فتنہ گری بہت کچھ بھسم کر سکتی ہے
نصرت جاوید
شاہد خاقان عباسی اور ان کے وزراءکی اکثریت کو ہرگز اندازہ نہیں کہ پیر کی شام انتخابی قوانین کے نئے پیکیج کی مخالفت کرتے ہوئے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے فتنہ گر نے ہمارے سادہ لوح عوام کی بے پناہ اکثریت کے دلوں میں یہ وسوسہ بٹھادیا ہے کہ ا نتخابی اصلاحات کی آڑ میں مسلمان امیدواروں کے لئے عقیدہ ختم نبوت کی پاسداری کا حلف ختم کردیا گیا ہے۔
یہ الزام قطعاََ بے بنیاد اور ہر حوالے سے Fake News ہے۔ اپنا پیش کردہ بل جلد ازجلد پاس کروانے کی ضد میں وزراءمگر اس بہتان کا کماحقہ نوٹس نہ لے پائے۔ نون لیگی اراکینِ اسمبلی کی اکثریت ویسے بھی اس وقت بہتان طراز پر آوازے کسنے میں مصروف تھی۔ وہ اندازہ ہی نہ لگاپائے کہ ٹی وی سکرینوں پر اسمبلی میں ہوئی تقاریر، ایوان میں ہوئے شوروغوغا سے طاقت ورفلٹرکے ذریعے محفوظ بنانے کے بعد دکھائی جاتی ہےں۔ فتنہ گراس سہولت کی بدولت نیک طینت لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرنے میں انتہائی کامیاب رہا۔
منگل کی صبح سے رات گئے تک بے شمار لوگوں نے ٹیلی فون اور ای میلز وغیرہ کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا۔ اپنے صحافتی کیریئر کا طویل عرصہ میں نے قومی اسمبلی کی کارروائی پر کالم لکھنے میں صرف کیا ہے۔ میرے قارئین کو لہذا اب بھی یہ گمان ہے کہ میں قومی اسمبلی کے ہر اجلاس کے دوران پریس گیلری میں موجود رہتا ہوں۔ 2007ء میں ٹی وی صحافت کی طرف منتقل ہونے کی وجہ سے اگرچہ میرا اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کے لئے باقاعدگی سے پریس گیلری جانا ممکن نہیں رہا۔
مجھ سے رابطہ کرنے والے لوگوں کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے اس ضمن میں اپنی لاعلمی کا اعتراف ضروری تھا۔ ان کی تشویش نے مگر Double Check پر مجبور کردیا۔ قانون سازی کے عمل کو خوب سمجھتے ہوئے انتخابی اصلاحات کا بغور جائزہ لیا تو دریافت ہوا کہ انتخاب میں حصہ لینے کے خواہش مند مسلمان امیدواروں کے لئے اب بھی ضروری ہے کہ عقیدئہ ختم نبوت کا اقرار واظہار کریں۔ اس امر کے اظہار کے لئے تیار ہوئے Declaration کی زبان اگرچہ سادہ تر بنادی گئی ہے۔ متن کی یہ مناسب تبدیلی کسی بھی صورت مسلمان امیدواروں کو عقیدہ ختم نبوت کے اثبات واظہار سے آزاد نہیں کرتی۔
Fake News خطرناک ہی اس لئے ہوتی ہے کہ وہ آپ کے دلوں میں پہلے سے موجود خدشات کو اُبھارتی ہے۔ کوئی فتنہ گر سفاکانہ مہارت سے دلوں میں وسوسے بٹھادے تو جذبات سے مغلوب ہوئے لوگ تحقیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ آگ بھڑک اُٹھی ہوتی ہے جس پر قابو پانا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔
24/7 چینلوں کی بدولت ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے اندھی نفرت اور عقیدت پر مبنی تقسیم کا نشانہ بنا۔ نواز شریف کے بے شمار چاہنے والوں کے مقابلے میں ان سے نفرت میں مبتلا افراد بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ان کی نفرت کو بھڑکانے والے کئی سٹارز کو ٹیلی وژن کی گرائمر سے کھیلنا بھی خوب آتا ہے۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھا فتنہ گر ویسے بھی Ratings کا شیر مانا جاتا ہے۔ اس کے پھیلائے شر سے لوگ پناہ کی دُعائیں مانگتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی اوران کے وزراءکو مگر دُعا کی بجائے دوا سے کام لینا ہوگا۔ اپنی تمام مصروفیات تج کر وزیر اعظم کو وزارتِ قانون کے تجربہ کار ماہرین کے ساتھ بیٹھ کر معاملے کو فوری طورپر اچھی طرح سمجھنا ہوگا۔ اگر تبدیل شدہ متن میں واقعتا کوئی خامی ہے تو اس کا اعتراف کرتے ہوئے تصحیح کے اقدامات اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔
میں ایک گنہگار انسان ہوں۔ شاہد خاقان عباسی سے میری سرسری شناسائی ہے۔ دوستی ہرگز نہیں۔ عمومی شناسائی کے با وجود مجھے بحیثیت رپورٹر خوب علم ہے کہ موجودہ وزیر اعظم ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ امریکی یونیورسٹی میں طویل قیام کے دوران بھی مذہبی فرائض کو باقاعدگی سے ا دا کرتے رہے۔ اپنے والد مرحوم کی نماز جنازہ کی امامت کے لئے ا نہیں کسی عالم سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ فریضہ انہوں نے خود ادا کیا تھا۔
ایسے راسخ العقیدہ شخص کو مذہبی بنیادوں پر بہتان کا نشانہ بنانا ایک ظالمانہ فعل ہے۔ اسے نظرانداز کیا گیا تو فتنہ وفساد سے ہمیں کوئی بھی محفوظ نہیں رکھ پائے گا۔ ہمارے دینِ مبین کی غلط توجیہات سے لوگوں کو اشتعال دلانے کے عادی فسادی انتخابی قوانین میں ترمیم کو اپنی توجیہہ کے مطابق سوشل میڈیا پر جنگل میں لگی آگ کی صورت پھیلاچکے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ پوری ریاستی قوت کے ساتھ اس فتنے کا صرف اور صرف حقائق کی بنیاد پر مقابلہ کیا جائے۔
قوت واختیار سے مالا مال ہماری ہر نوع کی اشرافیہ خلقِ خدا سے عمومی لاتعلقی کے باعث بہتان طرازی پر مبنی فتنہ وفساد کا بروقت ادراک کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔ نیک طینت عوام کے دلوں میں بھڑکائے وسوسوں کو بے بنیاد ثابت کرنے میں یہ اشرافیہ منیرنیازی کی طرح ہمیشہ دیرکردیتی ہے۔
گزشتہ برس ان ہی دنوں میں جب جنرل باجوہ صاحب کے آرمی چیف تعین ہونے کے امکانات کا ذکر چھڑا تو بہت ہی منظم انداز میں ان کے عقیدے کی بابت بدگمانیاں پھیلائی گئیں۔ اس کالم میں مجھ بدنصیب نے ان بدگمانیوں کا برملا تذکرہ کرنے کی ہمت دکھائی۔ مجھے قوی امید تھی کہ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد جنرل باجوہ صاحب ان سازشی عناصر کا سراغ لگاکر عبرت کا نشان بنائیں گے جنہوں نے ان کے عقیدے کے بارے میں بدگمانیاں پھیلائیں۔ جنرل صاحب نے مگر درگزر سے کام لیا۔ سازشیوں کو کھلے دل سے معاف کردیا۔
ایک منتخب حکومت کا سربراہ ہوتے ہوئے شاہدخاقان عباسی ایسی فراخ دلی مگر دکھا ہی نہیں سکتے۔ عوام کی بے پناہ تعداد کے دلوں میں وسوسے بٹھادئیے گئے ہیں۔ ان کا تدارک نہ ہوا تو 1974 یا1977ء جیسی کوئی تحریک کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے جو محض اس حکومت کا خاتمہ ہی نہیں بہت کچھ بھسم کرنے کا باعث بھی ہوسکتی ہے۔