سب کیلئے ”قابل قبول“ مجوزہ نیا حکم نامہ
نصرت جاوید
ترجیح میری یہ کالم لکھتے وقت ہمیشہ یہ رہی کہ ملکی سیاست کے حوالے سے تازہ ترین واقعات کا تذکرہ ہو۔ گزشتہ دو ہفتوں سے لیکن منیر نیازی کے بیان کئے ”حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ“ والا منظر ہے۔ نواز شریف،اس ملک کے آئین کے مطابق،جس کے تحفظ اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ہمارے ہربااختیار شخص نے قسم اُٹھارکھی ہے،اس ملک کے ”چیف ایگزیکٹو“ ہوا کرتے ہیں۔ ہماری ریاست اپنے حتمی فیصلے ان کے دفتر کے ذریعے لینے کی قانونی طورپر پابند ہے۔ اس دفتر سے لیکن 29 اپریل 2017ء کے دن ایک حکم جاری ہوا۔ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوپایا کہ وہ حکم ریاست کے مختلف اداروں کے لئے جار ی ہوا تھا یا اس کے مخاطب پاکستانی عوام تھے۔ اس حکم کو مگر ریاست ہی کے ایک بہت مضبوط ادارے کی جانب سے ایک ٹویٹ کے ذریعے فوری طورپر Reject کردیا گیا ۔ اس Rejection کے باوجود طارق فاطمی وزارتِ خارجہ کو مشاورت دینے کے منصب سے فارغ کردئیے گئے۔ حکومتی خبریں چھپوانے کے حتمی ذمہ دار راﺅ تحسین کو بھی انگریزی روزنامہ ڈان میں 6اکتوبر2016ءکو چھپی ایک خبر رکوانہ سکنے کی بنا پر اپنے عہدے سے ہٹادیا گیا ۔
Reject ہوئے حکم نامے میںاخباری مالکان کی تنظیم APNS سے بھی رجوع کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ کئی سول اور فوجی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک بھاری بھر کم ٹیم کئی مہینوں کی محنت کے باوجود یہ طے نہیں کر پائی تھی کہ ڈان اخبار تک 6 اکتوبر 2016ء کی صبح چھپ کر متنازعہ ٹھہرائی خبر کیسے پہنچی۔ یہ فرض کرلیا گیا کہ اخباری مالکان کی تنظیم اس سوال کا جواب فراہم کر سکتی ہے۔
APNS کو Reject ہوئے حکم نامے کے ذریعے مجھ ایسے کارکنوں کے لئے ایک ضابطہ کار بھی طے کرنا تھا۔ اس کے ذریعے اس بات کو یقینی بنانا مقصود تھا کہ ”دو ٹکے کے صحافی“ قومی سلامتی جیسے حساس معاملات کے بارے میں یاوہ گوئی سے باز رہیں۔APNS کو بھی میرے یہ کالم لکھنے تک ضابطہ کار طے کرنے والی ذمہ داری ایک باقاعدہ سرکاری چٹھی کے ذریعے رسمی طور پر نہیں سونپی گئی تھی۔ قلم اٹھاتے ہی لہذا ذہن کم از کم میرا تو ماﺅف ہوجاتا ہے۔خوف آتا ہے کہ خیالات کی روانی میں کچھ ایسے کلمات نہ لکھ ڈالوں جو بہت ہی ”حساس“ لوگوں کو ناراض کردیں۔ میری دیانت،صحافتی اہلیت اور اپنے وطن سے محبت کے بارے میں شبہات پیدا ہوں۔
گزشتہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب مگر ایک ”ملاقات“ ہوگئی۔اس ملاقات کی رسمی طور پر تصدیق نہیں ہوئی مگر ”ذرائع“ بتا رہے ہیں کہ اس ملاقات کے بعد فیصلہ ہوا کہ ریاستی اداروں کے مابین غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے ازالے کے لئے ایک نیا حکم نامہ تیار ہو۔اس حکم نامے کو ”سب کے لئے قابلِ قبول“ بنانے کے لئے ہمارے بہت ہی تجربہ کار اور متحرک وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان صاحب وزیر اعظم سے تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتیں کررہے ہیں۔ بعض اوقات وہ دن میں ایک بار نہیں دو سے زیادہ مرتبہ وزیراعظم کے دفتر گئے بھی بتائے جاتے ہیں۔ ”سب کے لئے قابلِ قبول“ امرت دھارا نوعیت کا حکم نامہ بھی لیکن میرے اس کالم کے لکھنے تک تیار نہیں ہوپایا تھا۔شاید آج دوپہر یا شام تک جاری کردیا جائے۔ مجھے یہ کالم مگر منگل کی صبح لکھ کر اپنے دفتر پہنچانا ہے۔
دریں اثناءپاکستان کی تمام ٹی وی نشریات کو ”ریگولیٹ“ کرنے والے ایک بہت ہی طاقت ور دِکھتے ادارے PEMRA کے چیئرمین ابصار عالم نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کردیا ہے۔ وہاں موصوف نے ایک گفتگو کی ریکارڈنگ بھی سنوائی۔ اس گفتگو میں کوئی نامعلوم شخص پیمرا کے کسی ”بااختیار افسر“ کو اس کے دئے حکم کی فوری تعمیل کے لئے ”ورنہ ....“ کی دھمکیوں کے ساتھ اصرار کر رہا ہے۔
اس ملک کے تمام چینلز کے ذریعے نشر ہونے والے مواد کے حتمی نگران -ابصار عالم-کو اپنی جان خطرے میں گھری محسوس ہو رہی ہے۔ چیئرمین پیمرا نے اپنے تحفظ کے لئے وزیر اعظم، چیف جسٹس اور چیف آف آرمی سٹاف سے برسرعام فریاد بھی کردی ہے۔ وزیراعظم کے دفتر سے لے کر چیئرمین پیمرا تک اس ملک کے سب ادارے، سوائے ایک ادارے کے بے وقعت، بے توقیر اور خود کو بچانے کی کوششوں میں مبتلا نظر آ رہے ہیں۔
ایسے ماحول میں اس سے بڑی منافقت اورکوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ میں اس گماں میں مبتلا رہوں کہ کاروبارِ حکومت آئینی طور پر اسلامی جمہوریہ کہلاتے پاکستان میں سنجیدگی اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیا جا رہا ہے۔
لاہور کی گلیوں میں افراتفری کے ماحول میں گھبراکر لوگ پریشان ہوکر پوچھتے تھے کہ ”کدی ماں نوں ماسی کہیے“ یعنی کس کی اماں کو میں خالہ پکاروں۔ مجھے بھی ان دنوں اپنی ایٹمی قوت سے مالا مال ریاست کی ”خالہ“ کا سراغ نہیں مل رہا۔ دل مچل رہا ہے کہ 1857ء کے دلی دربار کے بارے میں جو کتابیں جمع کر رکھی ہیں انہیں الماریوں سے نکال کر بستر کے سرہانے رکھ لیا جائے۔
میرٹھ کی چھاﺅنی سے باغی سپاہی دلی پہنچے تو ان کا سپہ سالار نجف خان اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر بہادر شاہ ظفر کے دربار میں درآیا۔ اس نے گھوڑے سے اُترکر بادشاہ کی روایتی تعظیم کا تردد تک نہ کیا۔ گھوڑے کی کمر پر بیٹھے بیٹھے ہی بہادر شاہ ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”او بڈھوا ہم نے تجھے ہندوستان کا بادسا (بادشاہ) بنا دیا“ اور تلوار لہراتا دلی کے بازاروں کی طرف نکل گیا۔
مجھے کاش کوئی صرف یہ بتا دے کہ نواز شریف کو آئین کے عین مطابق چلنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ”چیف ایگزیکٹو“ کس نے بنایا تھا۔ کم از کم یہ بات معلوم ہوجائے تو قلم چلنے کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔اس وقت تک اس کالم کے لئے ”نوائے وقت“ کے صفحہ2 پر مخصوص ہوئی جگہ کو کورا کاغذ ہی تصور کیا جائے۔