Diary Ka Aik Safha - Ali Mehmood


ڈائری کا ایک صفحہ 
علی محمود 

آج مجھے گھر سے دور آئے ہوئے ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ وقت بے لگام گھوڑے کی طرح بے سمت دوڑے جا رہا ہے بلکہ بے سمت نہیں اس کی سمت تو متعین ہے اس کی سمت کا تعین تو اس دن سے ہویا ہوا ہے جس دن میں دنیا میں آیا تھا۔ ہر انسان کی حتمی منزل تو ایک ہی ہے اور زندگی کا بے لگام گھوڑا اسی منزل کی طرف دوڑے جا رہا ہے۔ لیکن ان دنوں اس کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے اتنا اضافہ کہ خود سے ملاقات کئے ہوئے، خود کی بات سنے ہوئے، خود کو خود کی بات سناتے ہوئے ہفتے گزر جاتے ہیں دل کا بوجھ بڑھتے بڑھتے بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ انسان دنیا کے لوگوں سے ملے یا نہ ملےان سے بات کرے یا نہ کرے مگر خود کلامی کرتے رہنا چاہیے کیونکہ خود کو خود کا دکھ سمجھنے میں نہ دیر لگتی ہے نہ ہی خود کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے خود سے جی بھر کر بات بھی کی جا سکتی ہے بنا اس خوف کے کہ کوئی آپ کی بات کاٹے گا یا کوئی آپ کی بات سنتے ہوئے بیزاری کا تاثر دے گا۔ اپنے سامنے روتے ہوئے بھی رسوائی نہیں ہوتی انسان جی بھر کر اپنا سر اپنے کندھوں پر رکھ کر روتا جاتا ہے ورنہ دنیا کے سامنے تو آنکھ بھر آنا شرمندگی میں ڈال دیتا ہے۔ وقت کی رفتار نے اردگرد کے مناظر سے بھی بیگانہ کر دیا ہے۔ کتنے ہی دن گزر جاتے ہیں اپنے اردگرد کی چیزوں کو غور سے دیکھے ہوئے۔ جس طرح بلٹ ٹرین کے اردگرد پھیلے مناظر گزرتے جاتے ہیں بنا دیکھے بنا غور کئے۔ ٹرین کی تیزی کی وجہ سے دیکھنا اور غور کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ بچپن میں ریت پر کھیلا کرتے تھے اسی وقت یہ تجربہ بھی کیا تھا ریت سے بھری بند مٹھی کو جتنا مضبوطی سے تھامنے کی کوشش کرو، ریت اتنی ہی تیزی کے ساتھ ہاتھوں سے سرکتی جاتی ہے بالکل زندگی کی طرح اس سے جتنی بھی محبت کر لو جتنی محنت کر لو اس کو خوبصورت بنانے کی بار حال یہ ہاتھوں سے سرکتی رہتی ہے۔ انسان وقت اور حالات کی چکی میں پستے پستے ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ مادہ پرستی نے اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ نہ تو اردگرد کے لوگ دکھائی دیتے ہیں نہ ہی ان کے جذبوں کو محسوس کیا جاتا ہے۔ ہم نے زندگی کو خود کتنا مشکل بنا لیا ہے دنیا کے متعین کئے ہوئے اصولوں کی غلام گردش نے خود سے ہی بیگانہ کر دیا ہے۔ خوشی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہم خوشی سے کتنے دور نکل آئے ہیں۔ جوچیز ہمارے اندر موجود ہے اس کو کہا ں کہاں تلاش نہیں کیا جاتا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں آج کے دور کا ہر انسان طوائف بن کر رہ گیا ہے اپنی عزت اپنی خوداری حتی کہ اپنا آپ چند ٹکوں کے عوض بیچتا رہتا ہے۔ ضرورتوں کی سولی پر لٹکا پل پل مرتا رہتا ہے۔ اور کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم سب منٹو کے اس معاشرے کا حصہ ہیں جس کی چولی ہے ہی ننگی۔ ہم سب غلام ابن غلام ابن غلام ہیں۔ اور غلام بھی اپنی ذات کے ہیں اپنی خواہشات کے ہیں جو کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ پاکستان میں اکثر صبح جلدی اٹھ جایا کرتا تھا امی کو میں نے کبھی دیر سے جاگتے نہیں دیکھا صبح وہ مجھے مکئی کی روٹی دیسی گھی میں چوپڑ کر کھانے کو دیا کرتیں تھیں اور اس ناشتے میں صرف مکئی کی دیسی گھی میں چوپڑی روٹی نہیں ہوتی تھی اس میں ممتا کی محبت سارے اجزاء کی طرح شامل ہوتی تھی میں یہاں اگر کسی وقت کو بہت زیادہ یاد کرتا ہوں تو وہ وہی وقت ہے وہ صبح کا خوبصورت وقت جو امی کے ساتھ گزرتا تھا۔ یادوں کی کھڑکی کھولتے ہی یادیں قطار در قطار پورے نظم و ضبط کے ساتھ اندر آنے لگتی ہیں۔ اگر آپ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں کوئی ذاتی توعیت کی کوئی مصالحہ دار بات کروں گا تو یہ آپ لوگوں کی خام خیالی ہے اسی لئے میں آپ لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے بات کو یہاں ہی ختم کر رہا ہے۔