ارسلان شہید اور سپہ سالار
ارشاد بھٹی
ماحول سوگوار اور آنکھیں نم ہوچکی تھیں، میں نے عینک اتار کر گود میں رکھی، غیر محسوس طریقے سے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے نمی کو آنسو بننے سے پہلے ہی آ نکھوں میں مَسلا’ عینک پہنی ‘بوجھل دل سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کھڑکی کے باہر جھا نکنے کی کوشش کی، دھندلے شیشوں کی دوسری طرف بلب کی روشنی میں ایک بڑے درخت کی شاخوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دیا، غیر ارادی طور سامنے پڑے قہوے کا کپ اُٹھایا، ٹھنڈے قہوے کو ایک ہی سانس میں پانی کی طرح پیا اور پھر یہ اعصاب شکن خاموشی توڑنے کی کوشش کی ’’اللہ کے فضل سے پاکستان اب بڑی تیزی سے پائیدار امن کی طرف بڑھ رہا ‘‘مگر میری یہ کوشش ناکام ہوئی کیونکہ نہ صرف میری اپنی بھرائی ہوئی آواز نے بھی میرا ساتھ نہ دیا بلکہ میری بات سنی ان سنی کرتے سپہ سالار نے بھی لیفٹیننٹ ارسلان عالم کے ذکر کو آگے بڑھاتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا کہ ’’بلاشبہ شہادت بہت بڑا درجہ، یہ خوش نصیبوں کو ملے مگر لواحقین کیلئے یہ ایک آزمائش اور بہت بڑا صدمہ بھی ‘‘ یہ کہہ کر جنرل قمر جاوید باجوہ خاموش ہوئے اور اس بار میں بھی آنکھوں کی نمی کو آنسوؤں میں ڈھلنے سے نہ روک سکا۔
لیکن یہ سوگوار ماحول بوجھل دل اور یہ بھیگی آنکھیں …یہ کیسے نہ ہوتا …یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ رات کے دوسرے پہر جب آرمی چیف سے ان کا دورہ کابل ڈسکس ہو چکا، جب متوقع اعلیٰ سطحی امریکی Visit پربات ہوچکی، جب افغان بارڈر پر لگتی تار، افغانستان کے کردار اور ہر بھارتی وار زیرِبحث آچکا، جب سی پیک، طالبان اور داعش پر گفتگو ہو چکی، جب جھوٹ، الزام تراشی، افواہ بازی، من گھڑت سازشی تھیوریوں، معاشرے میں دن بدن بڑھتے عدمِ برداشت اور میڈیا کے حوالے سے تجزیہ ہوچکا، جب وہ خانہ کعبہ کے اندر جانے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوش نصیبی قرار دے چکے، جب وہ روضہ ٔ رسول ؐ پر مانگی دعاؤں کے سیاق وسباق کے حوالے سے بات کرچکے، جب وہ سنا چکے کہ سینیٹ وقومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹیوں کے اراکین کو بریفنگ کے دوران جب بتایا گیا کہ ’’پاک فوج سے زیادہ بجٹ تو پاک پولیس کاتو سب حیران رہ گئے ‘ ‘جب وہ مختلف ممالک کی مثالیں دیکر یہ کہہ چکے کہ ’’ فوج کیلئے جتنا ضروری اسلحہ، سیاستدان کیلئے اتنی ہی ضروری Morality اورجب اخلاقی برتری نہ ہو تو پھر جیت بھی ہار ہی اور جب 6 بچوں کے باپ 69 بلوچ رجمنٹ کے اُس نائب صوبیدار محمد ندیم شہید کی بات ہوچکی جو آخری بار چھٹی پر آکر سارے خاندان سے یہ دعا منگوا گیا کہ ’’اللہ مجھے شہاد ت دے‘‘ اور جو بالآخر دوسروں کو بچاتے بچاتے خود شہید ہوگیا، جب یہ سب کچھ ہو چکا تو پھر ذکر چھڑا شہید لیفٹیننٹ ارسلان عالم کا اور جنرل قمرجاوید باجوہ نے یہ کہہ کر کہ ’’ پچھلے دنوں راجگال سے واپسی پر میں نے ڈیوٹی پرموجودارسلان کا گال تھپتھپا کر اس کی خیریت دریافت کی تھی، پھر بات کچھ یوں آگے بڑھائی کہ’’شہید ہونے سے پہلے وہ ہر مورچے پر جا کرخود چیک کر رہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک اور سب جوان الرٹ، حالانکہ یہ اس کے فرائض میں شامل نہیں تھا، ا سی دوران پہلے سے تاک میں بیٹھے بھارتی فوجیوں نے فائرنگ کی اور ماتھے پر گولی لگنے سے وہ شہید ہوا۔
آرمی چیف خاموش ہوئے، صوفے پر پہلو بدلا اور چند لمحوں کیلئے سوچ کر دوبارہ بولے ’ ’میں مری اسکے گھر گیا، سڑک سے ہٹ کر ایک پہاڑی پر واقع گھر تک پہنچنے کیلئے ہمیں ایک ڈیڑھ کلومیٹر پیدل چلنا پڑا، ابھی میں نے کہا ہے کہ اسکے گھر تک سڑک بنائی جائے، یہ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، تینوں بہنیں غیر شادی شدہ ‘صرف ایک کی منگنی ہوئی، اُس روزجب میں ایک سادہ سے گھر کے چھوٹے سے کمرے میں ارسلان کے خاندان کے ساتھ بیٹھا تھاتو اسکی ایک بہن بولی ’’ہمارا چچا کموڈور ریٹائر ہوا، وہ مالی طور پر ہم سے بہتر، اسی لئے بچپن سے ہی ہم تینوں بہنیں اکثر ارسلان کو درمیان میں بیٹھاکر اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر وعدہ لیا کرتیں کہ ’’ بڑے ہو کر تم نے ہمیں چچا سے بڑا گھر بنا کر دینا ہے ‘‘ وہ ہر بار جوش وجذبے کے ساتھ کہتا ’’میں یہ وعدہ پورا کروں گا ‘‘ پھر جب وہ پی ایم اے کاکول سے ٹریننگ مکمل ہو نے کے بعد گھر آیا تو ہم تینوں بہنوں کو سیلوٹ مارکر فوجی اسٹائل میں بولا’’سر وعدے پورے کرنے کا وقت آگیا‘‘ … لیکن… وہ تو… بڑا ہی بے وفا نکلا … وعدہ کیا پورا کرنا تھا، ساتھ ہی چھوڑ گیا، یہ کہہ کر ارسلان کی بہن نے اپنے دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر بچوں کی طرح ہچکیاں لیکر رونا شروع کردیا، یہاں پہنچ کرلمحہ بھر کے توقف کے بعد سپہ سالار نے دکھی لہجے میں کہا ’’اپنی زندگی کے ان صبر آزما لمحوں میں خود پر جبر کرتے ہوئے اپنے آنسو روک کر جس طرح میں نے اپنی اس بیٹی کو تسلی دی اوراس کے آنسو پونچھے، وہ میں ہی جانتا ہوں ‘‘۔
جنرل باجوہ خاموش تھے، بات کرنے کی پہلی کوشش ناکام ہونے کے بعد میں بھی چپ تھا لیکن جب یہ اداسی بھری خاموشی زہر لگنے لگی تومیں نے ایک اور کوشش کی، سر میرا خیال ہے کہ اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کو پہلے ہی پتا چل جاتا ہے کہ ان کا وقت ِ آخر آ پہنچا‘ تبھی تو لیفٹیننٹ ارسلان اپنے دوستوں کو موبائل میسجز میں اس طرف اشارہ کرے اور تبھی صوبیدار ندیم کہے کہ ’’لگتا ہے اللہ نے میری سن لی ‘‘ اس بار میری کوشش کامیاب ہوئی، جنرل باجوہ بولے ’’ہاں شاید ان کو پہلے ہی پتا چل جاتا ہے۔ پھر انہوں نے قدرے اطمینان بھرے انداز میں کہا کہ ’’گو کہ فوج اپنے شہیدوں کے لواحقین کو معاشی طورپر سنبھال لیتی ہے مگر پھر بھی یہ صدمہ ایسا کہ والدین، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کے ساتھ قبر تک جائے ‘‘ آرمی چیف کی بات مکمل ہوئی، میں نے اگلا سوا ل امریکی عہدیداروں کے متوقع دورے کے حوالے سے کیا، موضوع اور ماحول بدلا اور وہ بتانے لگ گئے کہ امریکی حکام کے پچھلے دورے میں اُنہوں نے کیسے اعدادوشمار کی مدد سے امریکیوں کو بتایا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو دیا گیا کتنا کم اور مشہور کیا گیا کتنا زیادہ اور تب تو امریکی وفد کو چپ لگ گئی جب میں نے کہا کہ آپ جو ڈیڑھ ٹریلین ڈالر افغانستان میں خرچ کرچکے اگر یہ ہمارے پاس ہوتا تو اس وقت پورا خطہ پُر امن ہوچکا ہوتا …دوستو! یہ اور اسی طرح کی بہت ساری باتیں کرتے، سنتے اور حتیٰ کہ واپس آتے ہوئے بھی میرے ذہن میں لیفٹیننٹ ارسلا ن کی بہن کی باتیں گونج رہی تھیں، وہ بہن جس کے بھائی نے وطن پر جان قربان کردی، وہ بہن جو ملک کی خاطر اکلوتا بھائی اور اپنی سب خواہشیں قربان کرچکی، اور وہ بہن جو ہم سب کی محسن، یقین جانئے ہم ایسے ہزاروں شہیدوں، ان کے بہن بھائیوں اور خاندانوں کے احسان مند اور مقروض …یہاں یہ بھی سنتے جائیے کہ آرمی پبلک اسکول میں شہید ہونے والے 41 بچے ایسے تھے، جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے، واپسی پرمیں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ جب پاک فوج کا جوان سینے پر گولی کھاتے ہوئے شیعہ، سنی، وہابی، دیو بندی نہیں صرف مسلمان ہوتا ہے اور جب وطن کیلئے لڑتے ہوئے کوئی فوجی لیگی، پی پی، تحریک انصاف یا کسی جماعت کا نہیں صرف پاکستانی ہوتا ہے تو پھر ملک وقوم کے معاملے پر بھی ہم کیوں فرقوں اور گروہوں میں بٹے رہتے ہیں اور فوج کے حوالے سے سوچتے اور بات کرتے ہوئے بھی ہم کیوں صرف اور صرف پاکستانی نہیں بن پاتے …ایسا کیوں نہیں ہوتا اور کیا ایسا ہوسکتا ہے… آپ بھی ایک بار ضرور سوچئے گا۔