Kambakht Dil Aur Meri Beti - Leena Hashir


کمبخت دل اور میری بیٹی 
لینہ حاشر 

اماں کی جان دعا 

یاد ہے میں نے تمہیں یہ کہانی پہلے بھی سنائی تھی۔ آج پھر سن لو کہ بات کہیں سے تو شروع کرنی ہے۔ تمہارے دنیا میں آنے سے پہلے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ بیٹی ہونے کی صورت میں تمہارا نام دعا حاشر رکھا جائے گا۔ پہلی بار تمہیں دعاؤں کی قبولیت کے ثبوت کے طور پر میرے ہاتھوں میں تھمایا گیا تو ایک ارمان دل میں جاگا کہ تمہارے نام کے ساتھ ہمیشہ میرا نام بھی لگا رہے۔ نام کی تلاش میں ہم ترک ناموں کے صفحات کو گردان رہے تھے کہ انجلینا پر نظر پڑتے ہی ایک مسکان میرے چہرے پر نمودار ہو گئی۔ میرا نام لینہ اس نام میں واضح سنائی دیتا ہے۔ معنی بھی تمہاری طرح معصوم تھا۔ لہذا تمہارا نام انجلینا دعا حاشر(حاشر کی معصوم دعا) رکھ دیا گیا۔ 

وقت پنکھ لگائے اڑتا گیا۔ میری گود میں کھیلنے والی ننھی سی گڑیا بڑی ہو گئی۔ کل کی بات لگتی ہے جب چلتے چلتے تم اپنے مخملیں ننھے ہاتھوں سے میری انگلی پکڑ لیتی تھی۔ اور اب اونچے نیچے رستوں کو دیکھتے ہی بڑی محبت سے تم اپنا ہاتھ میری جانب بڑھا دیتی ہو۔ کب ماں بیٹی کے رشتے نے دوستی کی معراج کو چھوا۔ کچھ خبر نہیں۔ ہمارے درمیان دوستی کے سب رنگ ہیں۔ ہنسی، خوشی، لاڈ، پیار محبت، ناراضگی اور غصے کے بعد منانے کے رنگوں کی ایک قوس قزح ہے۔ ان رنگوں میں ڈوبے ہمارے رشتے کو اٹھارہ برس بیت گئے ہیں۔ اور اب وہ وقت آن پہنچا جب تم کو اپنی تعلیم کے لیے گھر سے دور جانا تھا۔ دل تو بے حال تھا۔ لیکن یہ امر لازم تھا۔ تم کچھ دنوں سے اپنا سامان سمیٹنے میں مصروف تھی اور میں اپنے جذبات اور احساسات کے آگے بند باندھے کھڑی تھی۔ ایک لمبے سفر کے بعد تمہیں تمہاری منزل مقصود تک چھوڑا۔ واپسی میں ایسا لگا کہ میں کچھ بھول آئی ہوں۔ اپنے پرس کی چانچ کی تو سب کچھ اس میں دھرا تھا۔ بے چینی کی حالت میں ڈیش بورڈ میں پڑے گاڑی کے کاغذات کی پڑتال شروع کر دی۔ وہ بھی پورے ہی نکلے۔ مضطرب نگاہیں پھر کلائی کی جانب اٹھ گئیں۔ گھڑی ہاتھ کی کلائی پر بندھی تھی۔ سوئیاں وقت کو آگے کی جانب دھکیل رہی تھیں۔ اور میں وقت کو روک دینا چاہتی تھی۔ زندگی میں پہلی بار تم کو اپنے سے الگ کر رہی تھی۔ تم نے اپنے دعوے کو سچ کرنے کی ٹھانی ہوئی تھی کہ میں اماں سے زیادہ مضبوط اعصاب کی مالک ہوں۔ ادھر میں تمہیں حوصلہ دلاتے دلاتے ہمت ہار رہی تھی۔ ادھر تمہاری آنکھوں میں آنسو چھلکنے کو تیار تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے نظریں چرانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ اس لیے تمہیں الوداع کہتے ہوئے میں تیزی سے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ گاڑی آگے کی جانب تیزی سے چل رہی تھی اور میرے ذہن میں تمہارے اٹھارہ برسوں کا فلیش بیک اس سے بھی تیزی سے گھوم رہا تھا۔ پر ان تمام تر خیالات کے باوجود سب سے حاوی خیال اب بھی کسی شے کے کھو جانے کا تھا۔ 

ادھیڑ بن میں بے حال بالآخر سرا مل ہی گیا۔ یہ سرا تم سے اور تمہاری چیزوں میں بندھا پڑا تھا۔ سوچا تم کو فون کروں اور کہوں کہ بیٹا ذرا تم اپنی الماری میں کپڑوں کے درمیاں، تکیے کے نیچے، پرس کی جیب میں، دوپٹے کی گرہ میں، کمبل کے نیچے تلاش کرو، وہیں کہیں گرا پڑا ہو گا۔ تمہارے پاس تمہاری اماں کا دل رہ گیا ہے۔ بڑا کمبخت ہے، بہت سمجھایا، بہت منایا کہ چل بھئی اب میرے ساتھ ہو لے۔ اب تم بڑی ہو گئی ہو۔ تمہاری تعلیم سب سے اہم ہے۔ مستقبل کے انتخاب کی مکمل آزادی تمہارا حق ہے۔ اس کے لیے مجھے تمہاری جدائی بھی سہنی ہو گئی۔ لیکن اس سارے خطاب کے بعد بھی دل ناسمجھ نکلا، بے وفا نکلا۔ آخری لمحے میں پھر دغا دے گیا۔ چپکے سے انکار کر کے وہیں رہ گیا اور میرے پاس بس خالی پن کا احساس رہ گیا جس میں کوئی دھڑکن سنائی نہیں دیتی۔ 

واپسی پر گاڑی کی رفتار بہت تیز تھی۔ تیز دھوپ تھی پر گاڑی کا موسم مکمل طور پر ابر آلود تھا۔ بار بار ونڈ اسکرین آنکھوں کے سامنے دھندلا رہی تھی۔ پانی کو چہرے سے صاف کرنے کے لیے انگلیوں کا استعمال مسلسل جاری تھا۔ یہ احساس ہوا، جب دل زیادہ دکھی ہوتا ہے تو آنسو میں نمک کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے یا پھر نمکین پانی کی فراوانی ہو تو کچھ قطرے تیزی سے اپنا ذائقہ بار بار چکھا تے رہتے ہیں۔ تمام راستے میرے اور تمہارے بابا کے درمیان خاموشی حائل تھی۔ دونوں ہی یہ سوچتے رہے کہ کون کس کو حوصلہ دے کون کس کی ہمت بندھائے۔ میں اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی کوشش میں لگی تھی اور بابا تمہاری فکر میں گم صم بیٹھے تھے۔ راستہ پار کرنے کے بعد تمہارے بغیر گھر میں داخل ہونے کا مرحلہ بھی سر کرنا تھا۔ اس کے لیے میں نے بہت ہی خوب ترکیب نکالی۔ گاڑی سے قدم باہر رکھتے ہی تمہیں جلدی سے فون کر ڈالا۔ تمہاری آواز کانوں میں پڑتے ہی قدم آگے کی جانب اٹھنے لگے تھے۔ گھر کے اندر داخل ہوتے ہی تمہارے کمرے کا دروازہ کھولا تو ایسا لگا جیسے چلتی سانسیں بوجھل ہو کر رک جانا چاہتی تھیں، کانوں میں پڑتی آوازیں سائیں سائیں کرنے لگیں اور آنکھیں کچھ لمحوں کے لیے پتھرا سی گئی تھیں۔ 

وقت ابھی بھی رکا ہوا ہے۔ ایک دن گزر جانے کے باوجود بھی تمہارے کمرے میں جم کر بیٹھی ہوں۔ آج تمہارے بابا نے اپنی خاموشی توڑی ہے۔ پر میری زبان پر الفاظ آنے سے پہلے میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ ایسے ہی وقت سے ایک بار پہلے گزر چکی ہوں جب تمہارے بھائی کو چار سال پہلے اس کی من پسند ڈگری کی خواہش پر اپنے سے الگ کیا تھا۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی عرصام اپنی ڈگری لے کر واپس اپنے گھونسلے میں آن بیٹھا ہے۔ تم بھی تعلیم ختم کر کے واپس آ جاؤ گی۔ تمہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جانتی ہوں تم ڈٹ کر مقابلہ کرنے والوں میں سے ہو۔ کوئی ایسی مشکل آن پہنچے جس سے تم کو لگے کہ تمہارا تنہا لڑنا دشوار ہے بس ایک آواز دینا ہم تمہارے ساتھ ہوں گے۔ ارے ہاں وہ جو ہدایت نامہ تم سعدیہ باجی اور تنویر بھائی کو دے کر گئیں تھیں وہ اس پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ تمہاری سعدیہ باجی کچن میں میرے کھانے کا اب خاص خیال رکھ رہی ہے۔ تنویر بھائی بابا کے کھانے سے پہلے دوائیوں کی ڈبیا میز پر رکھ دیتے ہیں۔ بابا کا سر بھی آپ کی ہدایت کے مطابق دبایا جاتا ہے۔ بھائی بھی دلجوئی میں لگا ہوا ہے۔ سوچتی ہوں ایسے کب تک چلے گا ہمت تو کرنی پڑے گی۔ ابھی تو زندگی میں بہت کچھ دیکھنا ہے۔ وہ دن بھی پلک جھپکتے آئے گا جب تمہیں اپنی دعاؤں میں رخصت کرنا ہوگا تو پھر اپنے آپ کو کس طرح سنبھالوں گی؟ ہمیشہ تم کو اپنے پروں کے نیچے رکھنا ممکن نہیں۔ تمہارے اپنے خواب ہیں جس کی تکمیل کا تمہیں پورا حق ہے۔ ہمیشہ مسکراتی رہو۔ 

تمہاری اماں

بہ شکریہ: ہم سب