پارسا اور فاحشہ
معاذ صدیقی
اس نے دعوت دی
میں نے قبول کی
وہ داعی ہو کے پارسا
میں مدعو پھر بھی فاحشہ
جسم میرا ہی تھا
آنکھ تیری تھی ظالم
تو ناظر رہا اور پارسا
میں حاضر ہوئی سو فاحشہ
محفل سجائی تو نے
جلوہ تھا میرا ہی مگر
تو میزباں بھی پارسا
میں مہماں ہو کر فاحشہ
تو چاہتا تھا جو جو
میں کرتی رہی وہ وہ
تو چاہ کر بھی پارسا
میں کر کے ہوئی فاحشہ
تو خریدنے پارسائی
آں پڑا بستر پہ میرے
تو خریدار ہو کے پارسا
تیرا مال میں، میں فاحشہ
تیری امارت کے بل پہ
ساری شہرت میری تھی
تو امیر رہ کے پارسا
میں مشہور ہوئی، سو فاحشہ
میری حدت کو پا کر
تو پگھلتا رہا کب تک
تو ٹپک ٹپک کے پارسا
میں جلتی رہی میں فاحشہ
تو زیر لباس شہوت میں رہا
میں بے لباس بے حس سی رہی
تو شہوت میں رہ کہ پارسا
میں برہنہ سو فاحشہ
تو باریش تھا میرے ساتھ تھا
میں بے پردہ تھی تیرے ساتھ تھی
تو مفتی تھا سو تھا پارسا
میں قندیل تھی، رہی فاحشہ
میں بھی آبرو تھی بے پاپ تھی
میں نے بھوک دیکھی تھی باپ کی
مجھے چاہ تھی اک بھائی کی
جو خریدے ماں کی دوائی بھی
مرا بھائی بھی اک مان تھا
تھا نشے میں دھت میری جان تھا
میری جان لے گیا پارسا
جو قتل ہوئی وہ میں فاحشہ