کہوں کس سے میں کہ کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔
نصرت جاوید
ٹی وی سکرینوں پر بریکنگ نیوز، چبھتے بیانات پر مبنی ٹِکرزاور ٹاک شوز کے نام پر سیاپا فروشی کرتے ہم صحافیوں کا رویہ اب ”مدت ہوئی ہے یار کو مہمان کئے ہوئے“ والا ہوچکا ہے۔ ”مہان“ مگر آنے کو تیار ہی نہیں ہورہا۔ اس کا ”آنا“ شاید اس لئے بھی غیر متعلقہ لگتا ہے کہ وہ کئی حوالوں سے آج سے کئی برس پہلے ”آنے“ کے بعد کبھی گیا ہی نہیں تھا۔ ہم میں رچ بس سا گیا ہے۔ اجنبی رہا ہی نہیں۔ ہم اس کی موجودگی کا مگر ادراک نہیں کرپارہے۔
رپورٹروں کا وہ غولِ عظیم جو ہفتے کی شام ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں موجود تھا، مختلف حیلوں بہانوں سے وزیر داخلہ احسن اقبال کی ممکنہ دھنائی کے راستے بناتا رہا۔ جنرل غفور مگر غچہ دے گئے۔ محتاط الفاظ چنے۔ لہجہ بھی دھیما رکھا۔ مزا نہیں آیا۔ ہمیں مزید مایوس کرنے کو آئین کی بالادستی کا ذکر بھی کردیا۔ مارشل لاءکے امکانات رد کردئیے اور ساتھ ہی اس ٹیکنوکریٹ حکومت کے بھی جس کا اسلام آباد میں موجود کئی ریٹائرڈ افسر گزشتہ چند ہفتوںسے مسلسل انتظار کررہے ہیں۔
ہفتے کے روز وقتِ عصر ہوئی پریس کانفرنس سے قبل جو رات تھی اسے سوکر گزارنا کافی مشکل رہا۔ Whatsapp پر پیغامات آتے رہے۔ آئندہ ”48 گھنٹے“میں کچھ ہونے والا ہے کی چہ مہ گوئیاں۔ تنگ آکر میں نے فون ہی بند کردیا اور چین کی نیند سویا۔ فیصلہ کرلیا ہے کہ فون کو اب صرف فون کے طورپر استعمال کیا جائے گا۔ انٹرنیٹ سے جڑی نام نہاد سوشل میڈیا والی سہولیات صرف Laptop کے ذریعے استعمال ہوں گی۔ فائدہ اس فیصلے کا فوری اور بنیادی یہ ہوا کہ 28 گھنٹے گزرچکے ہیں اور میرے فون کی بیٹری صرف 62 فی صد تک استعمال ہوئی ہے۔ کافی دنوں کے بعد اپنی سرہانے رکھی ایک کتاب کے 150 کے قریب صفحات بھی پڑھ کر سویا۔ اُمید ہے پیر کی صبح تک یہ کتاب ختم کرلوں گا۔
عجب اتفاق یہ بھی ہے کہ جو کتاب زیر مطالعہ ہے نام اس کا ”مون سون“ ہے۔ اس کتاب کو بارشوں کے مون سون سسٹم کی حدود میں آئے تمام افریقی، عرب اور جنوبی ایشیائی ممالک کے طویل دوروں کے بعد ایک امریکی محقق ومصنف، Robert D Kaplan نے لکھا تھا۔
یہ کتاب 2010 کے اختتامی ایام میں شائع ہوئی تھی۔ کپلان کی یہ 13 ویں کتاب تھی۔ اس کتاب کا اصل مقصد دُنیا کو یہ سمجھانا تھا کہ عالمی قوتیں ابھی تک بحرِ اوقیانوس سے ملحقہ علاقوں پر اپنا اجارہ قائم کرنے کی کش مکش میں مبتلا رہی ہیں۔ ان کے مابین "New Great Game" مگر اب بحر ہند کے پانیوں میں کھیلی جائے گی۔ ہمارے گوادر کو اس نے اس ضمن میں ایک اہم ترین مقام شمار کیا اور اس بات پر اصرار کہ پاکستان میں ”استحکام“ ہی اس بندر گاہ کو عالمی نقشے پر ایک اہم ترین مقام کے طورپر اجاگر کرسکتا ہے۔
کپلان نے ایک ایمان دار محقق ہوتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت تاریخی حوالوں سے خود کو اس سمندر کا اجارہ دار سمجھتا ہے جس کا نام ہی ”بحرہند“ ہے۔ عوامی جمہوریہ چین مگر اب ایک عظیم طاقت بن چکا ہے۔ اسے اپنی معیشت کو پھیلانے اور مضبوط تر بنانے کے لئے بحرِ ہند کے پانیوں پر اپنا ”حق“ اور حصہ وصول کرنا ہوگا اور یہ بات شاید بھارت کے لئے قابل قبول نہ ہو۔
ایمان داری کی بات ہے کہ کپلان کی بتائی کہانی جب میں نے پہلی بار آج سے تقریباََ4 برس قبل پڑھی تو ذرا مبالغہ آمیز لگی۔ کپلان کے تجزیے کو شک وشبے کے ساتھ لینے پر میں اس لئے بھی مجبور ہوا کہ اس کتاب سے قبل اس نے امریکہ کے ایک بہت ہی سنجیدہ ماہنامے Atlantic کے لئے مضامین کا ایک سلسلہ لکھا تھا۔ اس میں دعویٰ ہوا کہ پاکستان میں اٹک کے دونوں اطراف کے مابین جھگڑا ہے جو اس ملک کو شدید عدم استحکام میں مبتلا کرسکتا ہے۔
دہشت گردی ان دنوں ہمارے ملک میں خوفناک حدوں تک پہنچ چکی تھی۔ سوات میں ہوئے آپریشن کو کئی دنوں تک اس علاقے میں بذاتِ خود موجود ہوتے ہوئے دیکھنے کے بعد لیکن میں مکمل اعتماد کے ساتھ لوگوں کو سمجھانا شروع ہوگیا کہ پاکستان کی ریاست اتنی کمزور نہیں ہے۔ ضرورت صرف Political Will کی ہے۔ ریاستی اشرافیہ باہم مل کر دہشت گردی پر قابو پانے کا فیصلہ کرلے تو ”استحکام“ کا حصول ہرگز غیر ممکن نہیں۔ سوات آپریشن کی کامیابی کے بعد آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کے نتائج نے میری سوچ کو درست ثابت کیا۔
حال ہی میں چند واقعات مگر ہوئے ہیں جنہوں نے مجھے کپلان کی ”مون سون“ سے رجوع کرنے پرمجبور کردیا۔ اہم ترین واقعہ اس ماہ کے آغاز میں امریکی وزیر دفاع جنرل Mattis کی اپنے ملک کے سینٹ کی ایک کمیٹی کے روبرو بریفنگ تھی۔ اس بریفنگ میں ”دیوانہ“ مشہور ہوئے اس جرنیل نے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ اعلان کیا کہ کسی ملک (یعنی چین)کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ One Belt One Road کا نعرہ لگاتے ہوئے دنیا کے ممالک میں رابطوں کو آسان تر بنانے کے نام پر اپنی پسند کے CPEC جیسے راستے "Dictate" کرے۔ Mattis نے CPEC کو محض چین کی ”مسلط کردہ“ شاہراہ ہی نہیں کہا۔ اس بات پر بھی ”پریشانی“ کا اظہار کردیا کہ یہ سڑک ”متنازعہ علاقوں“ سے ہوکر جاتی ہے۔ میری ناقص رائے میں جنرل Mattis کی مذکورہ بریفنگCPEC کے خلاف اعلانِ جنگ کی مانند تھی۔ ایک سپرطاقت(امریکہ) کی جانب سے برملا اظہار کہ پاکستان اور چین کے درمیان طے ہوا یہ منصوبہ اسے قابلِ قبول نہیں۔
امریکی جرنیل کے مذکورہ اظہار کے بعد ہمارے اخبارات میں ایسی خبریں، تجزیے اور مضامین شائع ہونا شروع ہوگئے جن میں تواتر کے ساتھ واویلا مچایا گیا کہ پاکستان کا تجارتی توازن خطرناک حد تک بگڑچکا ہے۔ پاکستان کو اپنی درآمدات کے لئے برآمدات کے ذریعے کمائی رقوم سے ہر ماہ تقریباََ دوگنی رقوم خرچ کرنا پڑرہی ہیں۔ صورتِ حال یہی رہی تو مارچ-اپریل 2018 تک ہمارے زرمبادلہ کے ذخائرختم ہوجائیں گے اور ہم IMF سے ایک اور Bailout پیکیج کی بھیک مانگ رہے ہوں گے۔
تجارتی توازن میں خسارے کی بات پر واویلا بظاہر نیک نیتی پر مبنی ہے۔ ذرا ٹھنڈے ذہن سے مگر غور کیجئے تو دریافت کیا جاسکتا ہے کہ ہماری درآمدات کا سب سے بڑا حصہ اس مشینری پر مشتمل ہے جو بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں جیسے کئی منصوبوںکی تکمیل کے لئے ہم چین سے درآمد کررہے ہیں۔ تجارتی خسارے کی بابت فکر مند دہائی درحقیقت CPEC کو بہت مہارت سے پاکستان پر ایک ناقابلِ برداشت بوجھ ثابت کرنا ہے اور ہمارے کئی ”محبانِ وطن“ ماہرینِ معیشت یہ فریضہ انتہائی خلوص سے ادا کرچکے ہیں۔
اس تناظر میں احسن اقبال نے واشنگٹن سے، جہاں ورلڈ بینک اور IMF کے سالانہ اجلاس ہورہے ہیں، جو بیان دیا وہ اتنا بھی غیر مناسب نہیں تھا۔ بہتر البتہ یہ ہوتا کہ وہ اس ضمن میں DG-ISPR کا ذکر نہ کرتے۔ اپنے فرمودات کو صرف پاکستانی معیشت کے روشن پہلوﺅں کو بیان کرنے تک ہی محدود رکھتے۔ ان کے بیان کے بعد DG-ISPR کا محتاط رویہ بھی خیر کی خبر ہے۔ سیاپا فروشی کے عادی صحافیوں کو مگر مزا نہیں آیا۔ ” کہوں کس سے میں کہ کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ “وغیرہ وغیرہ۔