دھرنا دینے والوں سے ایک گزارش، ایک اپیل
نصرت جاوید
آپ کو ہر پل باخبررکھنے کے دعوے دار ہمارے ”آزاد“ اور ”بے باک“ میڈیا نے کئی اور میری ناقص رائے میں ناجائز، وجوہات کی بناءپر اس ضمن میں خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے ایک دوسرے کے جڑواں کہلاتے راولپنڈی اور اسلام آباد ایک دوسرے سے تقریباََ دو مختلف سرحدوں میں واقع شہروں کی مانند الگ ہوئے نظر آرہے ہیں۔
راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف جانے والے راستوں کو بیشتر صورتوں میں صرف فیض آباد چوک سے گزرنا ہوتا ہے۔ یہ چوک ہمارے دین مبین کے نام پر سیاست کرنے والی ایک تازہ ترین جماعت نے دھرنے کی وجہ سے بند کررکھا ہے۔ اسلام آباد تک رسائی تقریباََ ناممکن ہوچکی ہے۔
اپنے اپنے دفاتر ہر صورت پہنچ کر ماہوار تنخواہ کے امیدوار افراد کوان دنوں مختلف ”چور راستوں“ کے ذریعے گھروں سے دفاتر اور وہاں سے گھر لوٹنا ہوتا ہے۔ جو سفر عموماََ 30 منٹ سے زائد نہیں لیتا تھا، اب کم از کم تین گھنٹے تک پھیل چکا ہے۔
سفر کی اس طوالت اور اس کی وجہ سے آئی مصیبتوں کے بارے میں سب سے زیادہ پریشان نچلے اور متوسط طبقے کی وہ خواتین ہیں جنہیں اپنے گھرانوں کی سفید پوشی کو برقرار رکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی نوکری کرنا ہوتی ہے۔ یہ خواتین علی الصبح اُٹھ کر اپنے شوہر اور بچوں کے لئے ناشتے کا بندوبست کرتی ہیں۔ بچوں کو سکول بھیجنا ہوتا ہے۔ ان سے فراغت کے بعد ہی وہ خود اپنے کام پر روانہ ہوتی ہیں۔ گھریلو ذمہ داریوں کی بنا پر ان خواتین کا دفتری اوقات ختم ہوجانے کے فوری بعد گھر پہنچنا بھی ضروری ہے۔ بچوں کو وقت دینا ہوتا ہے۔ رات کا کھانا تیار کرنا ہوتا ہے۔ ایسی خواتین میں سے اب تک کم از کم 100 کے قریب نے نجانے کس طرح میرافون نمبر حاصل کیا اور رابطہ ہوتے ہی انتہائی بے بس و لاچار آواز اور لہجے میں دھرنے کی وجہ سے آئی بلاﺅں کا تذکرہ شروع کردیا۔ ان کی مجبوری مجھے اپنی بے بسی یاد دلادیتی ہے۔ سوائے جھوٹی طفل تسلیوں کے میرے پاس ان کی مشکلات رفع کرنے کی اور کوئی ترکیب نہیں ہے۔
فیض آباد پر دھرنا دئیے افراد سے میں بھی خوف کھاتا ہوں۔ بغیر کسی حجت کے لہذا فوراََ تسلیم کرلیتا ہوں کہ ان کے مطالبات بالکل جائز ہیں۔ ان کے ایمان کی مضبوطی کا اظہار ہیں۔ شکایت مگر ان مظاہرین کو حکومت وقت سے ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت کے کرتا دھرتا لیکن ان کے دھرنے کی وجہ سے ہرگز پریشان نہیں۔ وزراءکے پاس تیز رفتار گاڑیاں ہیں۔ ان کے راستے بنانے کو سائرن بجاتی گاڑیاں بھی ہیں۔ سڑک کے ذریعے کسی ایک مقام سے دوسرے تک پہنچنا نا ممکن ہوجائے تو ہیلی کاپٹروں کی ایک کھیپ دونوں حکومتوں کو وافر تعداد میں میسر ہے۔ میڈیا میں فیض آباد میں دئیے دھرنے کا ذکر تک نہیں ہورہا۔ پارلیمان بھی اس کے بارے میں خاموش رہی۔
خاموش رہنا ”عوامی نمائندوں“ کی مجبوری ہے۔ ان سب نے اجتماعی طورپر انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ایک قانون بہت سبک رفتاری سے منظور کیا تھا۔ اس قانون میں چند تبدیلیاں تھیں جنہیں فیض آباد میں دھرنا دئیے افراد نے ہمارے عقائد کے برعکس قرار دیا۔ بغیر کسی بحث کے پارلیمان نے فوراََ اپنی خطا کا اعتراف کرلیا اور بہت ہی تیزرفتاری سے بظاہر نادانستگی میں ہوئی غلطی کا ازالہ بھی کردیا۔
دھرنا دئیے افراد مگر اب ذمہ داروں کی نشان دہی چاہتے ہیں۔ انہیں عبرت کا نشان بنانا چاہتے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون ان کا خاص نشانہ ہیں۔ یہ وزیر ایک وڈیو ریکارڈ کروا کر اسے سوشل میڈیا پر پھیلائیے چلے جارہے ہیں۔ اس ویڈیو کو دیکھیں تو ایک لمحہ کو گماں ہوتا ہے کہ شاید موصوف حال ہی میں مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ تعلق ان کا اگرچہ ضلع سیالکوٹ کے ایک معروف خاندان سے ہے۔ والد ان کے بریگیڈیئر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ سکندر مرزا کے اے ڈی سی رہے۔ لبنان میں سفیر بھی رہے۔ وزیر قانون کا سارا خاندان سماجی اعتبار سے بہت معروف اور باعزت گردانا جاتا ہے۔ اپنی عزت وجان بچانے کے لئے مگر اس وزیر کو ویڈیو ریکارڈ کرواکر سوشل میڈیا پر اب لوڈ کرنا پڑرہے ہیں۔
ریاست وحکومت کو ہم ”مائی باپ“ سمجھنے کے عادی ہیں۔ خدانخواستہ کوئی شخص میرے عقیدے پر سوالات اٹھاتے ہوئے میری ذات کو Hate Speech کا نشانہ بناکر اس کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کرے تو میں اسی ”مائی باپ“ سے تحفظ کی بھیک مانگوں گا۔ ”مائی باپ“ جب خود ہی بے بس ہوئے اپنے تحفظ کے سوشل میڈیا پر پھیلائی وڈیوز کے ذریعے طلب گار بن جائیں تو میں کہاں جاﺅں گا؟
ریاست کو قطعاََ بے بس دکھانے والے دھرنوں کا چلن ہمارے ہاں 2013 کے انتخابات سے قبل کینیڈا سے آئے ایک ”شیخ السلام“ نے متعارف کروایا تھا۔ وہ سیاست نہیں ریاست بچانے کے دعوے دار تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی ”انقلابی“ حکومت کے ”روشن خیال“ وزراءنے ایک وفد کی صورت ان صاحب سے کنٹینر میں ملاقاتیں کیں۔ تعمیرات کے کاروبار سے وابستہ ایک فیاض فرد نے دھرنے پر اُٹھے اخراجات کی تلافی کا بندوبست کیا۔ سب پے بھاری زرداری نے ان سب چالوں کے ذریعے ”جمہوریت“ اور ”سیاست“ بچالی۔ بلّے بّلے ہوگئی۔
اپنے اس دھرنے کی کامیابی کے بعد ”شیخ السلام“ نے اگست 2014 میں ایک اور دھرنے کی تیاری شروع کردی۔ اس تیاری کے دورن ”سانحہ ماڈل ٹاﺅن“ ہوا۔ اس سانحے کے بعد سے عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہونے کی دعوے دار ریاست نے فیصلہ کیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، ”اسلامی“ نعرے استعمال کرنے والوں کو ”کوئی لاش“ ہرگز نہیں دینی۔
عمران خان اور ان کی جماعت بھی اگست 2014 کے دھرنے میں اپنے انداز میں شامل ہوگئی۔ 126 دنوں تک اسلام آباد میں کوئی حکومتی رٹ نظر نہیں آئی۔ اگرچہ اس دھرنے کے دوران ہی فیصلہ یہ بھی ہوا کہ ریاستِ پاکستان کی رٹ کو شمالی وزیرستان کے ویرانوں اور پہاڑوں میں بحال کیا جائے گا۔ بلوچستان کے دشت وجبل بھی ریاستی قوت کے مطیع بنائے گئے اور کراچی کو بھتہ خوروں سے آزادی دلواکر ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنانے کی کاوشیں شروع ہوگئیں۔
ان تمام تر کامیابیوں کے باوجود مذہبی بنیادوں پر جذبات بھڑکانے والوں کے دئیے دھرنوں کا ہماری ریاست وحکومت کے پاس کوئی توڑ موجود نہیں ہے۔ محض بے بسی ہے جو مسلسل مجھ ایسے خبطی کو 1857ء کی دلّی یاد دلاتی ہے اور بہادر شاہ ظفر کی بے بسی جو کسی کی آنکھ کا نور نہیں بن پایا تھا اور جسے کوئے یار میں دفن ہونے کودوگززمین بھی نہیں ملی تھی۔ ہماری حکومت شاید ان دنوں اس پر نازل ہوئی ذلتDeserve کرتی ہے۔
اس حکومت کی خطاﺅں کا خمیازہ مگر دن رات کی مشقت سے اپنے گھر کا خرچہ چلانے والے کم مایہ خواتین وحضرات کیوں بھگتیں۔ بچوںکو سکول جانے میں دشواریوں کا سامنا کیوں کرنا پڑے اور مریضوں کو ہنگامی حالات میں بھی ہسپتالوں تک پہنچانے کی راہ کیوں نہ ملے۔ بہت غور کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ فیض آباد میں دھرنا دئیے افراد سے رحمتہ لعالمین ﷺ کا واسطہ دیتے ہوئے فریاد کروں کہ وہ روزانہ اُجرت کی خاطر راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے پر مجبور کم مایہ افراد پر رحم کریں۔ بچوں کو سکول جانے دیں۔ مریضوں کے لئے راستے کھلے رکھیں۔