Mujhe Mashkook Hone Ka Qatan Shoq Nahi - Nusrat Javeed


مجھے’’مشکوک‘‘ ہونے کا قطعاً شوق نہیں 
نصرت جاوید 

میرے چند قاری مجھ سے بہت خفا ہیں۔ ٹیلی فون،SMS اور ٹویٹر کے ذریعے گلہ کررہے ہیں کہ میں نے نورین لغاری کی معافی کے بارے میں کیوں نہیں لکھا۔ یہ بات عیاں ہے کہ انہیں اس معافی پر بہت اعتراض ہے۔ انہیں اس بات کا مکمل یقین ہے کہ حیدر آباد کے ایک میڈیکل کالج کی یہ طالبہ اپنے گھر سے پراسرار انداز میں فرار ہوکر خود کو ’’داعش‘‘ سے وابستہ کئے ’’دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ مل گئی تھی۔
ان کے ساتھ چند ہفتے گزارنے کے بعد اس نے طے کیا کہ مسیحی برادری کے ایسٹر والے تہوار کے دن کسی اجتماع کو وہ خودکش جیکٹ پہن کر نشانہ بنائے گی۔ہماری ریاست کے چوکس اداروں نے مگر یہ خوفناک حملہ کرنے سے پہلے ہی اسے گرفتار کرلیا۔اپنی گرفتاری کے بعد اس نے ایک اعترافی بیان ریکارڈ کروایا۔ اس بیان کو ایک باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کے سامنے لایا گیا۔ توقع یہ باندھی گئی کہ اعترافی بیان کی ایسی تشہیر کے بعد اس ’’دہشت گرد‘‘ خاتون کو فوجی عدالت کے ذریعے کڑی سزا سنوائی جائے گی۔ ہوا بالآخر مگر یہ کہ اسے رہا کردیا گیا۔ اب وہ اپنے گھر لوٹ گئی ہے۔
چند روز قبل اس نے ہماری ایک بہت محنتی اور معروف ٹی وی اینکر سعدیہ افضال کو ایک تفصیلی انٹرویو بھی دیا۔ اس انٹرویو کے ذریعے پیغام یہ ملا کہ نورین اپنے کئے پر شرمندہ ہے۔سوشل میڈیا پر بہت سا وقت گزارنے کی وجہ سے وہ دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گئی۔ ریاستی اداروں کی چوکسی نے مگر اسے ان کے چنگل سے آزاد کروالیا۔ اب وہ اپنی زندگی کو نارمل انداز میں گزارنے کو تیار ہے۔
مجھ سے ناراض ہوئے قاری اس تمام قصے کے بارے میں بہت نالاں ہیں۔ نورین لغاری سے قبل دہشت گردی کے کئی ہولناک واقعات کی ذمہ داری کا اعلان کرنے والے دہشت گردوں کے ایک بہت ہی معروف ترجمان-احسان اللہ احسان- کااعترافی بیان بھی جاری ہوا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس نے دہشت گردوں کے ساتھ کئی برس گزارکر یہ دریافت کیا کہ دینِ اسلام کے اپنے تئیں محافظ بنے یہ افراد درحقیقت بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے آلہ کار ہیں۔ان کی ذاتی زندگی اور کردار بھی قابلِ نفریں ہیں۔انہیں بہت قریب سے دیکھنے کے بعد احسان اللہ احسان نے ریاستِ پاکستان کے سامنے سرنگوں ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک اعترافی بیان ریکارڈ کروانے کے بعد اس نے میرے ایک بہت ہی محنتی اور کافی تحقیق اور سوچ بچار کے بعد لکھنے اور بولنے والے ساتھی سلیم صافی کو ایک انٹرویو بھی دیا۔
پیمرا نے مگر اس انٹرویو کو روکنے کا حکم جاری کردیا کیونکہ اس کے خیال میں یہ ’’دہشت گردوں‘‘کے بارے میں ہمارے دلوں میں ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کا باعث ہوسکتا تھا۔ سلیم صافی نے مگر ایک کالم اور اپنے پروگرام میں ٹھوس دلائل کے ساتھ، جن سے اختلاف کا آپ کو اور مجھے پورا حق ہے،اس تاثر کو جھٹلانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
مجھ سے ناراض ہوئے قاری غالباََیہ چاہتے ہیں کہ میں احسان اللہ احسان اور نورین لغاری کو ملی تشہیر کی مذمت کروں۔ فوری ردعمل کی بات ہو تو میرا رویہ بھی خود سے ناراض ہوئے لوگوں جیسا ہے۔بہت سوچ بچار کے بعد البتہ ذہن میں کچھ سوالات اُٹھے۔ان سوالوں کے جواب وطنِ عزیز میں ’’دوٹکے کے صحافیوں‘‘ کو فراہم نہیں کئے جاتے۔ کئی صورتوں میں دہشت گروی کے موضوع پر چند سوالات اُٹھانا بلکہ وطن سے غداری بھی ٹھہرایا جاسکتا ہے اور یہ غداری کی تہمت سے مجھے بہت خوف آتا ہے۔یہ کیچڑ کی طرح آپ کی ذات پر چپک جاتی ہے۔آپ کو مشکوک بنادیتی ہے۔ مجھے ’’مشکوک‘‘ ہونے کا قطعاََ کوئی شوق نہیں۔ عمر عزیزکے 60 سال گزارلئے ہیں۔گوشے میں قفس کے اب آرام کے ساتھ زندگی کے بقیہ دن گزارنا چاتا ہوں۔
مجھ سے خفاء ہوئے لوگوں کو اگرچہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ہمارے ہاں جب دہشت گردی نے شدت پکڑی تو ہمارے لوگوں کی ا کثریت اس بات پر بضد رہی کہ مساجد،امام بارگاہوں اور صوفیاء کے مزارات پر خودکش دھماکے کرنے والے ’’مسلمان ہوہی نہیں سکتے‘‘۔سوات کی ایک طالب علم ملالہ پرحملہ ہوا تو ہمارے بہت ہی پڑھے لکھے لوگوں نے سوشل میڈیا پر کئی تصاویر کے ذریعے مجھ ایسے لوگوں کو قائل کرنا چاہا کہ وہ سی آئی اے کا ایک Asset تھی۔ اس پر ہوا حملہ درحقیقت پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک سازش تھی۔یہ حملہ غالباََ اتنا ’’خوفناک‘‘ نہیں تھا جیسے اسے ’’یہودیوں کے سرمایے‘‘سے چلنے والے عالمی میڈیا نے بناکر دکھایا۔ حملے کے فوراََ بعد اسے علاج کے لئے برطانیہ کے ایک ہسپتال لے جانا بھی مبینہ ’’سازش‘‘کا حصہ تھا۔
صحت یاب ہوجانے کے بعد ملالہ نے برطانیہ میں مستقل قیام کا فیصلہ کرلیا۔اسے نوبل انعام دے کر ’’مزید مشہور کیا گیا‘‘۔سابق امریکی صدر نے اسے وائٹ ہائوس بلوایا۔ چند ہفتے قبل کینیڈا کے نومنتخب وزیر اعظم نے اسے اپنے ملک میں بھی مدعو کیااسے کینیڈا کی اعزازی شہریت دی اور اپنی پارلیمان سے اس کا خطاب کروایا۔ ملالہ کی یہ ’’پذیرائی‘‘ ہمارے لوگوں کی اکثریت کو یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘۔
یہاں تک لکھنے کے بعد میرے لئے یہ وضاحت کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ میرے ذاتی خیالات ہرگز وہ نہیں ہیں جو ملالہ کے بارے میں اب تک میں نے لکھے ہیں۔اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر البتہ آپ ضرور یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت واقعتا ملالہ کے بارے میں ایسے ہی خیالات پر یقین رکھتی ہے یا نہیں۔
اس موقعہ پر آپ کو یہ بات بھی یاد رکھنا ہوگی کہ دہشت گردی کی کئی ہولناک اور دل دہلادینے والی وارداتوں کے باوجود نواز شریف اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم بنے تو ان پر اس ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے باہم مل کر دبائو ڈالا کہ دہشت گردی کی وارداتوں کا مذاکرات کے ذریعے کوئی حل نکالا جائے۔ہمارے لوگوں کی اکثریت کو یقین تھا کہ دہشت گردی کرنے والے ہمارے ’’بھٹکے ہوئے بھائی‘‘ ہیں۔ان ’’بھٹکے ہوئے بھائیوں‘‘ کو راہِ راست پر لانے کے لئے ایک ٹیم بنی جس میں کئی جید علماء بھی شامل تھے۔ اس ٹیم نے مذاکرات کا آغاز کیا تو پشاور کے APSپر حملہ ہوگیا۔اس حملے کی وجہ سے مذاکرات کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ ’’بھٹکے ہوئے بھائی‘‘بالآخر ’’وحشی دہشت گرد‘‘ قرار پائے جن کا قلع قمع کرنے کے لئے ’’آپریشن ضربِ عضب‘‘ کا آغاز ہوا۔
یہ آپریشن بہت کامیاب ہوا۔اس کی کامیابی نے کئی پاکستانیوں کو یہ التجا کرنے پر بھی مجبور کردیاکہ جنرل راحیل شریف صاحب پاکستانی فوج کی کمان سنبھالے رکھیں۔ انہوں نے اپنے عہدے کی معیاد میں اضافے کو مگر مناسب نہ سمجھا۔وقت پر ریٹائر ہوگئے۔ریٹائرمنٹ کے فوری بعد ہمارے برادر ملک سعودی عرب نے انہیں ’’اسلامی نیٹو‘‘ کے ممکنہ قیام اور اس کی سربراہی کا فریضہ سرانجام دینے پر مجبور کردیا۔
دفاعی اور خاص کر Counter Insurgency جیسے گھمبیر اور پیچیدہ امور کی باریکیوں اور نزاکتوں کے بارے میں قطعی لاعلم ہوتے ہوئے بھی مجھے "Mainstreaming "والی اصطلاح کی تھوڑی شدھ بدھ ہے۔اس کے ذریعے دشت گردوں کو Deradicalize کرنے کے بعد معمول کی زندگی گزارنے کی راہ پر ڈالا جاتا ہے۔ شاید ’’آپریشن ضربِ عضب‘‘ کی کامیابی کے بعد ہماری ریاست کے حتمی فیصلہ سازوں نے مذکورہ حکمت عملی کو اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔احسان اللہ احسان اور نورین لغاری ممکن طورپر اس ضمن میں بارش کے پہلے قطرے ہوسکتے ہیں۔حقائق کا اگرچہ مجھے کوئی علم نہیں ہے۔جو دکھایا اور بتایا جائے اسے بغیر کوئی سوال اٹھائے قبول کرلینے ہی میں عافیت محسوس کرتا ہوں۔