Khofnaak Dastaan - Javed Chaudhry


خوفناک داستان 
جاوید چوہدری 

شاہد خاقان عباسی اور رفیق احمد تارڑ دونوں عینی شاہد ہیں۔ 
میاں نواز شریف کے والد29 اکتوبر 2004ء کو جدہ میں انتقال کر گئے ‘ میاں شریف کی میت لاہور لائی گئی اور یکم نومبرکو رائے ونڈ میں ان کی تدفین ہوئی‘ لاہور شریف خاندان کا قلعہ تھا‘ شریف برادران نے 1997ء کے الیکشن میں تاریخ کا ہیوی مینڈیٹ لیا تھا‘ لاہور کی تمام نشستیں ن لیگ نے حاصل کیں لیکن جب شریف برادران کے والد کی تدفین کا وقت آیا تو پورے لاہوربلکہ پورے پاکستان سے ان میں کوئی شخص رائے ونڈ میں موجود نہیں تھا جو آج ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ یا ’’قائد تیرا ایک اشارہ حاضر لہو ہمارا‘‘ یا پھر ’’میاں صاحب قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں‘ پوری پارٹی سے صرف شاہد خاقان عباسی اور رفیق احمد تارڑ دو لوگ جنازے میں شریک ہوئے‘ میاں شریف کا جنازہ جاتی عمرہ کے ملازمین نے پڑھا تھا اور لوگ بھی سیکڑوں میں نہیں درجنوں میں تھے۔ 
شریف فیملی کے محلات کی حالت یہ تھی وہ رمضان کا مہینہ تھا لیکن وہاں افطاری کے لیے پانی تک موجود نہیں تھا‘لوگ جنازے کے بعد افطاری کے بغیر وہاں سے رخصت ہوئے‘ مجھے شاہد خاقان عباسی نے 2005ء میں بتایا تھا ’’میں اور میری ہمشیرہ سعدیہ خاقان عباسی نے افطاری سے گھنٹے بعد موٹروے پر آ کر افطار کیا‘‘ یہ لوگ آج بھی اس دور کو یاد کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور یہ اپنی گیلی آنکھیں صاف کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو سمجھاتے ہیں ’’سر آپ نہ لڑیں‘ پنجاب آپ کو صرف ووٹ دے گا یہ آپ کے لیے سڑکوں پر نہیں آئے گا۔ 
یہ پنجاب کی جنیاتی تاریخ ہے‘ پنجابی اپنے لیڈروں‘ اپنے قائدین کے لیے کھڑے نہیں ہوتے‘ یہ اس بار بھی آپ کے لیے نہیں لڑیں گے‘‘ لیکن میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف دونوں تاحال ’’نادیدہ طاقتوں‘‘ سے مقابلے کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں‘ یہ دونوں لڑ کر رہیں گے اور یہ طے ہے اگر یہ لڑے تو اس لڑائی کا اختتام پنجاب ہاؤس مری میں ہو گا‘ میاں نواز شریف دوسری بار مری میں پنجاب ہاؤس میں قید ہوں گے یوں یہ کہانی ایک بار پھر وہیں سے شروع ہو گی جہاں یہ 2000ء میں ختم ہوئی تھی‘ حکومت شاید اس حقیقت سے واقف ہے شاید اسی لیے حکومت نے پچھلے ہفتے پنجاب ہاؤس مری کی تزئین و آرائش شروع کرا دی ہے‘ باتھ رومز‘ بیڈ رومز اور کچن ٹھیک کرائے جا رہے ہیں تاکہ مستقبل میں میاں نواز شریف کو تکلیف نہ ہو۔ 
میاں نواز شریف اگر لڑائی کی طرف آئے تو یہ ملک‘ شریف خاندان اور پاکستان مسلم لیگ تینوں کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا‘ پاکستان اس وقت حقیقتاً خطرات کا شکار ہے‘ امریکا افغانستان میں داعش کو جمع کر رہا ہے‘ داعش کے لیے افغانستان کے بارڈر کھل چکے ہیں‘ یہ لوگ عراق‘ ترکی اور شام سے دھڑا دھڑ افغانستان پہنچ رہے ہیں‘ داعش کے جوانوں کو پانچ سو ڈالر ماہانہ تنخواہ بھی دی جارہی ہے‘ ہتھیار بھی‘ پناہ بھی‘ خوراک بھی‘ کپڑے بھی اور ٹریننگ بھی‘ افغانستان میں داعش کا باقاعدہ ریڈیو اسٹیشن موجود ہے‘ یہ اسٹیشن جلال آباد میں امریکا کے فوجی اڈے کے اندر قائم ہے اور اس کی نشریات افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی سنی جاتی ہیں‘ داعش پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں سے نئے نوجوان بھی بھرتی کر رہی ہے‘ امریکا مستقبل میں ان سے دو کام لے گا‘ یہ ان لوگوں کو طالبان کے خلاف استعمال کرے گا۔ 
داعش طالبان کو مارے گی‘ یہ طالب علاقوں پر قبضہ کرے گی اور آخر میں امریکا ان سے یہ علاقے لے لے گا‘ دوسرا امریکا داعش کو پاکستان میں استعمال کرے گا‘ یہ لوگ پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کریں گے‘ آپ کو یاد ہو گا صدر ٹرمپ نے اگست میں 3900 امریکی فوجی افغانستان بھجوانے کا اعلان کیا تھا‘ ان میں سے ایک دستہ داعش کی پرورش کے لیے افغانستان پہنچا‘ پاکستان کے باغی گروپ بھی افغانستان میں موجود ہیں‘ یہ گروپ را کے قبضے میں ہیں اور یہ بھی داعش میں شامل ہو رہے ہیں لہٰذا افغانستان میں پاکستان کے خلاف ایک خوفناک فوج تیار ہو رہی ہے‘ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اور وزیر دفاع جیمز میٹس پاکستان کے دورے پر آ رہے ہیں‘ یہ حقانی نیٹ ورک کے نام‘ پتے اور اکاؤنٹس کی تفصیل ساتھ لائیں گے‘ یہ ہمیں ’’ڈیڈ لائین‘‘بھی دیں گے‘ ہم نے اگر امریکا کی بات نہ مانی توپاکستان پر ہر قسم کا دباؤ ڈالا جائے گا‘ ہماری امداد بھی بند ہو گی‘ہم پر محدود سفارتی پابندیاں بھی لگیں گی اور داعش جیسی تنظیمیں بھی متحرک ہو جائیں گی‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف دونوں مستقبل کے ان خطرات سے واقف ہیں۔ 
میاں نواز شریف کے لیے پارٹی کے اندرونی حالات بھی ساز گار نہیں ہیں‘25 ستمبرکو وزیراعظم کے ماتحت خفیہ ادارے انٹیلی جینس بیورو کی ایک فہرست لیک ہوئی‘ اس فہرست میں 37 وزراء اور ایم این ایز کے نام شامل ہیں‘ آئی بی نے انکشاف کیا‘ یہ لوگ کالعدم تنظیموں سے رابطے میں ہیں‘ آئی بی اس فہرست کو جعلی قرار دے چکی ہے لیکن فہرست میں شامل ارکان اسمبلی اور وزراء یہ وضاحت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘سیاسی حقائق بھی اس وضاحت کو مشکوک بنا رہے ہیں‘ مثلاً فہرست میں شامل 90 فیصد ارکان جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ لوگ ق لیگ اور آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے تھے اور یہ 2013ء میں ن لیگ میں شامل ہوئے‘ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو میاں نواز شریف کے طرز سیاست سے خوش نہیں ہیں اور یہ اپنے قائد کے سامنے کھڑے ہو کر اعتراض کرتے تھے چنانچہ عام تاثر یہ ہے یہ لوگ مستقبل میں اپنی وفاداریاں بدل سکتے تھے لہٰذاحکومت نے کالعدم جماعتوں سے رابطے کا بہانہ بنا کران کی نگرانی شروع کر دی‘یہ لوگ اس لیک کے خوفناک نتائج بھگت رہے ہیں۔ 
اویس لغاری کے صاحبزادے سے امریکی یونیورسٹی نے وضاحت مانگ لی جب کہ سفارت خانوں نے ان لوگوں کو ویزے دینے سے انکار کر دیا چنانچہ وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے پانچ اکتوبرکو قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کر دیا تھا‘ یہ ملکی تاریخ میں حکومت کا حکومت کے خلاف پہلا واک آؤٹ تھا‘ حکومت کے درجن بھر ایم این ایز اور دو وفاقی وزراء نے بھی پیرزادہ صاحب کا ساتھ دیا تھا‘ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کا نام بھی اس فہرست میں شامل تھا‘ یہ بھی اس دن بائیکاٹ کررہے تھے لیکن ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے منت کر کے انھیں روکا‘ آپ ذرا سوچئے اگر اس دن ڈپٹی اسپیکر بھی ایوان سے واک آؤٹ کر جاتے تو حکومت کی کیا عزت رہ جاتی‘ یہ لوگ بھی دل سے میاں نواز شریف سے ناراض ہیں اور پارٹی کے سینئر لوگ بھی میاں نواز شریف کی فلاسفی سے اتفاق نہیں کرتے‘ یہ سمجھتے ہیں میاں نواز شریف کو مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو خاموش کرا دینا چاہیے‘ یہ دونوں خاموشی سے اپنے مقدمات لڑیں اور حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے دیں‘ حکومت نے ساڑھے چار سال لگا کر فصل بوئی‘ یہ فصل اب کٹائی کے قریب ہے‘ لوڈ شیڈنگ ختم ہو چکی ہے‘ سال کے آخر میں ملک کو لوڈ شیڈنگ فری قرار دے دیا جائے گا‘ دہشت گردی بھی ختم ہو چکی ہے اور میاں شہباز شریف بھرپور مخالفت کے باوجود اورنج لائین کو بھی تکمیل تک لے آئے ہیں۔ 
آج دشمن بھی مانتے ہیں پاکستان میں یہ تصور محال تھا‘ ملک کے تین بڑے شہروں میں میٹرو بس بھی چلے گی اور لاہور میں جدید ٹرین سروس بھی شروع ہو جائے گی‘ میاں شہباز شریف کو یہاں تک پہنچنے کے لیے جتنی محنت کرنی پڑی یہ جانتے ہیں یا پھر ان کاخدا لیکن بہرحال اس شخص نے یہ کارنامہ سرانجام دے دیا‘ ملک میں انگریز کے جانے کے بعد پہلی مرتبہ اتنے بڑے لیول پر انفرا اسٹرکچر بنا‘ میاں شہباز شریف نے حقیقتاً صدر ایوب خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا‘ آپ آج کسی صوبے سے پنجاب میں داخل ہوں آپ کو واضح فرق محسوس ہوگا اور یہ فرق وہ کریڈٹ ہے جو کوئی شخص میاں شہباز شریف سے نہیں چھین سکے گا‘ مخالفین خواہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پرکتنی ہی کمپیئن کیوں نہ چلا لیں‘ میاں نواز شریف کے پرانے ساتھی سمجھتے ہیں یہ وہ فصلیں ہیں جو تیار ہو چکی ہیںاور ہمیں ہرحال میں انھیں بچانا چاہیے‘ ہمیں اپنے مکمل منصوبوں کے ساتھ پانچ سال پورے کرنے چاہئیں لیکن ان کو اندیشہ ہے میاں نواز شریف اور مریم نواز کی غلطیاں اس فصل کو جلا کر راکھ کر دیں گی اور حکومت سینیٹ کے الیکشنوں سے پہلے ختم ہو جائے گی چنانچہ یہ لوگ بار بار میاں نواز شریف کا ہاتھ پکڑتے ہیں مگر میاں نواز شریف ہر بار ہاتھ چھڑا لیتے ہیں۔ 
یہ درست ہے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے درمیان آئیڈیل تعلقات ہیں‘ یہ دونوں بھائی یک جان دو قالب ہیں‘ میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے ہر حکم کو حرف آخر سمجھتے ہیں لیکن مجھے خطرہ ہے یہ حالات اگر اسی طرح جاری رہے ‘ اگر میاں صاحب نے مریم نواز کی لانچنگ کا منصوبہ ترک نہ کیا اور یہ اگر ملک کے نازک حالات کا احساس کیے بغیر اسی طرح لڑتے رہے تو شاید اس بار میاں شہباز شریف بھی اپنے بھائی کا ساتھ نہ دیں‘ یہ بھی ملک کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور اگر یہ نوبت آ گئی تو آپ شریف فیملی کے انجام کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘ یہ لوگ عروج اور زوال کی خوفناک داستان بن کر رہ جائیں گے۔ 
نوٹ: میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے 7 اکتوبر کے کالم میں میرا کالم ’’سہواً‘‘ شامل کر دیا‘ اس سے کچھ قارئین کو غلط فہمی پیدا ہو گئی جس کی وضاحت ضروری ہے۔ قاسمی صاحب نے اپنے کالم کے شروع میں ہی لکھ دیا تھا کہ انھیں ایک تحریر فیس بک پر ملی جو انھیں پسند آئی‘ جسے وہ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں‘ انھیں علم نہیں تھا کہ یہ میرا کالم ہے۔