Pak-America Taluqat Ka Mustaqbil - Nusrat Javeed


پاک۔ امریکہ تعلقات کا مستقبل؟ 
نصرت جاوید 

منگل کے روز امریکی وزیر خارجہ ساڑھے تین گھنٹوں سے زیادہ اسلام آباد میں نہیں ٹھہرا۔ وزیر اعظم ہائوس میں مذاکرات کا صر ف ایک رائونڈ ہوا۔ پاکستانی وفد کی قیادت وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کی۔ پاکستانی وزیر خارجہ اور آرمی چیف ان کے دائیں اور بائیں جانب رکھی نشستوں پر تشریف فرماتھے۔ ڈی جی آئی ایس آئی بھی وہاں موجود تھے اور قومی سلامتی کے امور سے وابستہ دیگر وزراء بھی۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے، المختصر، علیحدہ علیحدہ نہیں یکجا بیٹھ کرریکس ٹیلرسن کو سنا۔ کم از کم امریکی دبائو کا سامنا کرنے کے لئے یہ دونوں ایک Page پر نظر آئے۔ 
’’دبائو‘‘ کا لفظ میں نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ بنیادی وجہ اس کی محض ایک منٹ والی وہ وڈیو کلپ ہے جو امریکی وزارتِ خارجہ نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ سے جاری کی تھی۔ اس وڈیو کلپ میں ریکس ٹیلرسن نے افغانستان کے فوجی اڈے بگرام سے پاکستان کے لئے رخصت ہوتے ہوئے لوگوں کو یہ بتانا چاہا کہ وہ کیا پیغام لے کر اسلام آباد جارہا ہے۔ 
اس کلپ کے ذریعے امریکی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کو چند مخصوص اقدامات اٹھانے کے لئے ایک فہرست اس کا ملک ہمارے حکام کے حوالے کرچکا ہے۔ "Specific Requests" کی البتہ اس نے وضاحت نہیں کی۔ اس کے بعد اگرچہ طالبان اور ’’دیگر‘‘ دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں (Safe Havens) کا ذکر ضرور ہوا اور آخر میں یہ اطلاع بھی کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات اب "Condition Based" ہوں گے۔ شرائط (Conditions)، ظاہر ہے امریکہ کی طرف سے طے ہوں گی اور پاکستان ان پر عمل درآمد کرتے ہوئے خود کو جنوبی ایشیاء کا ’’اچھابچہ‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ 
میں پاکستان کا ایک عام شہری ہوں۔ پیشے کے اعتبار سے اخبار نویس۔ کچھ لفظ لکھ اور بول کر رزق کمانا میرا دھندا ہے۔ میں اپنے ایمان اور حب الوطنی کے بارے میں بڑھک بازی سے ہمیشہ پرہیز کرتا ہوں۔ اپنے جان ومال کی قربانی دینے سے بھی گریز کی عادت لاحق ہے۔ اپنی ان سب کمزوریوں کے باوجود امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے سرکاری طورپر جاری ہوئی اس کلپ کو دیکھ کر میرا خون کھول گیا۔ جذبات نارمل ہوئے تو عقل متحرک ہوگئی۔ ذہن میں سوالات اُٹھے کہ امریکی وزیر خارجہ نے یہ سب کچھ کیوں کہا۔ 
میرے ذہن میں اُٹھے سوالات کے جواب حاصل کرنے کا البتہ کوئی معقول طریقہ موجود نہیں ہے۔ کم از کم 2004 تک عالمی امور کے حوالے سے پاکستان سے متوقع کردار کی بدولت اُٹھے سوالات کا جواب دینے کے لئے ہماری وزارتِ خارجہ میں تواتر سے لکھنے والوں کے لئے بریفنگ کا باقاعدہ اہتمام ہوا کرتا تھا۔ بسا اوقات یہ بریفنگ قطعاََ آف دی ریکارڈ ہوتی۔ 2005 کے بعد سے مگر یہ سلسلہ بتدریج نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس ضمن میں طویل وقفے کے بعد آخری ایک بریفنگ وزارتِ خارجہ میں ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے چند دنوں بعد ہوئی تھی۔ اس وقت کے مشیر برائے وزیر خارجہ -سرتاج عزیز-صاحب نے وہاں کافی سخت اور پریشان کن سوالات کا خندہ پیشانی سے جواب دیا تھا۔ 
وزارتِ خارجہ کی جانب سے کسی باقاعدہ بریفنگ کا اہتمام نہ بھی ہو تو خارجہ امور پر لکھنے والے رپورٹر اور کالم نگار اپنے ذہن میں آئے سوالات کو کسی متعلقہ افسر سے ملاقات طے کرکے اٹھاسکتے تھے۔ نام نہاد ’’ڈان لیکس‘‘ کے بعد سے اب وزارتِ خارجہ کا کوئی افسر خارجہ امور پر لکھنے والے شخص کا فون لینے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔ کسی سماجی تقریب میں ملاقات ہوجائے تو بھی کنی کترانے کو ترجیح دیتا ہے۔ 
وزارتِ خارجہ کے افسروں کا رپورٹروں سے لاتعلقی والا یہ رویہ قطعاََ جائز ہے۔ ایک سرکاری افسر کی ترجیح اپنی نوکری بچانا اور اگلے عہدے میں ترقی پانا ہوتا ہے۔ اسے اپنی ACR کو صاف ستھرا رکھنا ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں اس کی کسی ’’غدار‘‘ صحافی سے ملاقات خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔ دُکھ کی بات یہ بھی ہے کہ خوف ودہشت کی ایسی فضاء میرے وطن میں کبھی مارشل لاء کے جابرانہ دنوں میں بھی نظر نہیں آئی۔ 
میں ذاتی طورپر جنرل ضیاء کا ہمیشہ نقاد رہا ہوں۔ اس کے باوجود بھارت اور افغانستان جیسے ممالک کے ساتھ ہمارے ’’حساس‘‘ مسائل کی بابت لکھنے کا آغاز میں نے اس کے دور ہی میں کیا تھا۔ عبدالستار ان دنوں ہمارے خارجہ سیکرٹری تھے۔ ان سے جب بھی اکیلے میں ملنے کی درخواست ہوئی تو سرعت سے ملاقات کا وقت طے ہوگیا۔ کم از کم دومرتبہ آئی ایس آئی کے انتہائی ’’نظریاتی‘‘ مشہور ہوئے جنرل حمید گل مرحوم نے بھی ازخود The Nation کے لئے لکھے میرے چند تجزیوں اور کالموں کی وجہ سے مجھ سے رابطہ کیا۔ ملاقات ہوئی تو اپنا ’’نقطہ نظر‘‘ بیان کیا۔ 
بحیثیت صحافی میں نے ان کے ’’نقطہ نظر‘‘ کو ایمان داری سے ’’سیکیورٹی امور سے متعلق اعلیٰ حکام کے خیالات‘‘ بتاکر بیان کیا مگر ان سے شاذہی اپنی تحریروں میں اتفاق بھی کیا۔ جنرل مشرف مختلف وجوہات کی بناء پر مجھے ناپسند کرتے تھے۔ اس کے باوجود وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بھارت اور کشمیر سے متعلق سوالات کا جواب دینے کو ہر وقت موجود ہوتے۔ میرے ساتھ ملاقاتوں کو خورشید صاحب نے اپنے باس یعنی جنرل مشرف سے کبھی چھپایا بھی نہیں۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ جنرل مشرف نے ان سے اس ضمن میں کبھی خفگی کا اظہار بھی نہیں کیا۔ 
طارق عزیز صاحب جنرل مشرف کے امور برائے قومی سلامتی تھے۔ وہ بھارت کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات کے عمل میں بھی مصروف رہے۔ طارق صاحب اکثر اس تناظر میں کچھ معاملات پر گپ شپ لگانے کے لئے مجھے اپنے دفتر میں کافی کے لئے بلاتے۔ جنرل مشرف کے ڈی جی آئی ایس آئی-جنرل احسان- بھی اپنا ’’نقطہ نظر‘‘ بیان کرنے کو ہر وقت آمادہ ہوا کرتے۔ تقریباََ ایسا ہی رویہ ان کے بعد جنرل کیانی نے بھی اختیار کیا تھا۔ 
2008 کے بعد سے مگر پارلیمان مبینہ طورپر ’’سب اداروں پر بالادست‘‘ ہوگئی۔ اس برس کے بعد سے مگر خارجہ امور پر باقاعدگی سے لکھنے والے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا شروع ہوگئے ہیں۔ پالیسی سازوں تک عدم رسائی کا اعتراف کرنا یہ لکھاری مگر مناسب نہیں سمجھتے۔ متعلقہ حکام کی خاموشی اور ان تک عدم رسائی کی وجہ سے خارجہ اور سلامتی امور پر بھاشن دینے والوں کی ایک نئی کھیپ تیار ہوگئی ہے۔ یہ صحافیوں میں ’’غدار‘‘ تلاش کرکے ان کے لئے پھانسی کے پھندے دیکھنے کی دہائی مچاتی رہتی ہے۔ 
اپنی جان ومال کے خوف سے میں دیانت دارانہ عاجزی کے ساتھ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ مجھے ہرگز علم نہیں کہ امریکی وزیر خارجہ نے ہماری حکومت کو کونسی Specific Demands پیش کی ہیں۔ ان کا پتہ چلے تو "Condition Based" ٹھہرائے پاک-امریکہ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں کچھ لفظ لکھوں۔