دینا جناح ایونیو
جاوید چوہدری
ہم کہانی کو مزید آگے بڑھاتے ہیں‘ دینا واڈیا کے دو صاحبزادے ہیں‘ نوسلی واڈیا اور جمشید واڈیا‘ نوسلی واڈیا خاندان کے بنیادی بزنس بمبئے ڈائینگ کے چیئرمین ہیں‘ یہ بھارت کے کامیاب ترین‘ امیر ترین اور بااثر ترین بزنس مین بھی ہیں‘ ان کے والدین میں 1943ء میں طلاق ہو گئی‘ نوسلی والدہ کے ساتھ رہے لیکن یہ اس قدر ٹیلنٹڈ تھے کہ خاندان انھیں گروپ کا چیئرمین بنانے پر مجبور ہو گیا‘ نوسلی واڈیا نے ایک ائیر ہوسٹس ماروین سے شادی کی‘ ماروین واڈیا گروپ کے فیشن میگزین کی ایڈیٹر بھی ہیں اور بھارت میں مس انڈیا کے مقابلے کی روح رواں بھی‘ نوسلی واڈیا کے دو صاحبزادے ہیں‘ نیس واڈیا اور جہانگیر واڈیا‘ نیس واڈیا بڑے ہیں‘ یہ 1972ء میں پیدا ہوئے‘ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ یہ بمبئے برما ٹریڈنگ کارپوریشن کے سی ای او اور بمبئے ڈائینگ کے جوائنٹ مینجنگ ڈائریکٹر ہیں۔
یہ کاروبار میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں چنانچہ والد نے انھیں مرکزی کاروبار میں شامل نہیں کیا‘ یہ بھارتی اداکارہ پریتی زنٹا کی زلفوں کے اسیر بھی رہے‘ یہ دونوں 2005ء سے 2009ء تک ریلیشن شپ میں رہے لیکن یہ دونوں اس وقت ایک دوسرے کو ناپسند کرتے ہیں‘ پریتی زنٹا نے ان کے خلاف ایف آئی آر تک لانچ کرا دی ‘ نیس واڈیا نے 79 ملین ڈالر کی مالیت سے انڈین پریمیئر لیگ کی ایک ٹیم بھی خریدی‘ یہ ٹیم کنگز الیون پنجاب کہلاتی ہے‘ نوسلی واڈیا کے دوسرے صاحبزادے کا نام جہانگیر واڈیا ہے‘ یہ نیس واڈیا سے ایک سال چھوٹے ہیں‘ یہ اصلی کاروباری شخصیت ہیں‘ یہ واڈیا فیملی کی مدر کمپنی بمبئے ڈائینگ کے سربراہ بھی ہیں اور یہ ’’گو ائیر‘‘ کے نام سے بھارت میں ائیر لائین بھی چلا رہے ہیں۔
ان کی بیگم سلینا آسٹریلین ہیں‘ نوسلی واڈیا نے اپنا سارا کاروبار جہانگیر واڈیا پر چھوڑ رکھا ہے‘ یہ کاروبار بھی چلا رہے ہیں اور خاندان کو بھی‘ ان کے دو بچے ہیں۔ دینا واڈیا کے دوسرے صاحبزادے کا نام جمشید واڈیا ہے‘ یہ نوسلی واڈیا کے چھوٹے بھائی ہیں‘ یہ جم واڈیا کہلاتے ہیں‘ یہ خاندان میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے‘ ذہین اور کامیاب شخص ہیں لیکن واڈیا فیملی انھیں ’’اون‘‘ نہیں کرتی‘ یہ واڈیا گروپ کے کسی پروفائل میں بھی شامل نہیں ہیں‘ آپ کو ان کے بارے میں معلومات نہیں ملتیں‘ خاندان بھی ان پر بات نہیں کرتا‘ یہ امریکا اور سوئٹزر لینڈ میں رہتے ہیں۔
یہ دنیا کی نامور کنسلٹنگ فرم آرتھر اینڈرسن کے دو بار ’’سی ای او‘‘ رہے‘ یہ 49 سال کی عمر میں فرم کے ’’سی ای او‘‘ بنے اور یہ فرم کی ہسٹری میں ریکارڈ تھا‘ یہ 2000ء میں دنیا کے 25 بڑے کنسلٹنٹس کی فہرست میں بھی شامل ہوئے‘ جم واڈیا نے 2000ء میں آرتھر اینڈرسن سے استعفیٰ دے دیا‘ یہ استعفیٰ دنیا بھر کے میڈیا کی خبر بنا‘ یہ بعد ازاں دوبارہ فرم کے سی ای او بن گئے لیکن یہ اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود واڈیا فیملی سے دور ہیں‘ دینا واڈیا بھی زندگی بھر اپنے دوسرے بیٹے سے فاصلے پر رہیں‘ یہ واڈیا فیملی کے کسی بزنس میں بھی شریک نہیں ہیں چنانچہ یہ ایک گم نام زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ کہانی تین محبتوں کی ادھوری کہانی بھی ہے‘ پہلی کہانی میاں بیوی کی محبت پر مشتمل تھی‘ یہ قائداعظم محمد علی جناح اور رتی بائی پٹیٹ (مریم جناح) کی محبت تھی‘ رتی بائی کا پورا نام رتن بائی تھا‘ وہ یہ نام اپنے نانا رتن ٹاٹا سے لے کر آئی تھیں‘ وہ انتہائی حسین‘ پڑھی لکھی اور ذوق جمال سے مالا مال خاتون تھیں‘ ان کی پوری زندگی تین حصوں میں بٹی رہی‘ وہ نسلاً پارسی تھیں‘ وہ اٹھارہ سال پارسی اور 11 سال مسلمان رہیں‘ مذہب کی اس تقسیم نے ان کے وجود کو تقسیم کر دیا‘ دوسری تقسیم خاندان سے جدائی تھی‘ وہ والدین کی لاڈلی بیٹی تھی‘ والد ڈنشا پٹیٹ ان کے بغیر رہ سکتے تھے اور نہ وہ ان کے بغیر لیکن والدین نے شادی کے بعد انھیں عاق کر دیا‘ والد سے جدائی نے بھی انھیں اندر سے زخمی کر دیا اور ان کی زندگی کی تیسری تقسیم قائداعظم محمد علی جناح تھے‘ وہ سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک قائد کی محبت میں گرفتار تھیں‘ دونوں میں عمر کا فرق تھا۔
قائداعظم شادی کے وقت 42 سال کے میچور مرد تھے جب کہ وہ 18 سال کی شوخ نوجوان لڑکی۔ قائداعظم کا وژن کلیئر تھا‘ وہ پاکستان بنانا چاہتے تھے‘ وہ اس سلسلے میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے‘ قائد ایک انتہائی مصروف شخص بھی تھے چنانچہ وہ انھیں زیادہ وقت نہ دے سکے‘ وقت کی اس کمی نے مریم جناح کو بیمار کر دیا اور یہ بیماری انھیں 29 سال میں دنیا سے لے گئی‘ قائداعظم کو لوگوں نے زندگی میں صرف ایک بار روتے دیکھا اور وہ مریم جناح کے انتقال کا موقع تھا‘ محبت کی یہ ادھوری کہانی خوفناک ٹریجڈی تھی‘ ہم پاکستان میں آج تک اس ٹریجڈی کو پینٹ نہیں کر سکے‘ اس پر کتابیں لکھی گئیں اور نہ ہی فلمیں بنیں چنانچہ قائد کی زندگی کا یہ پہلو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا‘ محبت کی دوسری کہانی بیٹی کی باپ اور باپ کی بیٹی سے محبت تھی‘ دینا جناح اداسی‘ تنہائی اور والدین کی کشمکش میں پروان چڑھیں‘ وہ بچپن سے جوانی تک ماں‘ باپ‘ نانی اور پھوپھی کے درمیان گیند بنی رہیں‘ ماں سے والد کے پاس آئیں‘ والد سے پھوپھی کی نگرانی میں آئیں اور پھوپھی سے نانی کے پاس آتی جاتی رہیں۔
یہ آمدورفت انھیں سب سے دور لے گئی‘ وہ کسی کے ساتھ ’’اٹیچ‘‘ نہ رہ سکیں‘ شادی کی‘ والد سے لاتعلقی ہو گئی‘ پانچ سال بعد شادی بھی ختم ہو گئی‘ وہ 1938ء کے بعد کبھی اپنے والد سے نہیں ملیں لیکن اس دوری کے باوجود دونوں کو ایک دوسرے سے شدید محبت تھی‘ قائداعظم ممبئی سے شفٹ ہوتے وقت ہر وہ چیز پاکستان لے کر آئے جو انھوں نے دینا جناح کی خواہش پر خریدی تھی‘ قائد نے وہ تمام اشیاء اپنی ذاتی رہائش گاہ فلیگ اسٹاف ہاؤس اور گورنر جنرل ہاؤس میں سجا دیں‘ دینا جناح 2004ء میں پاکستان آئیں تو وہ فلیگ اسٹاف ہاؤس اور گورنر جنرل ہاؤس کراچی گئیں ‘ وہ یہ تمام اشیاء دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں‘ وہ بار بار ان اشیاء کو چھوتی تھیں اور اسٹاف کو ان کی بیک گراؤنڈ بتاتی تھیں‘ وہ ہر ایک چیز کو چھو کر ’’مائی فادر‘‘ بھی کہتی تھیں اور آنکھیں بھی پونچھتی تھیں‘ وہ خود بھی انتقال تک والد کی محبت میں گندھی رہیں‘ دینا واڈیا نے پوری زندگی کوئی سیاسی انٹرویو دیا‘ کسی اخبار میں لکھا اور نہ ہی وہ کبھی پبلک میں گئیں‘ قائداعظم کی بیٹی 80 سال کیوں گوشہ نشین رہیں؟ وہ دراصل بیان یا انٹرویو دے کر والد کی روح کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں‘ وہ ان کے کاز کو دھچکا بھی نہیں پہنچانا چاہتی تھیں‘ وہ اپنے والد کے ملک میں صرف تین بار تشریف لائیں۔
وہ والد کی وراثت سے بھی محروم رہیں‘ کیوں؟ وہ سمجھتی تھیں وہ پارسی مذہب میں چلی گئی ہیں اور یہ اسلام کے شعائر کے خلاف ہے چنانچہ وہ پاکستان تشریف لا کر اپنے والد کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتی تھیں‘ وہ نہیں چاہتی تھیں کوئی ان کی وجہ سے ان کے والد پر انگلی اٹھائے‘ وہ پارسیوں کے مذہبی اجتماعات میں بھی نہیں جاتی تھیں اور وہ بھارت اور پاکستان سے دور اپنا زیادہ تر وقت نیویارک میں گزارتی تھیں چنانچہ یہ باپ کی بیٹی اور بیٹی کی باپ سے محبت کی ایک انوکھی داستان بھی تھی‘ دونوں زندگی کی آخری سانس تک ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے رہے‘ دونوں ایک دوسرے پر قربان ہوتے رہے اور یہ ایک بیٹے کی اپنی ماں سے ان تھک محبت کی داستان بھی ہے۔
نوسلی واڈیا کے والدین میں طلاق ہو گئی ‘ نوسلی نے ارب پتی باپ کے بجائے ماں کا انتخاب کیا‘ یہ 77 سال اپنی والدہ کے ساتھ رہے‘ ان 77 برسوں میں کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرا جب نوسلی اپنی ماں سے رابطے میں نہ رہے ہوں‘ یہ روز والدہ کو ملتے تھے‘ یہ اگر دور ہوں تو یہ والدہ کو فون ضرور کرتے تھے‘ یہ ہر جگہ والدہ کے ساتھ جاتے تھے‘ یہ انھیں جوتے بھی پہناتے تھے اورانھیں ہاتھ سے کھانا بھی کھلاتے تھے ‘ یہ انھیں آخری دن تک ڈاکٹر کے پاس بھی لے کر جاتے تھے اور والدہ نیویارک جاتی تھیں تو نوسلی ساتھ جاتے تھے‘ وہ ممبئی آ جاتی تھیں تو وہ ساتھ واپس آتے تھے‘ واڈیا فیملی میں آج تک کسی نے اپنی ماں کی اتنی خدمت نہیں کی‘ نوسلی واڈیا نے یہ ریکارڈ بھی قائم کر دیا۔
یہ کہانی اب چوتھی محبت کی منتظر ہے‘ ہم پاکستانی اپنے قائد سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے محبت کرتے ہیں‘ ہم قائد کی تصویر والے نوٹ کی بے حرمتی بھی برداشت نہیں کرتے‘ قائد سے اس محبت کا تقاضا ہے ہماری حکومت دینا واڈیا کو سرکاری سطح پر دینا جناح ڈکلیئر کرے‘ مزار قائد پر ان کی قبر بنائے‘ نیویارک سے ان کی باقیات پاکستان لائے اور انھیں قائداعظم کے پہلو میں دفن کر دے‘ اگر دینا جناح کی باقیات لانا ممکن نہ ہو تو ہم مزار قائد پر قائداعظم کی بیٹی کی علامتی قبر بھی بنا سکتے ہیں‘ اگر قونیہ میں مولانا رومؒ کے مزار کے سائے میں علامہ اقبال کی علامتی قبر بن سکتی ہے تو ہم کراچی میں دینا جناح کی علامتی قبر کیوں نہیں بنا سکتے‘ ہم کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کی تین سڑکیں بھی دینا جناح کے نام منسوب کرسکتے ہیں‘ میں ملک ریاض سے بھی درخواست کروں گا‘ یہ بحریہ ٹاؤن کراچی کا ایک بلاک قائداعظم کی صاحبزادی کے نام سے منسوب کر دیں یا کراچی میں ان کے نام سے کوئی سینٹر بنا دیں‘ دینا جناح سے محبت ہم پر قرض ہے‘ ہمیں یہ قرض بہرحال ادا کرنا چاہیے‘ ہمیں مذہب سے بالاتر ہو کر اپنے قائد کا بھرم رکھنا چاہیے۔