Mere Aziz Hum Watno Nahi Hua, Tasalli Nahi Hui - Nusrat Javeed


’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ نہیں ہوا، تسلی نہیں ہوئی 
نصرت جاوید 

ہمارے بہت ہی پڑھے لکھے اور دن رات کی مشقت سے خون پسینہ ایک کرکے رزقِ حلال کمانے والے افراد کی بے پناہ اکثریت بدھ کی سہ پہر سے بہت ناراض ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’وہ ٹویٹ‘‘ واپس نہیں لیا جانا چاہیے تھا۔ انگریزی روزنامہ ڈان میں 6 اکتوبر 2016ء کی صبح چھپی ’’خبر‘‘ نے قومی سلامتی کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ یہ خبر ’’گھڑنے‘‘ اور چھاپنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری تھا۔
جس خبر کا میں نے حوالہ دیا ہے،اسے چھپنے کے بعد میں نے اسے ایک نہیں تین بار پڑھا ہے۔ یہ کرتے ہوئے میں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی مرتب کردہ لغت سے بھی استفادہ کیا۔ فروری 1981ء سے میں انگریزی اخبار’’ دی مسلم‘‘ کا رپورٹر رہنے کے بعد "The Nation" کے اسلام آباد بیورو کا چیف رہا۔ 1992ء کے وسط میں "The News" کا خصوصی نامہ نگار بن گیا۔ ان اخبارات کے لئے کام کرتے ہوئے میں نے سیاسی اور خارجہ امور کے بارے میں نہ صرف خبریں بلکہ باقاعدگی کے ساتھ کالم بھی لکھے ہیں۔ 2006ء کے اواخر میں البتہ ٹی وی صحافت کی طرف چلاگیا۔ ایک ٹی وی چینل کے لئے ہفتے کے پانچ دن ایک پروگرام کرتے ہوئے مجھے ہر ماہ اتنی رقم تنخواہ کی صورت ملنا شروع ہوگئی تو شاید میں اپنی سال بھر کی تنخواہ خرچ کرنے کے بعد بھی نہیں بچاپاتا تھا۔ مجھے اس صحافت کا بہت مزا آیا۔’’چوپڑیاں اور وہ بھی دودو!!‘‘ والی لذت سے آشنا ہوا۔
اس لذت کے باوجود ہمارے ایک بہت ہی قابلِ احترام سینئر،جناب ضیاء الدین صاحب نے مجھے مجبور کیا کہ میں کم از کم جن دنوں قومی اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو اس کی کارروائی کے بارے میں اپنا کالم لکھتا رہوں۔ وہ ان دنوں "Express Tribune" کے مدیر ہوا کرتے تھے۔ میرا کالم تواتر کے ساتھ چھپنا شروع ہوا تو ہماری صحافت کے ایک بہت ہی معتبر نام-عباس اطہر-نے مجھے اُردو کالم لکھنے پر بھی مجبور کردیا۔
اتنی لمبی تمہید آپ کوصرف یہ بات سمجھانے کے لئے باندھی ہے کہ بنیادی طورپر میں انگریزی اخبارات کا رپورٹر اور کالم نگار رہا ہوں۔اُردو زبان میں لکھنے کی مہارت مجھے ہرگز نصیب نہیں ہوئی۔اسی لئے اس کالم میں اکثر انگریزی الفاظ کو ترجمہ کئے بغیر لکھ دیتا ہوں۔اپنی اس کمزوری کی بناء پر اکثر دل ہی دل میں بہت شرمندہ بھی رہتا ہو۔ہمہ وقت یہ خوف طاری رہتا ہے کہ میری لکھی اُردو قواعد صرف ونحو کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہے بھی یا نہیں۔
انگریزی زبان کو استعمال کرتے ہوئے مجھے ایسا خدشہ البتہ آج تک محسوس نہیں ہوا۔جو بھی لکھتا اکثر ہوبہوچھاپ دیا جاتا۔ کبھی کوئی سطر یا پیرا نکالا گیا تو وجہ میری زبان نہیں مختلف حکومتوں کو ناراض نہ کرنا بتائی گئی تھی۔اس تمہید کے بعد بضد ہوں کہ 6 اکتوبر2016ء کی صبح جو خبر چھپی تھی اس نے قومی سلامتی کو ہرگز کوئی ضعف نہیں پہنچایا تھا۔
وطنِ عزیز کی قومی سلامتی کو میری ناقص رائے میں ہماری حالیہ تاریخ میں بہت بڑا دھچکہ البتہ مئی 2011ء کی پہلی اور دو کی درمیانی رات کو ضرور پہنچا تھا۔اس رات ایبٹ آباد کے ایک قلعہ نما مکان میں امریکی کمانڈوز نہ جانے کیسے در آئے تھے۔ہمیں بتایا گیا کہ وہاں کئی برسوں سے اسامہ بن لادن چھپا بیٹھا تھا۔ اسے ہلاک کردیا گیا۔ ہم آج تک نہیں جان پائے ہیں کہ اسامہ وہاں موجود تھابھی یا نہیں۔اسے ہلاک کرنے والوں کے ہماری سرزمین میں درآنے کی تفصیلات کا علم تو بہت دور کی بات ہے۔
اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو مگر ہم نے بہت بردباری سے نظرانداز کردیا۔پارلیمان میں اس کی بابت تھوڑا بہت شورمچا تو سپریم کورٹ کے ایک جج کی سربراہی میں ایک کمیشن بنادیا گیا۔اس کمیشن نے کئی مہینوں تک پھیلی تحقیق وتفتیش کے بعد اپنی رپورٹ مرتب کرکے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے دفتر بھجوادی تھی۔ انہوں نے ا س رپورٹ کو شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ہم اس رپورٹ کو اب بھول چکے ہیں۔کبھی کبھار اس کی اشاعت کا البتہ محض پوائنٹ سکورنگ کے لئے مطالبہ کردیا جاتا ہے۔
’’قومی سلامتی‘‘ اگر ہمارے بہت ہی پڑھے لکھے اور دن رات کی مشقت سے خون پسینہ ایک کرکے رزقِ حلال کمانے والوں کے لئے واقعتا ایک اہم مسئلہ ہے تو یہ حقیقت یاد دلانے دینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اکتوبر2016 ہی میں ایک سوال بہت شدت کے ساتھ سرگوشیوں میں اٹھایا گیا تھا۔ان دنوں جنرل راحیل شریف صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے جاں نشین کی تلاش جاری تھی۔اس ضمن میں جب موجودہ آرمی چیف صاحب کا نام آیا تو ان کے عقیدے اور ایمان کے بارے میں انتہائی تکلیف دہ سوالات اٹھائے گئے۔ یہ سوالات اٹھانے والوں کو ہرگز یاد نہیں رہا کہ پاک فوج میں کیپٹن سے جنرل کے عہدے تک ترقی پانے کے لئے چھان پھٹک کے کڑے مراحل سے گزرنا ضروری ہوتا ہے۔ان تمام مراحل سے گزرکر ممکنہ جانشین کا لیفٹیننٹ جنرل کے منصب تک پہنچنا ہرگز آسان نہیں تھا۔ان حقائق کو بخوبی جانتے ہوئے بھی جنرل راحیل شریف کے متوقع جانشین کے عقیدے اور ایمان کے بارے میں قطعی بے بنیاد سوالات اٹھائے گئے۔
6 اکتوبر2016ء کی صبح چھپی خبر کے بعد سے ’’قومی سلامتی‘‘ کے بارے میں بے حد متفکر افراد میں سے کسی ایک شخص نے بھی 5لاکھ سے زیادہ سپاہ کو اپنے ایک اشارے سے حرکت میں لانے کی قوت واختیار کے حامل ممکنہ کمان دار کے عقیدے اور ایمان کے بارے میں تہمتوں کے طوفان کے بارے میں اپنی فکر مندی کا اظہارکبھی نہیں کیا۔ ’’صرف ایک خبر‘‘ نے اگرچہ انہیں پریشان کردیا۔
اس خبر کی اشاعت کے بعد نواز شریف کا ایک حقیقی جاں نثار پرویز رشید وزارتِ اطلاعات سے فارغ ہوا۔ خارجہ امور کو کئی برسوں سے ہینڈل کرنے والے طارق فاطمی بھی گھر بھیج دئیے گئے۔وزارتِ اطلاعات کا ایک انتہائی محنتی اور پروفیشنل افسر،رائوتحسین بھی’’صرف ایک خبر‘‘ کو رکوانہ پانے کے جرم میں اپنے عہدے سے ہٹادیا گیا۔اب اس کے خلاف محکمانہ تحقیقات بھی ہوں گی۔
ان سب ’’قربانیوں‘‘ کے باوجود مگر ’’قومی سلامتی‘‘ کے اپنے تئیں نگہبان بنے پارسائوں کی تشفی نہیں ہوپائی ہے۔ ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘نہیں ہوا۔تسلی نہیں ہوئی۔میڈیا ہمارے ہاں بہت ہی آزاد اور بے باک ہے۔اپنے ربّ سے میری فریاد ہے کہ ’’قومی سلامتی‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے وہ سب کچھ ہو ہی جائے جس کی اس میڈیا میں مسلسل فریاد کی جارہی ہے۔ وہ ہوجائے تو میں ریموٹ لے کر اپنے گھر کے ایک کونے میں بیٹھ جائوں گا۔ ان لوگوں کی آوازیں سننے اور چہرے دیکھنے کے لئے جو اِن دنوں ہماری ٹی وی سکرینوں پر حق وصداقت کی علامتیں شمار ہوتی ہیں۔