”یہ جینا بھی کوئی جینا ہے“
نصرت جاوید
جون 2018ء تک پہنچنے میں ابھی آٹھ ماہ درکار ہیں۔ آٹھ کو 30 سے ضرب دیں تو یہ 240 دن بنتے ہیں۔ ایک طویل مدت۔ کیونکہ سیاست میں کہا جاتا ہے کہ بسا اوقات اس کا ایک دن بھی صدیوں سے بھاری ہوتا ہے۔
بہرحال شاہد خاقان عباسی کی شدید خواہش ہے کہ وہ بخیروعافیت موجودہ قومی اسمبلی کو 2018ء تک کھینچ لے جائیں۔ 2008 ئسے 2013ء تک کام کرنے والی اسمبلی کے بعد ایک اور قومی اسمبلی بھی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر لے۔ براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئے ایک کے بعد دوسرے ایوان نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی آئینی مدت پوری کرلی تو پاکستان میں ”جمہوریت مضبوط“ ہو جائے گی۔ دُنیا کو اعتبار آجائے گا کہ وطن عزیز میں فیصلہ سازی کا حتمی اختیار عوام کے منتخب کردہ افراد کو منتقل ہوچکا ہے۔ ہم عالمی برادری میں مہذب، متمدن اور جدید ملک وغیرہ شمار ہونا شروع ہوجائیں گے۔
سطحی ذہن کے ساتھ سوچیں تو موجودہ قومی اسمبلی کو اپنی آئینی مدت کے اختتام تک لے جانا ایک معقول فیصلہ نظر آتا ہے۔ تھوڑی گہرائی میں جائیں تو اگرچہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی کو اپنی آئینی مدت مکمل ہونے تک کھینچنا ایسے ہی ہے جیسے کسی مریض کی صحت یابی کو ڈاکٹر ناممکن قرار دیںمگر اس کے عزیز اور چاہنے والے بضد رہیں کہ بستر پر لیٹا، دُنیا سے بے خبر مریض سلنڈر کے ذریعے فراہم کی گئی آکسیجن کے سہارے ”زندہ“ رہے۔ اسے ”خوراک“ کے طورپر نسوں میں سوئی ڈال کر گلوکوز ملتی رہے۔ بس حوصلہ اور اطمینان رہے کہ دُنیا کی ہر شے سے بے خبر بستر پر لیٹا مریض ”زندہ“ ہے۔
خود کو اس ملک کے سب اداروں پر ”بالادست“ قرار دینے والی پارلیمان کا انتقال پر ملال مجھ بدنصیب کی رائے میں اسی دن ہوگیا تھا جب ہماری تاریخ کا تیسری بار منتخب ہوا وزیر اعظم سپریم کورٹ کی بنائی JIT کے سامنے پیش ہوا۔
وزیراعظم کو ہمارا آئین ”چیف ایگزیکٹو“ قرار دیتا ہے۔ ہم ایسے بے بس و بے اختیار ذلتوں کے مارے لوگ اس سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ عوامی مسائل کے حوالے سے ریاستی مشینری کو ہر وقت متحرک رکھے۔ اس مشینری سے وابستہ نوکرشاہی کو مسلسل سوالات کے ذریعے پریشان رکھے۔ JIT میں لیکن گریڈ18 سے 20 تک کے افسر موجود تھے۔ اس ملک کا نام نہاد ”چیف ایگزیکٹو“ ان کے روبرو مجرموں کی صورت پیش ہوا۔ اس پیشی کے بعد کوئی وزیر اعظم کسی بھی سرکاری ملازم سے مختلف معاملات کے بارے میں سوالات اٹھانے کی تاب ہی نہیں لاسکتا۔
وہ نظام جسے ہم جمہوریت کہتے ہیں اس کی بنیاد No Taxation without Representation کے تصور پر مبنی ہے۔ بادشاہ سلامت کو بتایا گیا کہ وہ اور اس کے مصاحبین من مانی نہیں کر سکتے۔ ریاست کا دھندا چلانے کے لئے سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ یہ سرمایہ شہریوں سے مختلف النوع ٹیکس لگاکر جمع کیا جاتا۔ اس ٹیکس سے JIT کے ہیروں کو تنخواہ ملتی ہے۔ ججوں کی پنشن وغیرہ کا بندوبست ہوتا ہے۔ دشمن کا دل دہلا دینے کے لئے اسلحہ خریداجاتا ہے۔ پارلیمانی نظام کا وزیر اعظم ریاستی خزانے کا امین ہے۔ بطور چیف ایگزیکٹو اس کا یہ اختیاروذمہ داری ہے کہ ریاست سے تنخواہ لینے والے ہر ملازم سے مسلسل پوچھ گچھ کرتا رہے۔ اس کی کارکردگی پر کڑی نگاہ رکھے۔
یہ لطیفہ مگر بہت ہی وکھرے پاکستان میں ہوا کہ تیسری بار منتخب ہوا ایک وزیر اعظم سرکاری افسروں پر مشتمل ایک JIT کے سامنے مجرموں کی طرح پیش ہوا اور یوں کرتے ہوئے اس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اپنے منصب کو توقیر کو پیروں تلے روند ڈالنے کے باوجود نواز شریف نا اہل ہونے سے بچ نہ پائے۔ گاڈ فادر کہلائے اور ان کا خاندان جرائم پیشہ ”سسیلین مافیا“۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے والے شاہد خاقان عباسی کی بنیادی ذمہ داری اپنے عہدے کی توقیر کی بحالی تھی موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت کو سوجوتوں کے ساتھ سوپیاز کھاتے ہوئے مکمل کرنا ہرگز نہیں۔
ایمان داری کی بات ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی شخصیت کو تھوڑا بہت جانتے ہوئے انتہائی خلوص کے ساتھ مجھے ابتداءمیں یہ گماں ہوا کہ موصوف عوام کے منتخب کردہ اراکین پارلیمان اور اداروں سے مسلسل رابطہ رکھتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کی توقیر کسی نہ کسی صورت بحال کر ہی لیں گے۔ اس کالم میں ایک بار میں نے ان کی صورت مرحوم محمد خان جونیجو کا ”دوسرا جنم“ بھی دیکھ لیا تھا۔
اپنے قارئین سے دست بستہ معافی کا طلب گار ہوتے ہوئے مجھے اعتراف کرنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو میں نے Over Estimate کیا۔ لائٹ ویٹ پہلوان کو ہیوی ویٹ سمجھ بیٹھا۔ اس وزیر اعظم کی بے بسی قابلِ رحم بھی نہیں۔
پارلیمانی نظام میں سنا ہے تمام فیصلے وفاقی کابینہ کے ذریعے ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم اس کابینہ کا کپتان کہلاتا ہے۔ مملکت خداداد ِ پاکستان کی موجودہ بہت ہی وکھری ”کابینہ“ ایسی ہے جس کا ایک ”خاندانی“ وزیر -ریاض پیرزادہ- اپنے ہی وزیر اعظم کے قومی اسمبلی میں دئیے اس بیان پر یقین کرنے کو ہرگز تیار نہیں کہ انٹیلی جنس بیورو نے ایسی کوئی فہرست تیار نہیں کی ہے جس میں شامل افراد کے دہشت گردوں کے ساتھ مبینہ روابط کی چھان بین ہورہی ہے۔
اپنے ”کپتان“ کے قومی اسمبلی میں دئیے بیان پر یقین نہ کرنے کے باوجود ریاض پیرزادہ اس وقت بھی کابینہ کے ایک معزز رکن ہیں۔ شاہد خاقان عباسی بھی یہ ہمت نہیں دکھاپائے کہ اسمبلی میں کھڑے ہوکر موصوف کو کہیں کہ اگر انہیں اپنے وزیر اعظم کے بیان پر یقین نہیں تو وزارت سے استعفیٰ دیں اور اگر وہ یہ قدم نہیں اٹھاسکتے تو میں انہیں کابینہ سے برطرف کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔
قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل کرنے کے نام پر خدارا پارلیمانی نظام کو تماشہ نہ بنائیں۔ وزارتِ عظمیٰ کو گھریلو ملازموں سے تھوڑا زیادہ بااختیار تو ثابت کریں۔ ورنہ یہ دو ٹکے کی نوکری ہے جس کے بارے میں میرے لاہور کی گلیوں میں کہا جاتا ہے کہ ”یہ جینا بھی کوئی جینا ہے“۔