MISSION 2040 - Ajmal Khokhar


MISSION 2040 
اجمل کھوکھر 

کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اعلیٰ اخلاق، مضبوط دفاع، بہترین معیشت اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ سائنسی تحقیق و ٹیکنالوجی کے ادارے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان چارستونوں میں سے اگر ایک کمزور پڑ جائے تو ملکی ترقی بلکہ بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اگر پاکستان کے ان چار ستونوں کا جائزہ لیں تو ہمیں پاکستان کے تقریباً ہر ادارے کی حالت بھی مضیحکہ خیز نظرآتی ہے لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں خاص طور پر سپیس سائنس کا تحقیقی ادارہ تو سنگِ بنیاد سے سنگِ بنیاد پرہی پڑاہے۔ سپیس ٹیکنالوجی کی دوڑ عصرِ حاضر میں اپنی بلندیوں کو چھو رہی ہے کیونکہ اس کی اہمیت اور قدرومنزلت مقام ثریا تک پہنچ چکی ہے سپیس سائنس کی ترقی ہی کی بدولت دنیا آج گلوبل ولیج بن چکی ہے، ابلاغ کے ذرائع میں سے سب سے زیادہ قابل اہمیت ذریعہ سےٹلائیٹس ہی ہیں اس کے ذریعے سے ہی ہمہ قسمی معلومات کی فراہمی موثرطریقے سے ہوتی ہے آجکل ہر ترقی یافتہ ممالک میں اس پر بے حد انحصار کیا جا رہا ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیاں اس کی کارکردگی پر کم ہی اثر انداز ہوتی ہیں اور حدود و قیود کی وساطت میں اسکا کوئی ثانی نہیں۔ ان سے ہمیں ریڈیو، موبائل فون اور کیبل نشریات کے انتہائی طاقتور سگنلز موصول ہو تے ہیں نیز سگنلز کو لا محدود فاصلوں تک موصول ہوتے رہتے ہیں، ان کے ہی دم سے جی پی ایس (Global Positioning System) تشکیل پاتا ہے جس کی بدولت اپنی ہم جائے موجود بلکہ کسی بھی مطلوب جگہ کا بالکل ٹھیک تعین کر سکتے ہیں اور اس سہولت سے دنیا کے کسی مقام تک رسائی پا سکتے ہیں بری و بحری جہازوں کے علاوہ اب یہ سہولت عام ہو گئی ہے۔ سیٹلائیٹس ہماری زمین کا چکر کاٹ کر موسم کی درست پشین گوئی میں ہماری بہت مدد کرتی ہیں اور اس طرح کسی طوفان یا کوئی بہت بڑی موسمیات سے متعلقہ آفت کا پہلے پتہ لگا کر نا قابلِ تلافی جانی ومالی نقصان سے بچ جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دفاع میں اس کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے اس کے ذریعے دوسرے ممالک کی جاسوسی کر کے حساس معلومات حاصل کر کےاس کے عزائم کا اندازہ لگا کر مناسب دفاعی انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔ سیٹلائیٹس خلائی تحقیق میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، دوسرے سیاروں کی معلومات اکٹھی کرنے میں بے حد مدد گار ثابت ہوتی ہیں کچھ سیٹلائیٹس ہر وقت سورج کی نگرانی کرتی رہتی ہیں تاکہ اس میں اٹھنے والے طوفانوں کی معلومات اکٹھی کریں کیونکہ طوفانوں سے سورج کے شعلوں بڑھتے ہیں اور ان کے بڑھنے کی وجہ سے زمینی کمیونیکیشن کا نظام بہت حد تک متاثر ہوتا ہے۔ روزبروز کی ضروریات زندگی میں اس کی اہمیت اور اسکے استعمال کا حیطہ بہت بڑھ رہا ہے الغرض یہ ہماری زندگی کے ہر پہلو پر اپنا اثر چھو ڑ رہی ہیں کالم کی طوالت کو مدَ نظر رکھتے ہوئے اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ سائنسی تحقیق کے اس میدان میں پاکستان کی حالت بہت خستہ ہے مستقبل قریب میں سپیس سائنس کی قدرو منزلت کیا ہو گی اسکا اندازہ آپ اوپر کی چند سطور کی مدد سے لگا سکتے ہیں۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود سپیس ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے اس وقت تک پاکستان خلامیں اپنی کوئی سیٹلائیٹ نہیں بھیج سکااور نہ اس قسم کی کوئی صلاحیت رکھتا ہے چین کی مدد سے سیٹلائیٹ بھیج چکا ہے حالانکہ سپیس سائنس کو چوتھا جنگی حرب مانا جاتا ہے اس ٹیکنالوجی میں کمزوری کی صورت میں کوئی بھی ملک دفاعی اعتبار سے ناقابلِ تسخیر نہیں ہو سکتا چاہے وہ زمین سے زمین تک کی ٹیکنالوجی میں جتنی چاہے ترقی کر لے۔ ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ ہمارے روائتی حریف نے ویسے تو ہر شعبے میں لیکن خاص طور اس شعبے میں ہمیں پچھاڑ کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان نے سپیس سائنس کے میدان میں 1960 اور انڈیا نے غالباً 1968 میں قدم رکھا، پاکستان نے SUPARCO (Pakistan Space and Upper atmosphere Research Commission)جو کہ برِصغیر کا پہلا خلائی تحقیق کا ریسرچ سنٹر بنا جبکہ انڈیا نے انڈین نیشنل کمیٹی برائے سپیس ریسرچ (ISRO) کا ادارہ قائم کیااور انڈیا 1980 میں ایک اپنا ایک سیٹلائیٹ خلا میں بھیج کر اس وقت کا خلا میں سےٹلائیٹ بھیجنے والا دنیا کا آٹھواں ملک بن گیا اس کے بر عکس ہمارے ریسرچ کے ادارے سپارکونے اس وقت تک کوئی قابلِ ذکر سرگرمی نہ دکھائی، اس میدان ہم شرمندگی کی حد تک پیچھے چل رہے ہیں اور انڈیا ناقابلِ بیان ترقی کی حدیں عبور کر لی ہیں، ISRO کو ڈاکٹر عبدالسلام جیسے بین الاقوامی سائنسدان کی رہنمائی بھی نہ تھی لیکن پھر اس نے پاکستان کو دہائیوں پیچھے چھوڑ دیا اس وقت ISRO اپنی 104 سیٹلائیٹس خلا بھیج کر عالمی ریکارڈ قائم کر چکا ہے۔ پاکستان میں سپیس ریسرچ کا پروگرام عالمی مایہ ناز ماہر طبیعیات ڈاکٹر عبدالسلام نے جنرل ایوب خان کو کسی طرح قائل کر کے شروع کیا اور 1960 میں سپارکو کی بنیاد رکھی گئی واضح رہے کہ یہ برصغیر میں خلائی تحقیق کا پہلا ادارہ تھا لیکن کیوں آج بھی سنگِ بنیاد سے سنگِ بنیاد پرپڑا ہے؟ پاکستان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر بین الاقوامی سائنسدان ماہر طبیعیات ڈاکٹر عبدالسلام کو SUPARCO سے الگ کر دیا گیا پھراس ادارے کو غیر ملکی سائنسدانوں( جن کا ایجنڈا پہلے کسی ملک میں پہنچتا ہے سائنسدان بعد میں ) کے رحم و کرم پہ چھوڑنا پڑا۔ ماہرِ طبیعیات ڈاکٹر عبدالسلام کو ادارہ سے نکال باہر کرنا اس ادارے کو تباہ کرنے کی پہلی کڑی تھی اس کے علاوہ سابقہ حکومتوں میں احساس ذمہ داری کا فقدان، بقدر اشکِ بلبل فنڈز کی فراہمی، ملکی انتظام و انصرام میں بے جا فوجی مداخلت، دفاع پرحد سے زیادہ توجہ، وسائل کی کمی کا راگ، سیاستدانوں کا زیادہ پڑھا لکھا نہ ہونے کی وجہ سے شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف عدم توجہی اور مفاد پرست اشرافیہ کا غیر ترقی پسندانہ رویے جیسے عناصر اس ادارے کوبھی لے ڈوبے۔ 
اب یہ ادارہ اپنے اکلوتے مشن 2040 کو ہی گلے لگائے ہوئے ہے جس میں وہ خود سیٹلائیٹ تیار کر کے خلا میں بھیجنے کی صلاحیت حاصل کر لے گا اور اس کا فیصلہ بھی آج سے تقریباً بائیس سال بعد ہی ہونا ہے کہ مشن 2040 بھی کہاں تک کامیاب ہو پایا ہے یاکامیاب ہو بھی پایا کہ نہیں۔ آپ موجودہ دور کی سائنسی ترقی کی رفتار کو ذرا دھیان میں لاتے ہوئے اندازہ لگائیں کہ بائیس سال بعد یعنی دو ہزار چالیس میں سپیس سائنس کہاں پہنچ چکی ہو گی جب پاکستان سیٹلائیٹ بنانے کے قابل ہو جائےگا تودنیا مشتری پہ کھڑے ہو کر زحل پہ کمندیں ڈال رہی ہو گی۔ جب تک پاکستان کو کرپٹ و جاہل سیاستدانوں، بد عنوان اور مفاد پرست اشرافیہ، مذہبی انتہا پسند ی اور دوسری غیر ضروری سرگرمیوں سے نجات ساتھ ہی لٹریسی ریٹ میں تسلی بخش حد تک اضافہ اور اہلِ علم کو واجب عزت و احترام نہیں ملے گا اسوقت تک پاکستان عصری تقاضوں کے مطابق سائنسی ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا تودرکنار پہلے زینے تک نہیں پہنچ پائے گا