شکر ونڈاں
FBR کی پھرتیاں، حمام میں سب۔۔۔۔۔
زاہداکرام
میرے دوست کی ایک عام سی مٹھائی کی دکان ہے بیچارا سارا دن مٹھائی کم اور مکھیاں زیادہ مارتا ہے، کل مورخہ ۲۱ ،اپریل کو اس نے فون کیا بھائی آج تو کمال ہوگیا ،میں نے پوچھا کیا ہوا کہنے لگا آج تو بس وارے نیارے ہوگئے ایک ہفتہ کی پرانی مٹھائی بھی بک گئی اور اتنا آرڈر ملا ہے کہ بس پوچھو مت ،میں نے کہا چلو اللہ کا شکر ادا کرو ، اورہماری عدالت عظمیٰ (مس عظمیٰ کا نہیں) کاجنہوں نے ایسا تاریخی اور عمدہ فیصلہ سنایا ہے کہ سب فریق اپنی اپنی جگہ خوش اور مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں، اور دعا کرو یہ گھڑی بار بار آئے، کیونکہ ابھی تو ۲۵۹ پانامی کرپٹ پاکستانی ہیں جن کے فیصلے کی امید ہے کہ جس پر دنیا قائم ہے،اور ہر فریق مٹھائیاں بانٹے گا، پھر تو چاندی ہی چاندی، اور سونے پر سہاگہ جب بہاماس لیکس کے ۱۵۰ بہامی کرپٹ بھی دانتوں تلے آئیں گے، اب یہ مت پوچھیں کس کے دانتوں تلے!!، ہو سکتا ہے ان کے ساتھ معاملہ کچھ مختلف ہو، لیکن خبر ہے کہ ایف بی آر نے پانامہ اور بہاماس لیکس میں سامنے آنے والوں ناموں کی بنیاد پر ۳۴۴، افراد کو ٹیکس نوٹسز جاری کردیے ہیں، جن میں سے ۶۸ نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف کیا اور ۵۳ نے انکار جبکہ ۱۵ ،افراد چل بسے،۳۱ ،افراد پاکستان کے غیر رہایشی ہیں جن میں حسن اور حسین نواز بھی ہیں (سوال یہ اٹھتا ہے کیا وہ جے آئی ٹی کے آگے جوابدہ ہونگے؟)، ۶۷ ،افراد کا ابھی تک پتہ نہیں لگایا جاسکا،۸۱ لوگوں نے اپنے خلاف کاروائیوں میں التوا مانگا ہے ،۱۸۴، افراد نان فائلر ہیں چہ جائیکہ وہ ملک کی بڑی اور معروف کمپنیوں کے ڈایریکٹر ز ہیں (کالم کی طوالت کے باعث سب کے نام شائع نہیں کیے جاسکتے ،قارئین خود Google میں ICIJ تلاش کرسکتے ہیں سب کی لسٹ مل جائے گی)،ایف بی آر نے انکم ٹیکس آرڈیننس ۲۰۰۱ء کی دفعہ ۱۷۶ کے تحت نادرا سے رسمی معاونت مانگی تھی ،جس کے تحت یہ سب کاروائی عمل میں آئی لیکن ابھی تک نادرا بھی ۱۰۸ ،افراد کے ناموں اور پتوں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کیا ان پانامی اور بہامی کرپٹ پاکستانیوں سے ٹیکس تک ہی محدود بات ہوگی ،ان سے اس دولت کی منی ٹریل نہیں مانگی جائے گی کیا؟ کیا انہیں عدالت نہی تو کسی اور ادارے کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جائے گا؟
پاکستان میں بسنے والے ہجوم کیلئے شاید یہ سوال اہم نہ ہو مگر میرے لیے تو وبال جان ہے ،کہ لندن ،امریکا،کینڈا،اسپین پیرس،ملایئشیا،دبئی ،استنبول اورفرانس جہاں کہیں بھی اجازت ہو،ان سینکڑوں پاکستانیوں جن میں چوٹی کے سیاستدان بزنس مین،صنعتکار،زمینداراور جرنیل شامل ہیں،جو رہتے اور کام پاکستان میں کرتے تھے یا ہوں مگر ان کی جائیدادیں باہر ہوں ، چھٹیاں وہ وہاں منایءں،انکے بچے تعلیم باہر حاصل کریں،کسی بھی پارٹی کے دس بیس چیدہ چیدہ افراد کا ڈیٹا نکال لیں ،آپکو ان کے فلیٹس ،کاروباراور بینک بیلنس مل جایءں گے،آپ پاکستان کے دس بڑے مدارس اور علماء کو بھی چیک کرلیں ،آ پ کوئی سے دس،پچاس ریٹائرڈاعلی پوزیشن لوگوں کو بھی کسوٹی پر رکھ لیں ،آپ کو ان کی جائیدادوں کا ’کھرا ‘باہر نہیں تو پاکستان میں ضرور مل جائے گا ،اس دولت کی منی ٹریل بھی ،کوئی سب کا حساب کیوں نہیں لیتا، فرشتوں کا (سوال اٹھتا ہے کہ فرشتے کہاں سے آئیں گے؟) ایک کمیشن بنا کر ملک کے تمام با اثر لوگوں کا کچا چٹھا کیوں نہیں کھولتا، فرشتوں کانہیں تو روبورٹس لے آیءں جو جذبات سے عاری ہوتے ہیں ،ان سے احتساب کیوں نہیں کرواتے ،کوئی کرپشن کے بدبودار تالاب کی مکمل صفائی کیوں نہیں کرتا، رہی بات ’’کوئی‘‘ یہ بھی سوالیہ نشان ہے کیونکہ حمام میں سب ۔۔۔۔۔۔،ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں تقریباََ ۱۲، ارب روپے روزانہ کی بنیاد پر کرپشن ہورہی ہے ،کرپشن ہماری رگ رگ میں ودیعت کرچکی ہے ،کرپشن صرف رشوت کا نام ہی نہیں ،معاشرے میں رائج باقی برائیاں،جیسے ’ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، سفارش ، اقرباء پروی، قرضہ معافی،مراعات وغیرہ سب کرپشن کی اقسام ہیں ،یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نیک لوگوں اور نیکی اور فلاحی کاموں کیلئے بھی لوگوں کی وافر تعداد موجود ہے،یہ بھی سچ ہے کی مسلمانوں کا یہ ہجوم کسی بھی آفت یا مشکل میں صدقہ ، خیرات اور چندے کے انبار لگا دیتا ہے،کشکول توڑنے کی بات آئے تو روپے پیسے کے علاوہ سونے چاندی کے ڈھیر لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا یہ الگ بات ہے کی یہ ڈھیر سیاسی اشرافیہ کی تجوریوں میں دفن ہوجاتاہے،یا کئی سالوں بعدعدالتی حکم ہوتا ہے کہ سخیوں کے پیسے واپس کیے جائیں ،سوال پیدا ہوتا ہے کس طرح اور کن کو،لوگوں کو تو اب یاد بھی نہیں اور کس طریقہ کار کے تحت واپس کرے؟ کیوں نہ حکومت اس رقم کو پاکستان کے کسی ڈیم پر لگا دے یا کم از کم کوئی ہاسپٹل بنا دے،واپسی کا نا ممکن مذاق تو نہ کرے۔
کاش اگر ہمارے معزز جج صاحب ’Godfather‘ کا حوالہ دینے کی بجائے حضرت علیؓ کے قول’’ دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی کے پاس دولت کے انبار دیکھو تو سمجھ لو کی کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہے‘‘ بہرکیف یہ بحث اتنی ضروری نہیں نتیجہ بالأخر یہی ہے کی اتنی دولت کیسے آئی،ضرور اس کے پیچھے بے شمار حق تلفیاں ہیں،دوسری بات فیصلے کی تاریخ کا انتخاب ۲۱ اپریل ’علامہ اقبالؒ کی تاریخ وفات کا دن ،شاید عدالت یہ پیغام بھی دینا چاہتی ہو کہ آج پاکستان کی جمہوریت اور اسلام کو بھی دفن کردو،واللہ عالم، اتفاق ضروری نہیں ،اب یہ معاملہ ۲ ماہ کیلئے ٹل گیا ہے بلکہ میں تو کہوں گا کی ٹل ہی گیا ہے ،کیونکہ پہلے کون سےJIT نے درست اور حق کے فیصلے کیے ہیں، آج پاکستان میں کرپشن سے بڑی خامیاں جھوٹ اور غلطی کو غلطی مان کر اسے درست کرنے کی بجائے اس کو درست ہونے کا جواز پیش کرنا اور معمولی سی کامیابی پر یہ سمجھ بیٹھناکہ پاکستان تبدیل ہوچکا ہے اور خوشیاں منانا اور مٹھائیاں بانٹنا ہیں ،جب تک پاکستانی ھجوم چھوٹے چھوٹے مفادات چاہے وہ ذاتی قسم کے کیوں نہ ہوں سے باہر نہیں نکلے گا پاکستان میں تبدیلی ناممکن ہے ،اور شکر بانٹنے کی نوبت آتی رہے گی، اس باردیکھیں کون شکر ونڈے ۔