Karachi Ki Abhi Bohat Barsaton Ki Zaroorat Hai - Nusrat Javeed


کراچی کو ابھی بہت ”برساتوں“ کی ضرورت ہے 
نصرت جاوید 

گزشتہ بدھ کی دوپہر سے ٹی وی چینلوں پر مسلسل جاری ایک تماشہ اتوار کی شب تک خوب رونق لگائے ہوئے تھا۔ شاید مزید چند روز بھی چلتا رہے۔ مرکزی کردار اس تماشے کے بہت ہی جذباتی دِکھتے فاروق ستار اور مصطفےٰ کمال ہیں۔ وہ دونوں ایم کیو ایم (پاکستان) اور پاک سرزمین پارٹی کے نام سے چلائی دو جماعتوں کے سربراہ ہونے کے دعوے دار بھی ہیں۔ 
ان دونوں جماعتوں میں نمایاں مہروں اور پیادوں کو ایک زمانے تک صرف ایک شخص چلایا کرتا تھا۔ کئی برسوں سے مگر اب وہ لندن میں مقیم ہے اور ہر عروج کو زوال کی طرف جانا ہی ہوتا ہے۔ لندن میں بیٹھا ”بھائی“ بھی بالآخر اپنی قوت کھو بیٹھا۔ مہرے اور پیادے مگر بساط پر موجود رہے۔ انہیں چلانے کیلئے کسی مہا شاطر کی ضرورت بھی اپنی جگہ موجود رہی۔ ”سیف ہاﺅسز“ میں بیٹھ کر کاروبار ریاست چلانے والے لہذا متحرک ہوئے۔ مہروں اور پیادوں کو حکم ملا کہ ”مہاجر- مہاجر“ کی تکرار اب نہیں چلے گی۔ ”پاکستانی“ بن جاﺅ۔ سیاست تمہیں اس ملک میں کرنا ہے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) اور پی ایس پی میں بٹے رہے تو 2018ء میں متوقع انتخابات کے بعد ”سب پہ بھاری“ کے قبضے میں آئی جماعت کم از کم سندھ میں دوبارہ حکومت بنالے گی۔ 
بھٹو کی بنائی اس جماعت سے ”بھائی“ لوگوں کا جھگڑا بہت پرانا ہے۔ 1972 میں اس کے لگائے ممتاز بھٹو نے لسانی بل متعارف کروایا تو فسادات پھوٹ پڑے۔ بعدازاں کوٹہ سسٹم آگیا۔ سندھ”اربن“ اور ”رورل“ میں بٹ گیا۔ اس صوبے کو دوبارہ صرف سندھ بنانے کو اب کوئی تیار نہیں۔ اسلام کے نام پر بنائی مملکتِ خداداد کا ایک صوبہ جہاں رعایا نہیں ”شہری“ بستے ہیں۔ اپنے حقوق کے طلب گار اور فرائض کو پہچاننے والے ”شہری“ جو صرف میرٹ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے مقابلہ کریں۔ اپنی شکایات کے اظہار کے لئے منتخب اداروں کے پلیٹ فارم استعمال کریں۔ آئین اور قانون کے دئیے ضابطوں کے مطابق سیاست کریں۔ 
”سیف ہاﺅسز“ میں تیار کئے منصوبوں اور نسخوں سے سیاست ہرگز نہیں چلائی جا سکتی۔ Top Down والی تبدیلی دنیا میں کبھی وقتی طورپر نظر آئی بھی تو ثبات اسے نصیب نہیں ہوا۔ ریاستی طاقت کی بنیاد پر اپنے شہریوں کو جدید وخوش حال بنانے والے نسخے کارآمد ہوتے تو ایران میں خمینی کا انقلاب کبھی نہ آتا۔ ترکی میں ”سلطان اردوان“ کی گنجائش ہی پیدا نہ ہوتی۔ صدام حسین اور کرنل قدافی عبرت ناک انجام کا شکار نہ ہوتے۔ 
علم کو مومن کی میراث کہا گیا ہے اور حکم یہ بھی ہے کہ اسے حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے۔ ابنِ خلدون تو اپنی امتِ مسلمہ کا ہے۔ تاریخ کو علم کا درجہ صرف اس نے اپنی تحقیق کے ذریعے دیا۔ سماجی حرکیات کو اس نے حیران کن انداز میں دریافت کیا تھا۔ اثر اس کی دریافت کا اتنا بھرپور تھا کہ کمیونزم کا بانی کارل مارکس جسے ہمارے اقبال نے پیغمبر نہیں مگر ”کتاب والا“ کہا تھا، اپنی موت سے پہلے عربی زبان سیکھنے کو بے تاب تھا تاکہ ابنّ خلدون کی تعلیمات کو پوری طرح سمجھ سکے۔ 
ابنِ خلدون نے ”عصبیہ“ کی ترکیب ایجاد کی تھی۔ ہم بدنصیبوں نے اسے ”تعصب“ کا مترادف گردانا۔ کھلے ذہن سے تحقیق کے عادی مہربانوں نے اس کی بدولت مگر Identity Politics کو تلاش کیا ہے۔ شناخت کی بنیاد پر سیاست یا ”شناختی سیاست“ شاید اس کا مناسب ترجمہ ہو۔ لسانیات مگر میرا شعبہ نہیں۔ مہارت بلکہ کسی ہنر میں بھی نہیں۔ 
”سیف ہاﺅسز“ میں بیٹھ کر حکم چلانے والے اپنے ”مائی باپ“ طاقت وروں سے ہاتھ باندھ کر جان کی امان پاتے ہوئے فریاد ہے کہ ذرا ٹھنڈے دل سے آج کی دنیا پر نظر ڈالیں اور دریافت کریں کہ ”شناخت“ کی تڑپ نے ہر جگہ کیا ہیجان برپا کر رکھا ہے۔ 
انگلستان دنیا سے کٹا ہوا ایک جزیرہ تھا۔ سمندروں کے تلاطم کو زیرکرنے والے بحری جہاز ایجاد ہوئے تو اس جزیرے کے باسیوں نے ایک ایمپائر کھڑی کر دی۔ اس ایمپائر کے زیر نگین خطوں میں سورج کبھی غروب ہی نہیں ہوتا تھا۔ تقریباََ پوری دنیا پر راج کرنے والی یہ ایمپائر مگر اب Brexit کہتے ہوئے دوبارہ اپنے ماخذ جزیرے میں سکڑگئی ہے۔ یورپی یونین سے الگ ہوکر Anglo-Saxon شناخت کی بحالی کو بے چین ہے۔ میئر اس کے دارالحکومت لندن کا مگر ایک پاکستانی نژاد ہے۔ دنیا بھر سے آئے تارکینِ وطن کو یورپی یونین سے الگ ہوکر بھی برطانیہ اپنے ہاں رکھنے کو مجبور ہے۔ وہ راہ مگر نظر نہیں آرہی جہاں لندن کا میئر منتخب ہوا صادق اور Brexit کی آگ بھڑکانے والا جانسن جو ان دنوں برطانیہ کا وزیر خارجہ بھی ہے اپنی شناخت صرف برطانیہ ہی کو بنائیں۔ Anglo-Saxon سانچوں سے ماورا ایک طرز نوع والا برطانیہ۔ 
تلاش مگر جاری ہے اور ہیجان اپنی جگہ برقرار۔ وہاں کے ”سیف ہاﺅسز“ میں لیکن اس ہیجان وخلفشار سے نجات کے نسخے تیار نہیں کئے جارہے۔ برصغیر پاک وہند سے جنوبی افریقہ تک تقریباََ دو صدیوں تک راج کرنے والا برطانیہ بھی ایک جزیرے میں سکڑ کر اپنی سیاست میں تلاطم کو ختم نہیں کر پارہا ہے۔ اس تلاطم کو مگر اک روز تھم کے رہنا ہے۔ انتظار البتہ ضروری ہے۔ زور زبردستی کی گنجائش نہیں۔ 
ہم سب کو بہت ہی عزیز روشنیوں کا شہر کراچی بھی کم از کم 1980 کی دہائی سے مسلسل ہیجان کا شکار رہا ہے۔ بھتہ خوری، بوری بند لاشیں، لسانی فسادات۔ Turf کے خوں آلود جھگڑے۔ ریاستِ پاکستان نے مگر یکسو ہوکر اپنی طاقت کا بالآخر مناسب حد تک Regulated انداز میں استعمال کیا تو امن بحال ہوا۔ اس امن کی پائیداری کو یقینی بنائیں۔ سیاست کو شاطروں، مہروں اور پیادوں ہی کا دھندا رہنے دیں۔ خیر کے راستے نکل ہی آئیں گے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) اور پی ایس پی میں ریاستی طاقت کے بل بوتے پر وہ ملاپ کروانے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں تھی جسے انگریزی میں Forced Marriage کہا جاتا ہے۔ 
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد فیض احمد فیض کو ذوالفقار علی بھٹو اپنے ہمراہ بنگلہ دیش لے گئے تھے۔ وہاں سے لوٹنے کے بعد گداز کے مارے شاعر نے بے بسی سے سوال کیاتھا: ”خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟“ کراچی کو ابھی بہت برساتوں کی ضرورت ہے۔ مصطفےٰ کمال بہت دیندار ہوگا۔ وطن کی محبت میں دیوانگی کی حد تک مبتلا ہوگا۔ انسانیت سے عشق کرنا سیکھ گیا ہوگا۔ وہ امن کا یقینا متلاشی ہوگا۔ صاف، ستھرا اور نیک پاک بھی ہوگا۔ اسے مگر اس کمیونٹی (برادری) پر زور زبردستی مسلط تو نہ کیجئے جسے کئی برسوں سے مسلسل شناخت کے بحران کا سامنا ہے۔ 
گولیمار، لالوکھیت، شومارکیٹ، رنچھوڑ لین، گاندھی گارڈن، عزیز آباد، الاعظم اور حسن اسکوائر محض علاقے نہیں۔ شناخت کے قضیے سے جڑے چند ہیجان زدہ مظاہر بھی ہیں۔ ان سوالات کے جواب ”سیف ہاﺅسز“ میں بنی کسی Lab میں تیار شدہ نسخے کے ذریعے فراہم نہیں کئے جا سکتے۔ جس کی ایک پُڑیالو اور شفا پاجاﺅ۔ Top Down اور Push Button سیاست نام کی چیز دنیا کے کسی خطے میں کبھی کارآمد ثابت نہیں ہوئی۔ یہ کراچی ہی نہیں پاکستان میں بھی چل نہیں پائے گی۔ دریا کو بہنے دو۔ یہ اپنے راستے خود بنالے گا۔ امن وامان کا تحفظ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ کراچی میں یہ ذمہ داری ہمارے ریاستی ادارے خوب نبھا رہے ہیں۔ اس بنیادی فرض تک محدود رہنے ہی میں حرج کیا ہے؟