لیکس کے پاکستان پر اثرات
اجمل کھوکھر
19 ستمبر 2007 کو روس کی ایک کمپنی پیٹر سروسز نے کچھ خفیہ دستاویزات منظرِعام پر لے آ ئی جن کو ایک خفیہ ایجنسی سے لیا گیا اس ایجنسی کا نام وکی لیکس تھا یہ ایک چھوٹا سا غیر منافع بخش ادارہ ہے جو اس قسم کی خفیہ معلومات اور دستاویزات شائع کرتا ہے، وکی لیکس نے ڈھائی لاکھ خفیہ دستاویزات میں دنیا کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے بارے میں طاقت اور اقتدار پر قابض ہونے اور اپنے اختیارات کے غلط اور بے جا استعمال کے بارے میں انکشافات کئے گئے تھے۔ ان انکشافات نے بہت سے سیاستدانوں اور اعلیٰ عہدہ داروں کے چہروں سے مکھوٹے (ماسک )اتار پھینکے۔ عالمی طاقتوں نے اس ادارے پر بہت دباﺅ ڈالا کہ وہ ان لیکس کو روکے لیکن وہ اس دباﺅ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خفیہ دستاویزات کو دنیا کے سامنے لاتا رہا۔ آخرکا رامریکہ نے ایمیزون کمپنی سےکہ کر ان کی انٹرنیٹ سروس معطل کرادی۔
وکی لیکس میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت پر عدم تحفظ، پاکستان کا بہت زیادہ مقدار میں اسلحہ بنانا، طالبان کے پاکستان پر مسلط ہونے کے امکان، چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی کا نواز و زرداری پر عدم اعتماداور اسفند یار ولی کو عہدہ صدارت پہ بیٹھانا، افغانستان کے متعلق پاکستان کی پالیسی، شہباز شریف کے جماعت الدعوة سے مراسم، ڈاکٹر عبدالقدیر کیس، پاکستان کی امریکہ سے درخواست کہ وہ ہماری فرنٹیئر فورس کی مدد کرے، زرداری کا صدر بننے پر امریکہ کا شکر بجا لانا، پشتون بیلٹ کی پاکستان سے علیحدگی کی تحریک و سازش وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پاکستان میں یہ روایت ہے کہ جب کوئی معاملہ کسی کے خلاف ہو اسے پروپیگنڈا/سازش قرار دے دیا جاتا ہے وکی لیکس کے پاکستان سے متعلقہ انکشافات کو بھی حسبِ روایت پروپیگنڈا ہی قرار دے دیا گیا، پرنٹ میڈیا اور خاص طور پر الیکٹرنک میڈیا کی خصوصی معاونت سے ان حقائق کو پروپیگنڈا ثابت کر دیاگیا۔
انار چارسیس ((Anarcharsisکے قول” قانون مکڑی کے جالے کی مانند ہوتے ہیں صرف کمزور ہی ا س کی جکڑ میں آتے ہیں“ کی سو فیصد عملی شکل پاکستان میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ پاکستانی عوام جو کہ پہلے ہی سیاستدانوں اور اعلیٰ منتظمین کی عدم تحفظ، کرپشن، بد انصرامی، بد انتظامی، بد عنوانی، کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری، بجلی کا بحران، وڈیرہ شاہی، افسر شاہی، لا قانونیت اور عدم مساوات جیسی زیادتیوں کو پہلے سے ہی برداشت کر رہے تھے، ان کو زندگی کی بقاءکی جنگ میں اسقدرالجھا دیا گیا کہ ان سب انکشافات پر پاکستانی عوام کی طرف سے کوئی خاص ردِ عمل سامنے نہیں آ ےا اگر کوئی ردِعمل سامنے آئے بھی تو کس فورم پر ایسے ہائی پروفائل اور با اثر افراد کےخلاف عام آدمی کی آواز سنی جاتی ہے؟
لیکن پچھلے چند سالوں سے سوشل میڈیا عوام میں روشنی کی کرن بن کر آیا سوشل میڈیا نے عوام میں شعور و آگہی کی بھنک ڈال دی ہے، اس نے عوام کو اپنے حقوق اور حکومت جو کہ ملکی انتظام چلانے والا ادارہ ہوتا ہے اس کے فرائض سے آگاہ کیا ہے اس کے منفی پہلو اپنی جگہ جو کہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن شعورو آگاہی کے پھیلاﺅ میں تو اس نے جنگل میں آگ کا کام دیا۔ پاکستانی قوم کی زندگی میں ایک رمق سی پیدا ہوتے ہی جیسے خدائی امداد پچھلے سال 3 اپریل 2016 کو پانامہ پیپرز کیصورت میں آ گئی اس آتش فشاں کے پھٹنے سے تو دنیا لرز کر رہ گئی، کئی اعلیٰ عہدہ داروں کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا بہت سوﺅ ں کو ناک رگڑ کر معا فیاں مانگنی پڑیں، پاناما پیپرز نا معلوم ذرائع سے ایک جرمن اخبار کو موصول ہوئے اس میں موجود ڈیٹا ای میل، پاسپورٹ، سپریڈ شیٹس اور دستا ویزات کی شکل میں ہے۔ جرمن اخبار نے آئی سی آئی جے (انٹر نیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلسٹس ) کے ساتھ مل کر جاری کئے، پانامہ پیپرز ساڑ ھے گیارہ (11۔ 5)مِلین دستاویزات پر مشتمل ہیں جن 214، 000 آف شور کمپنیوں کے مالکان اور شیئر ہولڈرز کی مکمل وضاحت کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ آف شور کمپنی بنانا غیر قانونی نہیں لیکن غیر اخلاقی عمل ہے جسکا وسیع تر استعمال ٹیکس چھپانے کے علاوہ کالا دھن سفید کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کے دو سو پچاس (250)انتہائی با اثر افراد کے نام شامل ہیں ان میں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم نواز شریف، اس کے تین بچے( مریم نواز، حسن اور حسین نواز)، سینیٹر رحمان ملک، سینیٹر عثمان سیف اللہ اور اس کے عزیز و اقارب، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کا حج سکینڈل ان کے علاوہ دو سو اعلیٰ شخصیات کے نام سرِ فہرست ہیں۔ اکثر پاکستانی عوام یہ حقائق پہلے سے ہی جانتے تھے کہ ہمارے حکمران چور لٹیرے ہیں وہ ہمارے ملک کے وفا دار نہیں بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تھوڑی بدلی ہوئی شکل ہیں ان کی مال و دولت، گھربار اور کاروبار بیرون ملک میں ہیں، عوام و ملک کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ وہ دن رات اپنی جائیدادیں بنانے اور بڑھانے اور سرمایہ بیرونِ ملک بھیجنے کے لئے پالیسیاں بنا تے اور خود کو قانون سے ماراءرکھنے کے لئے ہی قانون سازی کرتے رہتے ہیں۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ معمولی سی حیثیت رکھتے ہیں لیکن سیاست میں آکر چند ہی سالوں میں کھرب پتی بن جاتے ہیں۔ عوام کو کوئی ایسا سر کردہ نہیں ملا جس کی رہنمائی میں ان چور لٹیروں کو کیفرِ کردار تک پہینچایا جائے، کوئی ایسا فورم نہیں ہے جو ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جاسکے۔ سب اداروں کو انہوں نے محکوم بنا رکھا ہے۔ ان کے خلاف اٹھنے والی آواز ہمیشہ کے لئے دبا دی جاتی ہے۔ اپنے خلاف اٹھنے والی بڑی لہر سے بچاﺅ کےلئے اتحاد و اتفاق کر لےتے ہیں کیونکہ ملکی وسائل کو ہڑپ کرنا ان کا مشترکہ ایجنڈا ہے صرف الیکشن کی مہم کے دوران ہی سادہ عوام کو بےوقوف بنانے کے لئے ایک دوسرے پر ہوائی فائر کرتے ہیں۔
لیکن اس بار پانامہ پیپرز میں کئے گئے انکشافات پر عوام کھل کر باہر آئے، حکومت اور متعلقہ احتسابی اداروں سے شفاف تحقیقات کا بھر پو مطالبہ کیا، عمران خان نے بھی اس تحقیقاتی عمل میں تحقیقاتی اداروں دباﺅ بنائے رکھااور احتسابی اداروں نے ملکر نواز شریف اور اس کے ساتھی جو کہ کھربوں کی کرپشن میں ملوث تھے ان کو انجام تک پہنچا یا۔ واضح رہے کہ عمران خان خود بھی احتساب عمل میں سے گزر رہا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک تحقیقات کا عمل جاری و ساری ہے۔ پانامہ پیپرز کے انکشاف ہی کی بدولت نواز شریف نا ایل ہوئے اور کئی دوسرے ابھی تک احتسابی عمل میں سے گزر رہے ہیں اور باری باری سب کو اپنے کیے کا انجام بھگتنا ہو گا۔ پاکستانی عوام ابھی پانامہ لیکس کے باعث کرپٹ لوگوں کے جکڑے جانے کی خوشیاں منا ہی رہی تھی کہ آئی سی آئی جے (انٹر نےشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلسٹس ) نے پیراڈائیزلیکس (Paradise Leaks) کے نام سے ایک اور لیکس جاری کی یہ سنگا پور اور برمودہ کی دو کمپنیوں سے حاصل کی گئیں دستاویزات ہیں ان میں 1950 سے لے کر 2016 تک کا ڈیٹا شامل ہے۔ پیراڈائیز لیکس کے انکشافات نے بھی پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا دنیا بھرکے حکمرانوں، سیاسی، کاروباری اور اہم شخصیات کے نام سامنے آنے کے بعد عوام کو حکمرانوں کی اصلیت کا پتہ چل گیا کہ یہ لوگ ہمارے خیرخواہ نہیں بلکہ استحصال کر کے موجودہ مقام تک پہنچے ہیں۔ پیرا ڈائیز لیکس میں ہمارے سابق امپورٹد وزیرِ اعظم شوکت عزیز سمیت 135 پاکستانیوں کے نام شامل ہیں دیگر پاکستانیوں میں این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی، صدرالدین ہاشوانی، میاں محمد منشا، ڈی ٹی ایچ کی کامیاب بولی دینے والے ظہیرالدین اور سو نیری بنک کے مالک نورالدین کا نام سر فہرست ہے۔ فیڈرل بورڈ آف رےوینیو (FBR)نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پیرا ڈائیز لیکس میں جسکا بھی نام آئے گا اس کے خلاف شفاف تحقیقات ہوںگی۔ احتسابی اداروں سے عوام کا ایک بار بھر پور مطالبہ ہے ان لوگوں کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے اور مجرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں تا کہ آنے والے وقتوں میں پاکستان اس قسم کے ناسوروں سے پاک ہو سکے۔