یہ سہولت ہمارے بدنصیب سفارتی نمائندے اور وکیل کو میسر نہیں ہو پائی
نصرت جاوید
بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی برسوں سے موجود قضیوں کے حل کے لئے کسی تیسرے فریق یا عالمی ادارے کا ذکر چھڑے تو نئی دہلی بلبلااُٹھتا ہے۔ اس کے سیاسی اور سفارتی نمائندے بہت رعونت کے ساتھ1972ءمیں ہوئے ”شملہ معاہدے“ کا ذکرشروع کردیتے ہیں۔
پاکستان یہ معاہدہ اپنا مشرقی حصہ گنوانے کے بعد قبول کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ یہ طے نہ پاتا تو بھارتی جیلوں میں موجود ہمارے 90 ہزار سے زائد قیدیوںکی رہائی ناممکن نہ سہی بہت تاخیر سے ہوتی۔ بھارت کے قبضے میں گئی موجودہ پاکستان کی کئی ایکڑ زمین بھی ہمیں واپس نہ ملتی۔
اس معاہدے کے ذریعے بھارت نے پاکستان کو یقینا یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ باہمی تنازعات کو صرف دو ملکوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے ہی حل کرنے کی کوئی راہ نکالی جائے گی۔ کسی تیسرے ملک یا ادارے کی اس ضمن میں مداخلت یا ثالثی قبول نہیں۔ انگریزی زبان والے ایک Weak Hand کے ساتھ یہ معاہدہ طے کرتے ہوئے بھی مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سفارتی مہارت کا کمال اسی معاہدے میں بھارت کو یہ بات لکھ کر تسلیم کرنے کے ذریعے دکھایا کہ کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ آسان زبان میں یوں کہہ لیجئے کہ بھارت کے قبضے میں آیا کشمیر اس ملک کا ”اٹوٹ انگ“ نہیں ہے۔ یہ طے ہونا ضروری ہے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔
1972ء سے 1990ء کی دہائی میں داخل ہوتے ہوئے بھارت اور پاکستان کے زمینی حقائق بھی پریشان کن حد تک تبدیل ہوگئے۔ مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے لئے ہوئے انتخابات کے دوران بھارتی سرکار نے بے دریغ دھاندلی کے ذریعے اپنے کٹھ پتلی موقعہ پرستوں کو اقتدار میں بٹھائے رکھنا چاہا۔ مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کا انتخابی عمل اور پرامن جدوجہد سے دل ہمیشہ کے لئے بھرگیا۔ نوجوانوں نے بندوق اٹھالی۔ مسلح جدوجہد کی ہمت نہ رکھنے والے عام شہری بھی جم غفیر کی صورت جمع ہوکر ”آزادی-آزادی“ پکارنے لگے۔ بھارت مگر اپنی بے حس رعونت پر ڈٹا رہا۔
نام نہاد عالمی برادری کے لئے یہ رعونت برداشت کرنا اگرچہ بہت مشکل ہوگیا۔ بل کلنٹن امریکہ کا صدر منتخب ہوا تو اس نے اپنی وزارتِ خارجہ کی ایک متحرک افسر-رابن رافیل- کو کشمیر کا حل ڈھونڈنے کی ذمہ داری دی۔ بھارتی حکومت اس فیصلے پر بہت ناراض ہوئی۔ رابن رافیل کو ”’پاکستان کا ایجنٹ“ قرار دے دیا۔
جنرل مشرف نے 1999ء میں جب کارگل کے ذریعے سری نگر پہنچنے کی کوشش کی تو دُنیا بھر میں سوال یہ اُٹھا کہ دونوں ممالک کی طرف سے ایٹمی دھماکے کئے جانے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی ”حتمی جنگ “گوارا کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ جنرل مشرف بھی کارگل سے اپنی سپاہ آگے نہیں بڑھاپارہے تھے۔ ایک خوفناک Stalemate ہوگیا۔ ذہن شل کردینے والے اس تناﺅ کے دوران 4 جولائی 1999ء کو بالآخر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے امریکی صدر کلنٹن کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لئے مجبور کردیا۔ بھارت نے اس ثالثی کوبلاچوں چرا قبول کیا۔ زمینی حقائق سے پہلو تہی ممکن نہیں رہی تھی۔
جوتناظر میں نے مختصر ترین صورت میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے اسے ذہن میں رکھیں تو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ کلبھوشن یادیوکو پھانسی سے بچانے کے لئے بھارت اب عالمی عدالتِ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوا ہے تو وجہ اس کی سخت پریشانی ہے۔ وہاں پہنچ جانے کے باوجود بھی وہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ بھارت کایہ ”فرزند“ خود کو ”مسلمان“ بناکر بھارتی پاسپورٹ حاصل کرنے اور اس کے ذریعے ایران اور بعدازاں پاکستان آنے پر کیوں مجبور ہوا۔ یہ ایک سوال ہی بھارت کی جگ ہنسائی کے لئے کافی ہے۔ اگرچہ ہمارے اس دعوے کا اثبات بھی کہ کلبھوشن ایک ”معصوم“ شہری نہیں جاسوس تھا جو ہمارے بلوچستان میں اپنے کارندوں کے ذریعے تخریب کاری میں مصروف تھا۔ کلبھوشن کے معاملے پر زچ ہوکر بھارت کا عالمی عدالتِ انصاف پہنچ جانا ٹھوس حوالوں سے ہماری سفارتی جیت ہے۔
پاکستان کے بالکل آزاد،بے باک اور قومی سلامتی کے اپنے تئیں محافظ بنے چند ٹی وی اینکرز اور ”سینئر تجزیہ نگار“ یہ حقیقت مگر دیکھنے کو تیار ہی نہیں۔ ایک بار پھر تواتر کے ساتھ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کا تیسری بار منتخب ہوا وزیر اعظم درحقیقت ”مودی کا یار“ ہے۔ بھارت کا ایک بہت بڑا کاروباری سجن جندل اس کا جگری دوست ہے۔ وہ دونوں مئی کے پہلے ہفتے ہماری ٹھنڈے اور دلکش مناظر والے مری میں ”خفیہ طور“پر ملے۔ ان دونوں نے مل کر یہ طے کیا کہ کلبھوشن کی رہائی عالمی عدالتِ انصاف کی مداخلت کے ذریعے ہی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
یہ کہانی گھڑنے کے بعد دہائی اب یہ سوال اٹھاکر مچائی جارہی ہے کہ پاکستان عالمی عدالتِ انصاف کے روبرو اپنا وکیل بھیجنے کو تیار کیوں ہوا۔ ہمارے لئے ضروری تھا کہ اس عدالت کو صاف لفظوں میں بتادیتے کہ چونکہ کلبھوشن کا معاملہ ہماری”قومی سلامتی اور خودمختاری“ سے متعلق ہے، اس لئے ہم اس ضمن میں کسی عالمی فورم کے روبرووضاحتیں دینا ضروری نہیں سمجھتے۔
یہ دہائی مچاتے ہوئے نجانے ہمیں کیوں یاد نہیں رہا کہ چند ہی ماہ قبل تک مسلسل سینہ کوبی یہ سوال اٹھاکر کی جاری تھی کہ ”مودی کا یار“ کلبھوشن کا معاملہ اقوام متحدہ اور نام نہاد عالمی برادری کے روبروکیوں پیش نہیں کررہا۔ کلبھوشن کے مسلمان نام والے بھارتی پاسپورٹ اور اعترافی بیانات کی مناسب تشہیر کیوں نہیں کی جارہی۔ بھارت نے عالمی عدالتِ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاکر ہمیں خود یہ موقع اب فراہم کردیا ہے تو اس موقع سے فائدہ اٹھاکر کلبھوشن کے ضمن میں پاکستان کا کیس دنیا کے سامنے کیوں نہ لایاجائے۔ ہمارے وکیل اور سفارتی نمائندے نے اس کیس کو بہت متاثر کن انداز میں پیش کیا ہے اگرچہ ان کی بنیادی دلیل یہ ہی رہی کہ عالمی عدالتِ انصاف کواس ضمن میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔
پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں جو نکات اٹھائے ہیں ان کی پذیرائی ہمارے بالکل آزاد،بے باک اور اپنے تئیں قومی سلامتی اور خودمختاری کے محافظ بنے میڈیا میں قطعا نہیں ہوئی۔ بھارتی میڈیا نے البتہ اپنے وکیل اور سفارتی نمائندوں کی جی بھر کے تعریف کی۔ انہیں ”قومی ہیرو“ قرار دیا۔ یہ سہولت ہمارے بدنصیب سفارتی نمائندے اور وکیل کو اپنے ہی میڈیا میں بالکل نصیب نہیں ہوپائی۔ وجہ اس بے اعتنائی کی نواز شریف سے اندھی نفرت ہے۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔
نواز شریف سے مجھے بھی اس ضمن میں ہرگز کوئی ہمدردی نہیں۔ موصوف خلقِ خدا کو بات سمجھانا ضروری ہی نہیں سمجھتے۔ جو من میں آئے کئے چلے جاتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں اشد ضروری تھا کہ عالمی عدالت انصاف کی چٹھی آنے کے بعد بڑے چاﺅ سے بنائی کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا ایک طویل اجلاس ہوتا۔ سیاسی اورعسکری قیادت،اس اجلاس میں وزارتِ خارجہ کی بھرپور معاونت کے ذریعے یہ بات طے کرتی نظر آتی کہ عالمی عدالتِ انصاف کے سامنے کلبھوشن کے حوالے سے پاکستانی مو¿قف بیان کرنا کیوں ضروری ہے۔ چونکہ عالمی عدالت انصاف کے روبرو پاکستانی کیس پیش کرنے کا فیصلہ Institutional Consensus کے ذریعے ہوا نظر نہیں آیا،اس لئے مذکورہ فیصلے کو ”مودی کے یار“ کا فیصلہ ہی سمجھا جائے گا۔
اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے البتہ ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی یہ بات یاد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا کہ لاہور کے ایک معروف و مصروف چوک میں دن دھاڑے دونوجوان پاکستانیوں کو گولی مارکر ہلاک کردینے والے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا کھیل کس نے کیسے رچایا تھا۔