”دنیا لیکن کب چپ رہتی ہے“
نصرت جاوید
ہمارے ایک بہت ہی خوب صورت انگریزی لکھنے والے اور ذاتی حوالوں سے انتہائی شفیق اور طرح دار صحافی، خالد حسن مرحوم کو فیض احمد فیض نے اکثر سمجھایا کہ نام نہاد حق وباطل کے ”معرکوں“ میں ہر وقت بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس ضمن میں کئی بار فیض صاحب نے مجھے بھی وہ چینی کہاوت یاد دلائی تھی جو اصرار کرتی ہے کہ پودے وہی زندہ رہتے ہیں جو تیز ہوا کے ساتھ جھک جایا کرتے ہیں۔ اس کے مقابل تن کرکھڑا ہونے کی حماقت کا ارتکاب نہیں کرتے۔ خالد حسن مرحوم کو فیض صاحب نے چینی کی ایک اور کہاوت بھی سنائی تھی جو مشورہ دیتی ہے کہ وقت بُرا ہو تو دنیا سے کٹ کر سنجیدگی سے کتابوں کا مطالعہ شروع کردواور ایسے دوستوں کی تلاش جاری رکھو جو آپ کے خیرخواہ ہوں۔
مجھے ہرگز علم نہیں کو اسد اللہ خان غالب کو چینی کہاوتوں کا کتنا علم تھا۔ 1857ء کے غدر یا جنگِ آزادی کے دوران مگر وہ اپنے گھر میں محصور رہے۔ خود کو جنگِ آزادی کا مجاہد ثابت کرنے کی ہرگز کوشش نہ کی۔ اگرچہ ذوق کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر نے ان سے اپنی شاعری کی اصلاح طلب کرنا شروع کردی تو غالب اپنے ہی ایک شعر کے بقول دلّی میں ”اتراتے“ پھرا کرتے تھے۔
غالب کی نگاہِ دور بین کو یقینِ کامل تھا کہ پورب کے ”تلنگوں“ پر مشتمل مجاہدینِ آزادی جو فوجی اعتبار سے Command and Control کے تصور سے قطعی نابلدتھے، بھاپ کی قوت کو دریافت کرکے اس سے ریل چلانے والے انگریزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بہادر شاہ ظفر کو انہوں نے زبردستی ”بادشاہی“پر مجبور کیا مگر اس کے کسی ایک حکم پر عملدرآمد کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ دلّی کی گلیوں میں ہر ”تلنگا“ من مانیوں میں مصروف رہا۔ بہادر شاہ ظفر کی چہیتی بیگم زینت محل انگریزوں سے خفیہ روابط استوار کرنے کے بعد انہیں اپنے بیٹے کی ولی عہدی پر آمادہ کرتی رہی۔
بہادر شاہ ظفر کے مشیر خاص حکیم احسن علی خان تھے۔ انگریزوں کے سامنے وہ ”نیویں نیویں“ رہ کر ڈنگ ٹپانے کے مشورے دیتے رہے۔ تلنگوں نے موصوف کو غدار وغیرہ پکارتے ہوئے پھانسی پر لٹکانا چاہا۔ قسمت اچھی تھی۔ بچ رہے۔ انگریزوں نے بالآخر جب دلّی پر دوبارہ قبضہ کرلیا تو بہادر شاہ ظفر کے خلاف بغاوت کے الزام میں چلائے گئے مقدمے میں یہی احسن علی خان استغاثہ کے گواہ نمبر ایک تھے۔ قصہ مختصر وقت، شناسی زندگی آسان بناتی ہے۔ حاسد لوگ مگر اسے موقعہ پرستی کہتے ہیں۔ دنیا لیکن ”کب چپ رہتی ہے۔ کہنے دو جو کہتی ہے“۔ ہمیں فکر ”بیت نہ جائے رات صنم“ کی ہونا چاہیے۔
اُردو ادب کی نسبتاً حالیہ تاریخ میں سعادت حسن منٹو سے زیادہ تخلیقی ذہن کم از کم میں تو نہیں ڈھونڈپایا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بمبئی میں ہندو، مسلم فسادات سے خوفزدہ ہوکر وہ لاہور آئے تو قدرت اللہ شہاب جیسے نیک طینت افسر نے انہیں ایک برف خانہ الاٹ کرنا چاہا۔ منٹو نے اسے رشوت سمجھ کر انکار کردیا۔ لاہور کا امریکی قونصل خانہ اس مایہ نازادیب کو حیلے بہانوں سے Subsidize کرنا چاہتا تھا۔ پہاڑ جیسی انا کے اسیر منٹو نے تلملا کر ”انکل سام کے نام“ خطوط لکھنا شروع کردئیے۔ انجام کیا ہوا۔ خون تھوکتا اس دُنیا سے رخصت ہوا۔ لوگ اسے اب بھی فحش نگار کہتے ہیں۔
منٹو کا شدید مداح ہونے کے باوجود میں ذاتی طورپر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ اپنی بیوی اور بچیوں کی بنیادی ضرورتوں کا خیال کیوں نہ رکھ پایا۔ وہ اکیلا ہوتا اور ساغر صدیقی کی طرح لاہور کی گلیوں میں گھومتے مرکھپ جاتاتو شاید مجھے افسوس نہ ہوتا۔ من میں آئی بات کو ہر صورت لکھنے کی ضد منٹو کی ذاتی ترجیح تھی۔ اس کی بیوی اور بچیاں بھی مگر اس ضد کی قیمت ادا کرتے رہے۔ جبکہ قدرت اللہ شہاب کو عصرِ حاضر کے ولی کے طورپر لیاجاتا ہے حالانکہ وہ خود گورنر جنرل غلام محمد ملک کی نوکری کرتے ہوئے ان میں ولایت کی نشانیاں تلا ش کرتے رہے۔
معافی چاہتا ہوں بات خالد حسن سے شروع ہوئی تھی جنہیں فیض احمد فیض نے حق وباطل کے مابین ہوئے نام نہاد ”معرکوں“ کا حصہ نہ ہونے پر تاسف کے اظہار سے منع کیا تھا۔ میرے کئی دوست انتہائی خلوص سے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ان دنوں پاکستان میں بھی حق وباطل کے معرکے برپا ہیں۔ خلقِ خدا کی اکثریت سیاستدانوں کا احتساب چاہتی ہے۔ نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی سے احتسابی عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس انقلابی عمل کو متعارف اس ملک میں عمران خان صاحب نے کروایا۔ اس میں شدت وتوانائی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر حاضر کے انتہائی متقی، پرہیزگار اور آئین کے آرٹیکل62/63 پر ہر صورت پورا اترتے فرزندِ راولپنڈی کی محنت شاقہ کی بدولت آئی۔ ربّ کا کرم یہ بھی ہوا کہ ہر صورت انصاف مہیا کرنے پر بضد منصف حضرات سپریم کورٹ میں بیٹھے ہیں۔ وہ JIT کی صورت وہ ”ہیرے“ تلاش کرلیتے ہیں جو قوم کی لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگاتے ہیں۔
ایک کالم نگار ہوتے ہوئے میرا فرض ہے کہ احتساب کے اس عمل کا ڈٹ کر ساتھ دوں۔ میں لیکن اس حوالے سے تذبذب میں مبتلا دِکھتا ہوں۔ سوال اٹھتا ہے کہ یہ تذبذب کیوں؟ ذرا منطقی حوالوں سے سوچیں تو شریف خاندان کے احتساب کا تقاضہ نہ صرف آپ کو حق وصداقت کی علامت بناتا ہے بلکہ اس سے Ratings بھی ملتی ہے۔ آپ کی حب الوطنی پر بھی سوالات نہیں اٹھائے جاتے۔ نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کی ماسوا اُن کے جو ابھی تک تحریک انصاف کی متقی صفوں میں جگہ نہیں ڈھونڈ پائے مسلسل مذمت ہرگز گھاٹے کا سودا نہیں۔ اس میں دین بھی ہے اور دُنیا بھی۔ پنجابی والی ”چوپڑیاں“ ہیں اور وہ بھی دو دو۔
روزانہ ارادہ باندھتا ہوں کہ احتسابی عمل کی ستائش میں قصیدے لکھوں۔ انتہائی نیک نیتی کے ساتھ اس کے اظہار کے لئے قلم اٹھاتا ہوں تو ذہن بھٹک جاتا ہے۔ خالد حسن مرحوم یاد آجاتے ہیں تو خیال غالب کی جانب مڑجاتا ہے اور دلّی کے کوچہ بلی ماراں سے بھٹکتا ہوا میں لاہور پہنچ جاتا ہوں جہاں تازہ افسانہ لکھ کر منٹو تانگے پر بیٹھا ناشر کی دُکان کی طرف رواں ہے۔ اسے اپنے افسانے کی جتنی بھی رقم مل جائے وہ اسے بڑھانے پر اصرار نہیں کرتا۔ رائلٹی نام کی شے اسے اور اس کے بچوں کو اس کی موت کے بعد بھی کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ آخری عمر میں دیوانہ ہوکر خون تھوکتا منٹو آج بھی لوگوں کی اکثریت کی نظر میں ایک فحش نگار ہے۔ بُرا انسان ہے۔
میں خود کو اچھا انسان کہلوانا چاہتا ہوں مگر طبیعت منافقت کی طرف مائل نہیں ہوتی۔ وقت شناسی کو موقع پرستی ہی شمار کرتا ہوں۔ بہت شدت سے کسی ایسے روحانی طبیب کی تلاش ہے جو مجھے وقت شناسی کو موقعہ پرستی کا مترادف قرار دینے سے روک سکے۔ کسی حاذق ”بابے“ کا علم آپ کو ہے تو برائے مہربانی اس سے رابطے کا ذریعہ بتائیں اور میری اس درخواست کو SOS Call تصور کیا جائے۔