جمہوریت موم کی ناک!!
( سقوط ڈھاکہ اور ختم نبوت؟)
زاہداکرام
پچھلے دنوں عدالت عالیہ سے نااہل ہوئے سابق وزیراعظم جنہیں الیکشن کمیشن نے ’ن لیگ‘ کی صدارت سے بھی سبکدوش قرار دیا تھا، جنکی صدر پوشی ہوئی، ’ ن لیگ ‘کی کرسیٍ صدارت پر پارلیمنٹ اور سینٹ سے قانون میں ترمیم اور ایک بل پاس کروانے کے بعد ’’ مشرف کا قانون اس کے منہ پر مارتے ہوئے بقول نواز شریف‘‘، دوبارہ براجمان ہوئے، ایسا دنیا کے کسی خطے میں نہیں ہوا کہ ایک جھوٹے، بدیانت اور خائین کیلئے جس پر سپریم کورٹ نے فرد جرم عائدکردی ہواور اس کو نااہل قرار دے دیا ہو، مجھے تو اللہ کے عذاب سے خوف آنے لگا ہے، کیونکہ پہلی قوموں پر عذاب ان ہی باتوں کی وجہ سے آتا رہا ہے، کہ وہ غلط کو غلط اور سچ کو سچ نہیں مانتے تھے، انصاف کو پس پشت ڈال دیتے تھے۔ ایک اور نا قابل معافی غلطی جو کی، کہ حلف نامے میں ختم نبوت ؐﷺ کے لیے الفاظ کو بدلا گیا ہے اور جس پر سیخ پا ہونا بنتا ہے، میں ابھی تک اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ الفاظ جو کچھ بھی تھے بدلنے کی ضرورت کیونکر پیش آئی، کہیں عوام اور ممبران کی توجہ مبذول کروانا مقصود تو نہ تھی جس کیلئے یہ سب ڈرامہ رچایا گیا یا مسلمانوں کے ایمان کی گرمی چیک کرنا مقصود تھی، اگر سیاق وسباق میں اس نظریے کو دیکھا جائے تو کہانی کچھ اور ہے یعنی نواز شریف کے مطابق قادیانی ان کے بھائی ہیں اور رانا ثنا اللہ صاحب ان کو مسلمان کہتے ہیں، احسن اقبال کے مطابق مطابق ختم نبوت کوئی بڑی بات نہیں، اللہ اور رسول کا کوئی ٹھیکیدار نہیں، اور تو اور خواجہ آصف کی امریکہ میں قادیانوں کے وفد سے ملاقاتیں، بہرکیف ایک دو دن میں دوبارہ ترمیم ہوجائے گی چونکہ ان کا ہدف پورا ہو گیا ہے، لیکن اب صرف تصحیح سے ہی کام نہیں چلے گا، اس کیلئے ان ذمہ دار افراد (کلرکوں کو نہیں) کو سخت سے سخت سزا بھی ملنی چاہیے، جو اس غلطی کے مرتکب ٹھہرے، اس پر کوئی مصالحت نہیں ہونی چاہیے،
کی محمد ؐسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا ہم تیرے ہیں
اعزاز میں منعقد تقریب میں انہوں نے اور ان کے رفقاء نے بڑی دھواں دھار تقاریر کیں، میرا ماتھا ان کی تقریر پر ٹھنکا اور میں بڑی دیر تک سوچتا رہا کہ ایک وزیراعظم جو3 بار منتخب ہوا اورہر بار کرپشن کے الزامات پر نکالا گیا ہو، جس کے نزدیک قانون موم کی ناک ہے، جب اور جتنی جلدی اپنے لیے موڑنا چاہیں موڑ لیں، کیسے اداروں اور عوام کو دھمکا رہا ہے، سقوط ڈھاکا کا تذکرہ کس سینس میں بڑی روانی سے کیا گیا، وہ ایک سانحہ تھا جو ہو گیا اب کونسا ہونے جا رہا ہے اب کس علاقے سے ہاتھ دھونا پڑیں گے، میرے کالم نویس دوستوں نے حق میں اور خلاف کافی دلائل دیے ہیں لیکن میرا مدعا فقط یہ ہے کہ کہیں خدانخواستہ بزبان خلق لندن ملاقات کے تذکرے پورے ہونے تو نہیں جا رہے، لندن میں بیٹھے ملک دشمن عنصر کے ساتھ کوئی ڈیل تو فائنل نہیں ہو گئی، جبکہ الطاف صاحب بھی نواز اور فیملی کیلئے بڑی میٹھی میٹھی باتیں کررہے ہیں، بات یونہی نہیں بھلانے والی، اس بات کی تہہ میں بہت راز ہیں خدارا سمجھیں اور عوام جو ایک نقطے پر مرکوز ہے اب تو اس ایشو کو بھی اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے، میں یہ بھی سمجھنے سے قاصر رہا کہ یہ بل اور اس کے ساتھ ساتھ کئی اور ترامیم جو گذشتہ ڈھائی سال سے جاری قانون سازی کے عمل سے گذریں، ان پر کسی گریجویٹ منتخب عوامی نمائندے کی نظر نہ پڑی، یا یہ واقعی پڑھے لکھے ہیں یا صرف اور صرف اسمبلی میں مراعات لینے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں پارلیمنٹ یا سینٹ سے جو بل پاس ہونے جا رہا ہو، اس کو عوام کیلئے بلش کیا جانا چاہیے، عوام ان کوالیفایڈ لٹیروں سے زیادہ پڑھی لکھی اور سمجھدار ہے، دوسرے یہ قوانین عوام کیلئے ہی تو بنائے جاتے ہیں ’پھر بلش کرنے میں کیسی حجت؟؟؟
علاوہ اس کے کہ نواز شریف کے بیان’ سقوط ڈھاکہ‘ جیسے سانحہ سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت موصوف سے کھلی کچہری میں ہونا ضروری ہے۔ ایک اور بات جو نواز شریف نے اپنے کارکنوں اپنے چاہنے والوں کو ایک شعر کے ذریعے ایک نصیحت کی، شعر ملاحظہ ہوکیا واقعی آپ حقیقت تو بیان نہیں کررہے تھے کہ ان سے اب کوئی امید نہیں اور اگر ہو بھی تو جہنم ہی مل سکتی ہے، خوشامدیوں والی بات کا اعادہ شہباز شریف نے بھی اپنی شعلہ بیان تقریر میں کیا، (معذرت کے ساتھ شعرکو تھوڑا بدلا ہے)
نااہل کمینے کی خوشامد سے اگر
جنت بھی ملے تو قبول نہ کر
قانون سازی کیلئے قانون ساز ادارہ ہونا چاہئے، یہ محلوں گلیوں سے منتخب ہوئے سرٹیفائیڈ، جعلی ڈگریوں والے سزا یافتہ عوامی نمائندے کیا قانون بنائیں گے گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا! یہ لوگ تو سڑکیں، گلیاں اور نالے بنانے والے لوگ ہیں قانون بنانے والے نہیں، خدارا اس فرق کو سمجھا جائے اور خود مختار ادارے بنائیں جائیں جس میں قانون ساز ادارہ بھی ہو اور ان اداروں کو مضبوط کیا جائے اور یہ ادارے ان گلی محلوں سے منتخب لوگوں کی دسترس سے دور رکھے جائیں، جو پاکستان کی نہیں اپنی ضروریات کیلئے قانون بناتے اور پاس کرتے ہیں، کیا یہ لوگ قانون سے بالا تر ہیں، اقتدار سے جڑے رہنا ضروری ہے کیا؟ پاکستان اور عوام کی اصلاح اور فائدے کا کوئی بل دیکھ لیں اگرپاس ہوا ہو، فاٹا کی مثال لے لیں، پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے سے لے کر آج تک اس پر کوئی کام ہوا ہو۔ ایسی جمہوریت سے میاں لنڈورے ہی بھلے جس کے چہرے پر قانون موم کی ناک سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔