Wo Jo Kehta Hai Wo Nahi Kehta - Shahid Kamal


شاہدؔ کمال 
لکھنؤ انڈیا 

وہ جو کہتا ہے وہ نہیں کہتا 
ایسا ہوتا ہے کیا نہیں ہوتا

آج خود مجھ کو مجھ سے ملنا ہے
آج میں تجھ سے مل نہیں سکتا

پہلے آباد تھے یہ ویرانے
اب یہاں پر کوئی نہیں رہتا

چاند روشن تھے جن منڈیروں پر
اب وہاں پر دِیا نہیں جلتا

اب یہاں قافلے نہیں آتے 
اب وہ دریا یہاں نہیں بہتا

اندر، اندر سے جل رہا ہے وہ
اور باہر دھواں نہیں ہوتا

راس آنے لگی ہے صحبت غم
تیری محفل میں جی نہیں لگتا

شعر کہتے ہو ایسے تم شاہدؔ
شعر ایسے کوئی نہیں کہتا