قلم لگام
زاہداکرام
جو دیکھتا ہوں وہی لکھنے کا عادی ہوں میں
اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
آج عالمی دن یوم صحافت تھا، اور پاکستان میں صحافی آزادی صحافت کا رونا رو رہا ہے چونکہ حکمران وقت کو قلم کی آزادی نہیں بھاتی ،عام الزبان ہوتا ہے ،کہ’’ زبان کو لگام دو‘‘،ورنہ ۔۔۔ ۔۔۔یہ قلم لگام کیا ہے؟ بھلا ایک قلم ہی تو ہے جس سے کمزور جہاد کرتا ہے کیونکہ وہ میدان جنگ میں جانے کی سکت نہیں رکھتا،بھلا ا س مجاہد کو اس کے مجاہدے سے روکنا کہاں کی بہادری ہے، آج کی صحافت کو جو آزادی حاصل ہوئی ہے ، وہ کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی بلکہ صحافیوں کی طویل اور شب وروز کی محنت اور قربانیوں کے صلہ میں نصیب ہوئی، قیام پاکستان کے بعد ہی اس ملک میں دو تنظیمیں ایسی تھیں جنہوں نے رائے کے اظہار اور اجتماع کی آزادی کی بھرپور جدوجہد کی ،یہ تھیں صحافیوں اور وکلاء کی تنظیمیں (جب تک ان میں پھوٹ نہیں پڑی تھی)، جمہوری آزادیوں کیلئے شروع ہونے والی ہر تحریک میں سب سے آگے۔ اب یہ کیا کہ اپنی نااہلی چھپانے کیلئے APNS کو حکم نامہ جاری کرنا ، کہ وہ کو ئی ضابطہ کار طے کرے رپورٹروں اور کالم نگاروں کیلئے ،یعنی ان کے قلم کو لگام دینے کیلئے ،کیا پہلے سے لاگو ضابطے کافی نہیں تھے یا اس طرح وہ زمانہ واپس لانے کی کوشش کی جارہی ہے جب اخباروں والوں سے کہا جاتا تھا کہ یہ خبر چھاپو یہ نہ چھاپو؟ اچھا رپورٹر تو وہ ہوتا ہے جو حق سچ اور اندر کی خبر عوام کے سامنے لائے،اگر اسی طرح پابندیاں لگانے کی کوشش کی گئی تو پھر تفتیشی رپورٹنگ کا اللہ ہی حافظ بلکہ صحافت کا بھی۔ جس خبر کو بنیاد بنا کر اس طرح کا ایکشن لینے کی کوشش کی گئی ہے ، اس کے لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خبر لیک کرنے والے کو پکڑا جاتا نہ کہ خبر چھاپنے والے اور خبر نہ رکوانے والوں کولیکن ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔
میرے ایک کالمسٹ دوست نے ایک جانے مانے سیاسی چیمہ صاحب اور وڑایچ صاحب کی ملاقات کی خبر چھاپ دی ،(خبر کی صداقت یا جھوٹ کا تو مجھے علم نہیں ہوسکا ) جس پر چیمہ صاحب نے بغیر کسی لحاظ سے صحافی بھائی کی فون پر عزت افزائی سیاسی شستہ زبان میں کی، بس کسر مکوں کی رہ گئی تھی سامنے ہوتے تو شاید۔۔۔ جو وہ اسمبلیوں میں کرتے ہیں، یہ کہنے سے میری مراد یہ ہے کی ایک عام صحافی کی کیا مجال ہوسکتی ہے کی وہ بغیر اجازت کسی بھی سیاسی شریف کی کوئی خبر لگا سکے چہ جائیکہ اتنی بڑی خبر وہ بھی اپنی مرضی سے،میں ہمیشہ اپنی قلم کو سادہ سلیس اور عام فہم اردو لکھنے کی لگام ڈالے رکھتا ہوں جو میرے قارئین کو عام فہم لگے اور بات ان کے دل و دماغ میں اترے ،میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ لکھنوی یا دھلوی اردو سے اجتناب کروں اور روز مرہ بولے جانے والی زبان استعمال کروں، میری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ بریکنک نیوزیا ہاٹ نیوز سے اجتناب کروں،آجکل صحافت بھی کوئیک اور ڈسپوزبل ہے یعنی ہزاروں خبریں شوسل میڈیا Facebook,Whatsapp, and Twitter پر گردش کرتی ہیں ،اخباریں بھی E-Paper کی شکل میں کمپیوٹر اور موبایل پر نمودار ہوتی اور غائب ہوجاتی ہیں جس میں میرے جیسے نئے قلم کار بھی اپنا لچ تلتے ہیں اور نوک قلم توڑتے ہیں، یہ خبریں بھی تھوڑے وقت بعد ذہن سے محو ہوجاتی ہیں،ورنہ تو اخباریں جن میں واقعتاََ سموسے اور پکوڑے بکتے ہیں(کون ردی سنبھالتا پھرے)،ان حالات میں اگر اس طرح کی پابندیاں لگنے لگی تو پھر خدا ہی حافظ،پچھلے ۷۰ برسوں میں ہر ہر حاکم نے اپنے طور پر صحافت کا گلا دبانے اور قلم کو لگامیں ڈالنے کی کوشس ضرور کیں،تبھی تو ہر صحافی چیخ چیخ کر پکار رہا ہے سوائے چند ایک حکومتی صحافیوں کے باقی سب کی زبان،،،،،،
بولوں اگر میں جھوٹ تو مر جائے گا ضمیر
کہہ دوں اگر میں سچ تو مجھے مار دیں گے لوگ !!!!