پاک افغان چپقلش کے پس پردہ محرک کون؟
ایمان ملک
پاک افغان تعلقات ماضی میں بھی دہشت گردی جیسے مشترکہ مسئلے سے نمٹنے کے معاملے پر ہمیشہ اختلافات کے باعث کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ مگر اب تو بات شاید خطرناک نہج پر پہنچ چکی ہے جس کی مثال حالیہ چند ماہ میں دوںوں ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی تلخی ہے۔ جس کو کم کرنے کے لئے، افغان حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی بھرپور مدد کا یقین دلانے کے لئے پاکستان کے فوجی اور پالیمانی وفود نے حالیہ دنوں میں افغانستان کے دورے بھی کیئے۔ مگر پھر بھی بدقسمتی سےسانحہ چمن جیسے افسوسناک واقعات رونما ہو رہے ہیں جو بلا شبہ دونوں ممالک کے تعلاقات پر منفی اثرات مرتب کرنےکا موجب بنتے ہیں۔ اور بظاہر ایسے مواقعوں کا بھرپور فائدہ افغان حکومت میں موجود چند اینٹی پاکستان عناصر کو ہوتا ہے جو اسے پاکستان مخالف جذبات ابھارنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستانی فوج نے افغان حکام کو پیشگی اطلاع 28 اپریل کو دے دی تھی کہ وہ چمن سرحد کے قریب دو دیہاتوں ( کلی لقمان اور کلی جہانگیر ) میں مردم شماری کے لئے جارہے ہیں۔ مگر پھر بھی 5 مئی کو افغان فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی اور نتیجتاً پاکستان کے بارہ افراد جاں بحق ہوئے۔ جس کے بعد سے بابِ دوستی (چمن باڈر) پر دونوں ممالک کے مابین آمدورفت مکل طور پر بند ہے۔ اور اس صورتحال سے دو ہزار افراد متاثر بتائے جارہے ہیں نیز لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ کلی لقمان اور کلی جہانگیر منقسم دیہات ہیں جو کہ سرحد کے دونوں جانب واقع ہیں مگر افغان حکام ان دونوں گاؤں کوافغانستان کا حصہ مانتےہیں۔ چونکہ پاک افغان سرحد اٹھارہ سو ترانوے میں برطانوی راج نے افغانستان کے بادشاہ کے ساتھ ایک معائدے کے نتیجے میں (ڈیورنڈ لائن کے نام) سے بنائی تھی، مگر تب اس کے مطابق زمین پر حد بندی نہیں کی گئی جس سے ان سرحدی علاقوں میں کئی مقامات پر تنازعات اٹھے۔ اورجس کی مثال قبائلی علاقےہیں جہاں شمالی وزیرستان کے سرحدی مقام غلام خان اور مہمند ایجنسی میں تقریباً ساٹھ میل طویل سرحد پر ماضی میں بھی سکیورٹی چوکیاں بنانے کے مسئلہ پر دونوں ممالک کے مابین جھڑپیں ہوتی رہیں ہیں۔
ماہرین و مبصرین کے مطابق پاک افغان تنازعات کے پسِ پردہ حائل ایک بڑی وجہ اس سرحدی علاقے میں مقامی قبائل کی غیرقانونی تجارت کے متاثر ہونے کے خدشات کے علاوہ دونوں ممالک کے مابین سرحد کی حد بندی بھی ہے۔
یاد رہے کہ ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی قانون کے تحت بالکل ایک قانونی باڈر ہے جسے بسا اوقات ایک متنازعہ باڈر بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگرچہ اس باڈر پر مختلف پشتون اور دیگر قبائل کو حقِ آسائش دیا گیا ہے جو اس ڈیورنڈ لائن کی وجہ سے منقسم ہوئے تھے۔ مگر ان مخصوص قبائل کے علاوہ بھی غیر ریاستی عناصر ماضی میں پاکستان میں شر انگیزی کی نیت سے داخل ہوتے رہے ہیں۔ جس کے باعث پاکستان افغان حکام سے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتا رہا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اگر چاہے تو پاک افغان باڈر پر امریکہ اور مکسیکو باڈر کی مثال کی پیروی کرتے ہوئےافغانستان کی رضامندی کے بنا بھی باڑ لگا سکتا ہے، (جو کہ یکطرفہ طور پر امریکہ کی جانب سے بین الاقاومی قانون سکیور فینس ایکٹ 2006ء کے تحت لگائی گئی تھی)۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ جہاں پوری دنیا افغانستان میں مقامی افغانیوں کی زیر قیادت امن کے فوری قیام کی خواہاں ہے وہیں بھارت کے ارادے کچھ اور ہی ہیں وہ افغانستان کو پورے خطے بالخصوص پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کرنیوالی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے جو صرف کمزور افغان حکومت اور اس کی کم تربیت یافتہ سیکورٹی فورسز کے ذریعےسے ہی ممکن ہے۔
علاوہ ازیں، ایک طرف تو افغان حکومت پاکستان کے ساتھ نہایت ہی معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے تو دوسری طرف وہ پاکستان سے افغان مہاجرین کو مزید چار سال جھیلنے کے لئے بھی درخواست کر رہی ہے۔ لیکن قابل غور بات تو یہ ہے اگر افغانستان بھارت کو اپنا اتنا ہی قریبی ا تحادی و دوست سمجھتا ہے تو وہ بھارت سے درخواست کیوں نہیں کرتا کہ وہ اسکے مہاجرین کو پناہ دے۔
بیشک موجودہ افغان حکومت کو افغانستان کے امن و استحکام سے کوئی سروکار نظر نہیں آتی۔ جسکی مثال گزشتہ ڈیرھ دہائی کے دوران افغانستان میں بہت بڑئے پیمانے پر کی جانے والی کرپشن اور بد عنوانی ہے۔ جسکا سب سے بڑا ثبوت سنہ 2010ء میں کابل بینک سے ایک بلین ڈالر کا غائب ہونا ہے جسکا الزام اس دور کےافغان صدر پر عائد کیا گیا تھا۔
اگر ہم افغان سکیورٹی فورسز کی کارکردگی کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ چودہ سالوں کے دوران امریکہ کی بھاری امداد (68 بلین امریکی ڈالر) کے باجود افغان سکیورٹی فورسز میں اتنا دم نہیں کہ وہ اپنے بل بوتے پراپنے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنا سکیں۔ افغان سکیورٹی فورسز کے قومی فوج بننے کی راہ میں حائل ایک بڑا عامل قومیت بھی ہے جس میں 70٪ تاجک ہیں۔ اور یاد رہے کہ افغان فورسز میں پٹھانوں کی تعداد آبادی کے تناسب کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
ایک اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے افغانستان کے ساتھ ایک معاون و مددگار کے طور پر کھڑا رہا ہے چاہے وہ سویت یونین کی افغانستان میں دخل اندازی و بمباری ہو یا پھر نائن الیون کے پس منظر میں امریکہ کا افغانستان پر حملہ ہو۔ پاکستان نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی معیشت سے بالکل قطع نظر اپنے دروازے افغان مہاجرین کے لئے کھلے رکھے۔ اور دونوں افغان حکومتوں ( کرزائی حکومت اور اشرف غنی حکومت) کی بھی بلا مشروط تائید و حمایت جاری رکھی۔ مگر اس سب کے برعکس افغانستان پاکستان کے تمام احسانات بھلا کر بھارت کی گود میں جا بیٹھا اور امریکی اور بھارتی شہ پر پاکستان سے الجھنے لگا۔
اس سب سے تو یہی لگتا ہے کہ افغانستان کے پالیسی سازوں کو اس حقیقت کا قطعاًادراک نہیں کہ افغانستان بیرون ممالک اپنی ٹریڈ کے لئے پاکستان پر انحصار کرتا ہے اور اسکا وجود پاکستان کے تعاون کے بنا ناممکن ہے۔
المختصر،جب تک پاکستان کے شمال میں واقع گلگت سے لے کر سیندک تک طویل سرحد کا تعین نہیں ہو جاتا،تب تک قوی امکان ہے کہ دونوں ممالک کے مابین وقتاً فوقتاً تلخیاں پیدا ہوتی رہیں گی۔ بظاہر مسئلہ جتنا سادہ نظر آتا ہے حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ بلا شبہ یہ پاکستان کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ اس کی مشرقی سرحد پر تلخی کی گونج اب فوراً اس کی مغربی سرحد ( افغانستان اور ایران) پر بھی کیوں سنائی دینے لگی ہے ؟؟؟ لہٰذا پاکستان کو چاہیئے کہ وہ سانحہ چمن کو اپنے تین اعلیٰ سطحی وفود کے کابل کے دورے نیز پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے کے لئے کی جانے والی اپنی دیگر کوششوں کو ارادتاً سبوتاژ کرنے کی "بھارتی سازش" کے حوالے سے دیکھے۔