Sarkari Jameaat Mein Parwan Charhti Firqa Wariat - Amjad Abbas


سرکاری جامعات میں پروان چڑھتی فرقہ واریت 
امجد عباس 

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جیسے مساجد اور مذہبی مدارس مسلکی طور پر تقسیم ہیں، ایسے ہی وطنِ عزیز پاکستان میں یونیورسٹیاں بھی فرقہ وارانہ پہچان کی حامل بن چکی ہیں۔
نجی شعبہ کی جامعات کے علاوہ، سرکاری جامعات کے شعبہ علومِ اسلامی اور عربی کا جائزہ لینے سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہاں اِن شعبوں کے ذمہ داران کا تعلق کس مسلک سے ہے۔
چند حکومتی جامعات کے شعبہ علوم اسلامی اور عربی کا جائزہ لیجیے، آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ مخصوص مسلک کے افراد کو ہی بطور اُستاد رکھا جارہا ہے۔ ہمارے ایک فاضل دوست، جنھوں نے ایک حکومتی جامعہ سے علومِ اسلامی میں ڈاکٹریٹ کی، جامعہ میں بھرتیوں کے کھلنے پر اپلائی کیا تو ایک دوسری جامعہ کے شعبہ علوم اسلامی کے ڈین نے اُنھیں کہا کہ وہاں فُلاں مسلک کے لوگ ہی قبول کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست، جنھوں نے مدرسہ سے تعلیم مکمل کی تھی، کہنے لگے کہ فُلاں سرکاری جامعہ میں داخلہ لینا ہے، سربراہِ شعبہ علومِ اسلامی ہمارے مسلک کے ہیں، وہ ہمارے مدارس کے طلاب کو گرمجوشی سے خوش آمدید کہا کرتے اور ترجیحی بنیادوں پر داخلہ دیتے ہیں۔
لاہور کی ایک تاریخی حکومتی جامعہ میں علومِ اسلامی کے شعبے کے مجلے میں مضمون تک چھپوانے کے لیے مخصوص مسلک کے لوگوں کی سفارش کروانا پڑتی ہے۔ اب تو حکومتی جامعات میں شعبہ علوم اسلامی اور عربی کے زیرِ اہتمام ہونے والے سیمیناروں میں مخصوص مسالک کے فرقہ پرست علماء کرام ہی مدعو کیے جاتے ہیں۔ بُک فیئر میں مخصوص فرقہ پرست ناشران کو ہی بُلایا جاتا ہے۔
پہلے کہا جاتا تھا کہ مذہبی مدارس کے فضلاء کو زندگی کے سبھی شعبوں میں آنا چاہیے۔ اِس سے اُن کی فکر میں وسعت آئے گی، لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، وہ زندگی کے سبھی شعبوں میں فرقہ واریت ہی پھیلاتے پائے جاتے ہیں۔ چند حکومتی جامعات میں مدارس سے پڑھ کر آنے والے اساتذہ سے ملنے کا موقع ملا، اُن کے انداز سے لگا کہ وہ مدرسہ ہی میں پڑھا رہے ہیں، اُن کی ساری کوشش اپنے مسلک کی ترویج اور اہلِ مسلک کو جامعہ میں بھرتی کروانا ہے۔ وہ اپنے ہی مسلک کی کتب کی تشہیر فرماتے ہیں۔
اگر فرقہ واریت، تعصب، انتہاء پسندی سے جان چھڑانی ہے تو پہلے سرکاری جامعات اور کالجوں، سکولوں میں فرقہ پرست عناصر سے جان چھڑانا ہوگی۔ کسی بھی جامعہ کے شعہ علومِ اسلامی کے مسلکی رجحان کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں، آپ اساتذہ کی اکثریت کا مسلکی رجحان دیکھیے، وہاں ہونے والے سیمیناروں میں صدارت دیکھیے، شعبہ علومِ اسلامی کے مجلے کو دیکھیے، آپ باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہاں علومِ اسلامی کا شعبہ، کس مسلک کا تبلیغی مرکز ہے۔ اہلِ علم آگاہ ہیں کہ کون سی حکومتی جامعہ میں کون سے مسلک کو نوازا جارہا ہے۔ 
نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مسلکی مدارس اور حکومتی یونیورسٹیوں کے علومِ اسلامی اور عربی کے شعبوں میں خطِ امتیاز کھینچنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ 
اربابِ اختیار کو اس صورت حال کا جائزہ لینا ہوگا۔