سے بنائے ادارے نے طویل غوروخوض کے بعد تین صفحات پر مشتمل ایک بیان جاری کیا۔ امریکہ کو اس بیان کے ذریعے No More کا پیغام دے دیا گیا۔ اس پیغام کو امریکی حکام تک پہنچانے کے لئے ہمارے وزیر داخلہ ووزیر خارجہ نے واشنگٹن کے دور ے بھی کئے۔
خواجہ آصف جب یہ پیغام لے کر واشنگٹن پہنچے تو عجب واقعہ ہوگیا۔ امریکہ کی وزارتِ خارجہ میں گیا مہمان اپنی ملاقات کے بعد عموماََ وہاں کے حکام کے ساتھ کھڑا ہوکر صحافیوں کو چند باتیں بتاتا ہے۔ خواجہ آصف اپنے میزبان سے ملاقات کے بعد مگر عقبی دروازے سے باہر نکل گئے۔ ان کی خاموش رخصت کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے اکیلے ہی صحافیوں کے سامنے کچھ کلمات ادا کئے۔ پیغام ان کے ذریعے دنیا کو یہ دیا گیا کہ بظاہر ووٹوں کی قوت سے قائم ہوئی عباسی حکومت کے ساتھ صبح گیا یا شام گیا والا معاملہ ہوچکا ہے۔ طویل المدت بے ثباتی پاکستان کا مقدر بن چکی ہے اور وجہ اس بے ثباتی کی ریاست وحکومتِ پاکستان کی مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں اور گروہوں کے بارے میں اپنائی ”گومگو“ والی پالیسی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے عباسی حکومت کے بارے میں ادا کئے یہ کلمات ہمارے وزراءکو سخت ناگوار لگے۔ خواجہ آصف نے سینٹ میں کھڑے ہوکر اپنے پھیپھڑوںکا پورا زور لگاتے ہوئے ایک ایمان افروز تقریر جھاڑدی۔ نواز شریف کے کئی متوالوں کو اس تقریر نے ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تقریر یاد دلوادی جواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انہوں نے دوران جنگ ادا کی تھی۔ وہ عش عش کراُٹھے۔ وزیر خارجہ کی بلّے بلّے ہوگئی۔ امریکہ مگر اس تقریر کے باوجود بھی Do More کے تقاضوں سے باز نہیں آیا۔ گزشتہ ماہ اس کا وزیر خارجہ اسی پیغام کے ساتھ پانچ گھنٹوں کے لئے اسلا م آباد آیا۔ آئندہ ماہ جنرل Mattis کی آمد متوقع ہے۔ مارشل کے بعد یہ دوسرا امریکی جرنیل ہے جسے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد سات سال مکمل کرنے سے پہلے ہی وزارتِ دفاع کا منصب سنبھالنے کے لئے خصوصی استثناءدیا گیا ہے۔ بہت پڑھاکو اور Task-Driven جنرل ہے۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے حتمی فیصلہ سازی کا کامل اختیار اس کے حوالے کررکھا ہے۔
مجھے قوی امید ہے کہ پاکستان آنے کے بعد وہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت سے اب ہرگز یہ تقاضہ نہیں کر ے گا کہ وہ ”حقانی نیٹ ورک“ جیسے مسلح گروہوں پر دباﺅ ڈالتے ہوئے انہیں اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کریں۔ اسلام آباد میں جنرل Mattis کے ملک کاایک بہت بڑا سفارت خانہ کام کررہا ہے۔ سنا ہے کہ اس سفارت خانے میں امریکہ کے جاسوسی اداروں کی بھرپور نمائندگی بھی ہے۔ اس سفارت خانے میں پاکستان کے سیاسی حالات پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں نے یقینا واشنگٹن تک یہ بات اب تک پہنچادی ہوگی کہ عباسی حکومت سے ”حقانی نیٹ ورک“ (جس نے امریکہ جیسی سپر طاقت کے نام میں دم کررکھا ہے) پر دباﺅ ڈالنے کی توقع نہ رکھی جائے۔ یہ بیچاری تو کونے میں بیٹھی دہی کھارہی ہے۔
پاکستان کو متوقع امریکی دباﺅ سے بچانے میں اہم کردار اس وطن سے جذباتی محبت کرنے والے ان پاسدارانِ ختم نبوت نے ادا کیا ہے جو یہ کالم لکھتے وقت تک تیرہ دنوں سے راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے چوک فیض آباد میں دھرنا دئیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ تعداد ان پاسداران کی عموماََ3 سے4 ہزار کے درمیان رہتی ہے۔ یہ ”حقانی نیٹ ورک“ جیسے گروہوں کی طرح Battle-Hardened بھی نہیں ہیں۔ جذباتی لوگ ہیں۔ پولیس نے ا نہیں زبردستی وہاں سے اٹھانے کی کوشش کی تو زیادہ سے زیادہ ایسے ڈنڈوں سے مزاحمت کی کوشش کریں گے جن کے سروں پر کیل ٹھونکے ہوئے ہیں۔ نوکیلے پتھروں کے چند انبار بھی ان لوگوں نے ممکنہ مزاحمت کے لئے جمع کررکھے ہیں۔ ہمارے جاسوسی اداروں کوشبہ ہے کہ ان مظاہرین میں سے چند کے پاس اسلحہ بھی ہے۔ یہ اسلحہ مگر ان ہتھیاروں کے سامنے بچوں کی غلیل کی مانند ہے جو ایٹمی قوت والی پاکستان ایسی ریاست کو میسر ہوتا ہے۔
عباسی حکومت مگر نہتے اور دین کے نام پر جذباتی اور مشتعل ہوئے ان مظاہرین پر قابو پانے کی سکت نہیں رکھتی۔ اسلام آباد ہائی کور ٹ کے ایک معزز جج صاحب نے جن کی دین سے محبت پر کوئی سوال اٹھایا ہی نہیں جاسکتا، حکومت کوواضح ہدایت دے رکھی ہے کہ مظاہرین کو فیض آباد سے ہٹایا جائے۔ کیونکہ اس مقام پر ان کی مسلسل موجودگی کی وجہ سے روزانہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدور اپنی دیہاڑی نہیں لگاسکتے۔ ملازمین دفاتر نہیں جاپاتے۔ بچوں کا سکول جانا ناممکن ہورہا ہے اور مریضوں کو ہسپتال تک پہنچانے کی راہ نہیں مل رہی، حکومت مگر طاقت کے استعمال سے گریزاں ہے۔ مختلف علماءاور مشائخ سے مسلسل رجوع کرتے ہوئے انہیں مظاہرین کو فیض آباد چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی فریاد کررہی ہے۔
امریکہ ہمارا دوست ہونے کا دعوے دار ہے۔ کم از کم اب تو اسے یہ حقیقت جان لینا چاہیے کہ ہماری حکومت دین کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کے سامنے بے بس ہے۔ اس سے ”حقانی نیٹ ورک“ جیسے مسلح ”مجاہدین“ پر دباﺅ ڈالنے کی توقع کیوں رکھی جائے؟