80 Saal Baad - Javed Chaudhry


80 سال بعد 
جاوید چوہدری 

یہ بنیادی طور پر تین خاندانوں کا قصہ ہے‘ پہلا خاندان واڈیا فیملی تھی‘ خاندان کی بنیاد پارسی تاجر لوجی نصیر وان جی واڈیا نے بھارت کے شہر سورت میں رکھی‘ فرنچ ایسٹ انڈیا اور برٹش ایسٹ انڈیا میں جنگ ہو چکی تھی‘ برطانوی تاجر فرانسیسی تاجروں کو پسپا کر چکے تھے‘ پلاسی کی جنگ بھی ختم ہو چکی تھی اور میسور میں ٹیپو سلطان بھی ہار چکے تھے۔ 
ایسٹ انڈیا کمپنی کو اب مغل سلطنت پر قبضے کے لیے برطانیہ سے مضبوط رابطے چاہیے تھے‘ یہ رابطے بحری جہازوں کے بغیر ممکن نہیں تھے‘ لوجی واڈیا لوہے کے کاروبار سے وابستہ تھے‘ وہ انگریزوں کی ضرورت کو بھانپ گئے چنانچہ انھوں نے 1736ء میں ہندوستان میں پہلی شپنگ کمپنی کی بنیاد رکھ دی‘ وہ سورت سے ممبئی منتقل ہوئے‘ بحری جہاز بنانے کا کارخانہ لگایا‘ ممبئی پورٹ بنائی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ طاقتور تجارتی دھاگے میں پرو گئے۔ 
انگریز بعد ازاں واڈیا گروپ سے بحری جنگی جہاز بھی بنوانے لگے‘ واڈیا گروپ نے 1810ء میں ایچ ایم ایس مینڈن کے نام سے دنیا کا دوسرا بڑابحری جہاز بنایا‘ امریکا نے 1812ء میں اس جہاز پر اپنا قومی ترانہ لکھا‘ یہ دنیا میں بحری جہاز پر لکھا جانے والا پہلا امریکی ترانہ تھا‘ واڈیا فیملی کے اردشیر کاؤس جی 1849ء میں امریکا گئے‘ یہ امریکی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے پارسی تھے۔ 
یہ لوگ 1840ء تک سو سے زائد بحری جنگی جہاز بنا چکے تھے‘ یہ پوری دنیا میں اپنا تجارتی نیٹ ورک بھی پھیلا چکے تھے اور یہ دنیا میں جہاز رانی میں پہلے نمبر پر بھی آ چکے تھے‘ واڈیا فیملی بعد ازاں کپڑا سازی‘ فلم ‘ تعلیم اور میڈیا کے شعبوں میں بھی آ گئی‘ لوجی واڈیا کے پوتے کے پوتے نوروجی واڈیا نے پونا میں پہلا پرائیویٹ کالج بنایا‘ واڈیا فیملی نے 1933ء میں ممبئی میں اسٹوڈیوز اور فلم سازی کی کمپنیاں بنائیں‘ جے بی ایچ واڈیا اور ہومی واڈیا فلمیں بنانے لگے اور یہ اب فیشن میگزین بھی چلاتے ہیں‘ فیشن چینلز بھی اور ’’گوائیر‘‘ کے نام سے ائیر لائین بھی‘ یہ بھارت میں اس وقت بھی بڑا کاروباری نام ہیں۔ 
پٹیٹ بھارت کا دوسرا تجارتی خاندان تھا‘ یہ لوگ کپڑے کی صنعت سے وابستہ تھے‘سر ڈنشا مانک جی پٹیٹ نے ہندوستان میں پہلی کاٹن مل لگائی تھی‘ یہ ملکہ سے نائیٹ کا خطاب حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی بھی تھے‘ سر ڈنشا پٹیٹ کی شادی ہندوستان کے پہلے ارب پتی رتن ٹاٹا کی بیٹی سائیلا ٹاٹا سے ہوئی تھی‘ سائیلا ٹاٹا کی والدہ فرنچ تھیں‘ ان کا نام سوزانا تھا‘ وہ ہندوستان میں گاڑی چلانے والی پہلی خاتون تھی‘ جہانگیر ٹاٹا سائیلا کے بھائی تھے‘ یہ ٹاٹا گروپ کے چیئرمین تھے۔ 
سرڈنشا مانک جی پٹیٹ اور سائیلا ٹاٹا کے ہاں 1900ء میں ایک نہایت خوبصورت بچی پیدا ہوئی‘ بچی کا نام رتی بائی پٹیٹ رکھا گیا‘ سر ڈنشا پٹیٹ نے بچی کو اپنے نوجوان دوست محمد علی جناح سے گھٹی دلائی‘ محمد علی جناح اس وقت ممبئی کے نامور وکیل تھے‘ وہ ذہین ترین شخص کہلاتے تھے‘ سر ڈنشا پٹیٹ چاہتے تھے ان کی بیٹی محمد علی جناح کی طرح ذہن ثابت ہو‘ سرڈنشا پٹیٹ کی یہ خواہش بعد ازاں پوری ہوئی لیکن کس طرح یہ ہم آپ کو تیسرے خاندان کے تعارف کے بعد بتائیں گے۔ بھارت کا تیسرا خاندان جناح کہلاتا ہے۔ 
خاندان کے بانی پریم جی بھائی تھے‘ یہ گجرات کاٹھیاواڑ کے رہنے والے تھے‘ وہ مذہباً ہندو تھے‘ انھوں نے اسلام قبول کیا‘ کھوجہ شیعہ بنے اور تجارت شروع کر دی‘ کراچی اس زمانے میں چھوٹا سا ساحلی قصبہ تھا‘ یہ مچھیروں تک محدود تھا‘ یہ شہر 1870ء میں اچانک اہمیت اختیار کر گیا‘ کیوں؟ وجہ بہت دلچسپ تھی‘ انگریز نے 1859ء میں مصر میں نہر سویز کھودنا شروع کی‘ یہ نہر دس سال بعد 1869ء میں مکمل ہو ئی‘ نہر سویز نے میڈٹیرین سی (بحیرہ روم) کو ریڈ سی (بحیرہ احمر) کے ساتھ ملا دیا‘ بحری جہازوں کا فاصلہ سات ہزار کلو میٹر کم ہو گیا‘ نہر سویز سے قبل ممبئی ہندوستان کی واحد بندر گاہ تھی‘ نہر کی وجہ سے یورپ اور ہندوستان کے درمیان تجارت میں تین گناہ اضافہ ہوگیا۔ 
ممبئی پورٹ یہ بوجھ برداشت نہیں کر پا رہی تھی‘ انگریز کو نئی بندرگاہ کی ضرورت پڑ گئی‘ کراچی قدرتی بندرگاہ تھا چنانچہ انگریز نے یہاں بندر گاہ بنانا شروع کر دی‘ یہ بندر گاہ ہندوستان کے دوسرے درجے کے ہزاروں تاجروں کو کراچی کھینچ لائی‘ ان تاجروں میں جناح پونجا بھی شامل تھے‘ یہ 1875ء میں کراچی آئے اور ان کے ہاں 1876ء میں محمد علی پیدا ہوئے‘ یہ والد کی مناسبت سے محمد علی جناح کہلانے لگے‘ جناح پونجا کامیاب تاجر تھے‘ یہ اپنا مال بحری جہازوں کے ذریعے یورپ بھجواتے تھے‘ آپ اب صورت حال ملاحظہ کیجیے‘ جناح پونجا تاجر ہیں‘ یہ چمڑا اور سوتی کپڑا ایکسپورٹ کرتے ہیں‘ سوتی کپڑا پٹیٹ فیملی کی ملوں میں بنتا ہے‘ چمڑا پٹیٹ فیملی کے سسرالی ٹاٹا فیملی کی ٹینریز میں رنگا جاتا ہے اور یہ مال واڈیا فیملی کے جہازوں پر یورپ جاتا ہے یوں قدرت نے تینوں (چاروں) خاندانوں کے درمیان ایک دلچسپ تعلق پیدا کر دیا۔ 
ہم اب ان تمام خاندانوں کی کنجی محمد علی جناح کی طرف آتے ہیں‘ قائداعظم 1896ء میں وکیل بن کر ممبئی آئے اور شہر کی سماجی زندگی میں تہلکہ مچا دیا‘ یہ انگریزوں سے بہتر انگریزی بولتے تھے‘ ان کے پاس 200 نہایت قیمتی سوٹ تھے‘ یہ روز نیا سوٹ پہنتے تھے‘ ان کی شخصیت میں دل آویزی اور کشش بھی تھی‘ پریکٹس بھی بہت اچھی تھی اور سوشل نیٹ ورکنگ بھی کمال تھی‘ انگریز افسر انھیں بہت پسند کرتے تھے چنانچہ یہ اس زمانے میں پٹیٹ‘ ٹاٹا اور واڈیا تینوں خاندانوں کے لیے ہاٹ کیک بن گئے۔ 
سر ڈنشا پٹیٹ کے ہاں 1900ء میں رتی بائی پٹیٹ پیدا ہوئیں‘ یہ ’’مسٹر جناح‘ مسٹر جناح‘‘ کی آوازوں میں بڑی ہوئیں اور جوانی میں ان کی محبت کی اسیر ہو گئیں‘ رتی بائی نے 1918ء میں اسلام قبول کیا‘ یہ رتی سے مریم جناح بنیں اور نئی زندگی شروع کر دی‘ سر ڈنشا پٹیٹ نے بیٹی کو عاق کر دیا‘ ان سے پٹیٹ کا ٹائٹل تک لے لیا گیا‘ قائداعظم اور مریم اس زمانے میں ہندوستان کا خوبصورت اور ذہین ترین جوڑا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو 15 اگست 1919ء کو خوبصورت بیٹی دینا دی۔ 
دینا جناح لندن میں پیدا ہوئیں‘ ماں اور باپ تھیٹر دیکھ رہے تھے‘ ایمرجنسی ہوئی‘ یہ دونوں تھیٹر سے سیدھے اسپتال پہنچے اور دینا دنیا میں تشریف لے آئیں‘ بیٹی ابھی بچی تھی کہ ماں باپ میں اختلافات ہو گئے‘ والدہ گھر سے ہوٹل شفٹ ہو گئیں یوں دینا کا بچپن اداسی اور تنہائی کا شکار ہوگیا‘ والدہ بیمار ہوئی اور 29 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں‘ دینا کی عمر اس وقت دس سال تھی‘ والد کو بیوی کے غم اور سیاست نے نگل لیا‘ بچی کی پرورش کی ذمے داری پھوپھی فاطمہ جناح پر آ گئی‘ وہ یہ ذمے داری نبھاتی رہیں۔ 
دینا پارسی کمیونٹی کا حصہ تھیں‘ وہ ممبئی کے پارسی کلب میں بھی جاتی تھیں اور پارسی فیملیز سے بھی ملتی رہتی تھیں‘ یہ اس دوران واڈیا فیملی کے نوجوان نیولی واڈیا کی محبت میں گرفتار ہو گئیں‘ والد نے شادی سے روکا ‘ یہ باز نہ آئیں‘ دینا نے1938ء میں نیولی واڈیا سے شادی کر لی‘ قائداعظم نے بیٹی سے قطع تعلق کر لیا‘ نسلی واڈیا اور جمشید واڈیا دو بیٹے ہوئے‘ 1943ء میں طلاق ہو گئی لیکن طلاق کے باوجود باپ اور بیٹی میں فاصلہ رہا تاہم قائداعظم کے نواسے سرراہ اپنے نانا سے ملتے رہتے تھے۔ 
قائد ان سے بہت محبت سے پیش آتے تھے‘ آپ انھیں تحفے بھی دیتے تھے‘ تحفے عموماً تین ہوتے تھے‘ تیسرا تحفہ ہمیشہ بے نام ہوتا تھا‘ یہ ایک باپ کا اپنی واحد بیٹی کے نام بے نام تحفہ ہوتا تھا‘ ملک تقسیم ہو گیا‘ قائداعظم کراچی تشریف لے آئے اور دینا واڈیا ممبئی رہ گئیں‘ یہ بعد ازاں امریکا شفٹ ہو گئیں‘ قائد بیمار ہوئے‘ 1948ء میں انتقال فرمایا‘ وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے دینا کو اطلاع دی‘ خصوصی طیارہ ممبئی بھجوایا اور وہ والد کے آخری دیدار کے لیے پاکستان تشریف لے آئیں۔ 
وہ 2004ء میں دوسری اور آخری مرتبہ پاکستان تشریف لائیں‘ وہ شہریار خان کی درخواست پر میچ دیکھنے پاکستان آئی تھیں‘ ان کے صاحبزادے نسلی واڈیا اور دونوں پوتے نیس واڈیا اور جہانگیر واڈیا بھی ان کے ساتھ تھے‘ وہ اس وقت تک ہوبہو قائداعظم کی تصویر بن چکی تھیں‘ وہی ستواں ناک‘ وہی تیز گرم نظریں اور وہی تحمکانہ لہجہ‘ وہ آئیں تو لوگ بھول گئے وہ پارسی ہو چکی ہیں یا قائداعظم نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا‘ لوگ ان کے پیروں کی خاک اٹھا کر اپنے ماتھے پر لگاتے رہے‘ وہ لاہور میں علامہ اقبال کے داماد میاں صلاح الدین کی حویلی بھی گئیں‘ یوسف صلاح الدین کے ماتھے پر پیار کیا‘ یہ اس وقت چین اسموکر تھے‘ حکم دیا ’’آپ فوراً سگریٹ چھوڑ دو‘‘ یوسف صلاح الدین نے اسی وقت سگریٹ پینا بند کر دیا‘ یہ پاکستان سے واپس امریکا چلی گئیں اور یہ دو نومبر 2017ء کو نیویارک میں انتقال کر گئیں۔ 
والد اور بیٹی دونوں بااصول تھے‘ والد نے قطع تعلق کے بعد پوری زندگی بیٹی کی شکل نہیں دیکھی‘ بیٹی نے بھی مرنے تک والد کی وراثت سے حصہ نہیں مانگا‘ وہ صرف آخری عمر ممبئی میں قائداعظم کے گھر میں گزارنا چاہتی تھیں‘ عدالت میں کیس چل رہا تھا لیکن عدالت اور بھارتی حکومت دونوں کا دل چھوٹا نکلا۔ قائداعظم کی آخری نشانی دینا جناح ایک اداس اور ادھوری زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں‘ وہ چلی گئیں لیکن کیا ہم بھی انھیں یوں ہی جانے دیں گے؟
کیا قائداعظم کے اس ملک میں قائداعظم کی بیٹی کے لیے ایک قبر کی گنجائش بھی نہیں‘ کیا ہماری حکومت قائداعظم کے مزار میں قائداعظم کی صاحبزادی کی ایک قبر بھی نہیں بنا سکتی اور کیاہم نیویارک سے ان کی باقیات لا کر انھیں یہاں کراچی میں دفن نہیں کر سکتے؟ شاید اسی سے 80 سال تک اپنے والد کے لیے تڑپتی‘ سسکتی اس بیٹی کو قرار آ جائے‘شاید یہ80 سال بعد اپنے والد سے مل لے‘ کیاقائداعظم کی قوم اپنے قائد کے لیے یہ بھی نہیں کر سکتی۔