Bijli, Gas Aur Petrol Bomb - Najam Us Saqib


بجلی، گیس اور پٹرول بم۔ ۔ ۔ عوام کےلئے پریشانی و غم 
نجم الثاقب 

پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زیادہ ہے، 35 فیصدکل آبادی سرے سے ہی بنیادی ضروریات سے قاصرہے۔ 7 کروڑ کے قریب افراد کے پاس زندہ رہنے کی بنیادی سہولیات کی کمی ہے۔ شہریوں نے بجلی، گیس اور پڑول کے نرخوں میں حالیہ اضافہ کو حکومت کاڈاکہ قرار دیا ہے۔ تنخواہ دار اور غریب طبقہ جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس چکا ہے وہ کیسے مہنگائی کے اس نئے طوفان کا مقابلہ کر پائے گا۔ 
حکومت نے اپنی ساری ذمہ داری اور بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے ہر طبقہ فکر کی بنیادی ضروریات زندگی کو مشکل ترین بنا دیا۔ یک دم بجلی، گیس اور پڑولیم لیوزکے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ بجلی کے فی یونٹ میں 3۔ 90 کے اضافہ کر دیا ہے جس کے بعد نئے ٹیرف میں 100 یونٹ استعمال کرنے والوں کو فی یونٹ 7۔ 60 روپے جب کہ 200 یونٹ استعمال کرنے پر 11 روپے، اس طرح 300 یونٹ کے 50۔ 12 روپے اور 700 یونٹ تک کے صارفین کو 13۔ 80 روپے فی یونٹ ادا کرنے ہونگے۔  جو صارفین 700 سے یونٹ استعمال کرے گئے ان کو فی یونٹ 50۔ 50 روپے حکومت کے خزانے میں جمع کرانے ہونگے۔  
 اوگرا نے سونے پر سہوگہ لگاتے ہوئے سوئی گیس کی نرخ میں 65۔ 60 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے اضافے کا نوٹیفکشن جاری کر دیا ہے اس کے بعد گیس کی نئی قیمت21۔ 455 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہو گئی ہے۔ 


عام شہری جو بجلی اور گیس کی قیمتوں کے طوفان سے سمبھل ہی نہیں پائے ہیں وفاقی حکومت کے نئے بوجھ تلے آ گئے پڑولیم لیوز کی قیمتوں میں اضافہ سے حکومت عوامی دشمنی کھل کر سامنے آگئی۔ پڑول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل میں 2 روپے اور مٹی کے تیل میں 4 روپے کا اضافےکر دیا گیا۔ ، جس کے بعد پڑول 73۔ 50 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل 79۔ 40، لائٹ ڈیزل 46 روپے اور مٹی کا تیل جس سے غریب کے گھرکا چولہا جلتا ہے 48 روپے فی لیڑ مہنگا ہو گیا۔ وفاقی حکومت کے ان اقدامات سے موجودہ حکومت کے ترقی و خوشحالی کے تمام راگ، دعوے ودعید سب جھوٹ و فراڈ کا پلندہ ثابت ہوئے ہیں۔ توانائیوں کے وہ سب منصوبے الف لیلی کی افسانی کہانیاں معلوم ہوتے ہیں جن سے عوام کو کوئی استفادہ نہ مل سکا یہ صرف سادہ لوح شہریوں کو سبز باغ دکھانے کے مترادف ہے۔ 
شرح مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوے دار کب تک عوام کو بے وقوف سمجھتے رہیں گئے۔ اپوزیشن ارکان بھی حکومت کے ساتھ برابر کی قصور وار ہیں۔ یہ عوامی ممبران اور نمائندگان منتخب ہونے کے بعد پانچ سال تک سیاہ و سفید کےمالک بن بیٹھتے ہیں جو صرف الیکشن مہم کے دوران ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے کر عوام کے خون و جذبات کو ابھر کر شہریوں کو اپنا ہمدرد اور غم سار ثابت کرکےصرف صرف اقدار، طاقت اورعیش و آرام کے مزے لوٹنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ شہری اب جان گئے کہ یہاں حکومتی اور اپوزیشن کے یہ نمائندے باریاں لینے کے آتے ہیں عام آدمی کے ووٹ سے منتخب ہونے کے بعد حکومت میں جا کرسارے اخراجات کا بوجھ عوام کے کندھوں پر کیوں ڈال دیتے ہیں۔  خدمت خلق، جذبہ حب الوطنی اور فرض اولین کا حلف صرف زبانی جمع خرچ اور دیکھاوے کی حد تک معلوم ہوتا ہے۔ ٹھنڈے ایوانوں میں سکون و آرائش میں مزے لوٹنے والوں کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ عوامی مسائل، پریشانیوں اور تکالیف کو اپنا درسر سمجھ کر اپنی وقار و حیثیت کو گرنے دیں۔  
موجودہ حکومت نے ہر سال کی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف سالانہ 10 فیصد اضافہ کیا جب کہ عوام کے ٹیکس پر چلنےوالے عوامی نمائندگان کی تنخواہوں میں 150 فیصد اضافہ کا حکومتی بل تمام ارکان اسمبلی جن میں حکومت اور اپوزیشن ارکان اسمبلی شامل ہیں متفق طور پر منظور کر لیا۔ حکومتی ارکان کی تنخواہوں کے اضافے کے اس بل نے مہنگائی، بے روزگاری اورافلاس کو کم کرنے کے حکومتی دعووں کی قلعی کھول کر سب کے سامنے رکھ دی۔ 
شہریوں کی نظر میں یہ بل ظلم ِجمہوریت ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 اضافہ کرنے والے حکمرانوں کو اپنی تنخواہوں میں 150 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ کرتے ہوئے شرم نہ آئی کہ جس ریاست کے مزدور، ر یڑھی بان، محنت کش دو ٹائم کھانے کے لیے مجبور ہوں وہاں کے حکمرانوں کیسے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں پہاڑ گنا اضافے کو منظور کر سکتے ہیں۔ 
 ماہرین اقتصادیات اور شماریات کی رائے میں بجلی، گیس اور پڑولیم کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے غریب آدمی کی بنیادی ضرورت زندگی کےحصول میں مشکلات، مصائب اور تکالیف مزید بڑھ جائیں گئیں۔ شہریوں حکومت سے اپیل ہی کر سکتے ہیں کہ حالیہ بجلی، گیس اور پڑولیم کے اضافے کو فل فور واپس لیا جائے۔