Akhlaq Ahmed Khan Ghair Marhoom - Akhlaq Ahmed Khan


اخلاق احمد خان غیر مرحوم 
اخلاق احمد خان 

پتہ نہیں اسم با مسمی تھے یا اسم غیر مسمی مگر نام ان کا اخلاؔ ق ہی تھا۔ وہ کافی عرصے سے زندہ تھے، کل صبح ہی صبح سورج نکلنے سے پہلے موت سے فارغ ہوگئے۔ موت کے وقت بہ نفس نفیس امریکہ میں موجود تھے اور وہیں انتقال فرمایا۔ افسوس کہ ان کی موت انکی عمر سے کچھ عرصے پہلے واقع ہوگئی مگرہمیں بہت خوشی ہے کہ وہ کسی جان لیوا حادثے کا شکار نہیں ہوئے، نہ اختلاج قلب ان کی موت کا سبب بنا ورنہ یہی کہا جاتا کہ مرگ ناگہانی نے ان کو آ لیا۔ پس پرسکون طبعی موت کا ذرا سا لطف انہوں نے چکھا۔ 
آپ کو پتہ ہے کہ زندگی کی عدم موجودگی موت ہے مگر موت کی عدم موجودگی زندگی نہیں۔ ہر انسان کی پیدائش ایک حسین واقعہ ہوتی ہے اور اسکی موت درد ناک المیہ۔ پیدائش اور موت کے درمیان ہر انسان ایک خواب دیکھتا ہے، ایک ادھورا اور نا مکمل خواب جسے زندگی کا سانحہ کہتے ہیں۔ انسان کی آخری سانس کے بعد موت واقع ہوجاتی ہے اس لئے تجویز رکھی گئی ہے کہ کوئی شخص آخری سانس ہی نہ لے جو موت واقع ہو۔ قارئین کرام! انسان کے اس دنیا میں زندہ رہنے یا مرجانے سے کاروبار حیات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مرحوم کے مرجانے کے بعد بھی وقت کی گھڑیاں اسی رفتار سے چلتی رہیں گی۔ سورج بھی انشااللہ اسی طرح طلوع اور غروب ہوتا رہے گا۔ 
مرحوم اخلاق احمد اپنے پیچھے ایک جائز بیوی، دو جائز بچے اور چار ناجائز دشمن چھوڑ گئے۔ ان کا انتقال نفع بخش تھا یا نقصان دہ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بہر حال ان لوگوں نے ان کی وفات کو اپنا ذاتی نقصان قرار دیا ہے جو اپنا قرض ان سے و صول کرنے کے طلب گار تھے۔ مرحوم کی ذات کا دنیا سے اٹھ جانا واقعی بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ ابھی دو ہزار ڈالر انہیں مالک مکان کو ادا کرنے تھے۔ تاہم لائف انشورنس کمپنی والوں پرانکی موت کوئی بار نہیں بنے گی۔ 
مرحوم اس سے پہلے بھی دو تین مرتبہ انتقال فرماچکے ہیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ فوت نہیں ہوئے تھے، گھر سے ناراض ہوکر چلے گئے تھے۔ مگر اب کی مرتبہ ان کی موت یقینی سے بھی زیادہ مستند ہے کیونکہ موت کے اسپیشلسٹ دو تین ڈاکٹروں نے ان کا ڈیتھ (Death) سرٹیفکٹ جاری کردیا ہے۔ مستزاد یہ کہ عالم بالا سے دست خط شدہ رسید، بقلم خود کے اندراج کے ساتھ موصول ہوچکی ہے۔ 
مرحوم نے تمام عمر احتیاط پسندی سے کام لیا اور موت سے بچنے کے لئے زندگی بھر پھونک پھونک کر قدم رکھا۔ کار میں اس لئے سواری نہیں کرتے تھے کہ کہیں ایکسی ڈنٹ نہ ہوجائے اور ایکسی ڈنٹ ہوجاتا تو اس خوف سے ہسپتال نہ جاتے کہ کہیں غلط آپریشن نہ ہوجائے۔ بچپن میں عمر بھر بیمار رہے مگر خدا سے کبھی احتجاج نہیں کیا۔ ماں کڑوی دوائی ا ن کے منہ میں رکھتی تو بخوشی کھالیتے اور کبھی منہ نہ بناتے۔ بظاہر ان کی زندگی ایک مستقل سکون کا پرتو تھی۔ ظاہر ہے مکمل سکون وہی شخص حاصل کرسکتا ہے جو بے حسی کی دولت سے مالا مال ہو۔ 
مرحوم چند لوگوں سے محبت کرتے تھے اور چند لوگوں سے نفرت چنانچہ بحیثیت مجموعی ان کی زندگی متوازن تھی۔ چونکہ ان پڑھ لوگوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے80 فی صدی لوگ ان کی قدر کرتے تھے۔ بنیادی طور پر کمزور دل واقع ہوئے تھے اس لئے کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا بس زیادہ سے زیادہ سامنے والے کو گا لی دے دیا کرتے تھے مگر پھر فوراً ہی اتنی لجاجت سے معافی مانگ لیتے کہ سامنے والا شرمندہ ہوجاتاتھا۔ 
میٹرک کرنے کے بعد مرحوم نے کلرکی، صحافت، منشی گیری، شاعری جیسے اعلی و ارفع میدانوں میں قدم رکھا، جب ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ شادی کرلیں۔ شادی کے بعد ان کی شہرت کو چار چاند یا شاید چار سے بھی زیادہ چاند لگ گئے اور ان کا شمار پاکستان کے مشہور شوہروں میں ہونے لگا۔ 
باوجود کوشش کے پتہ نہ چل سکا کہ بوقت وفات انکی عمر کیا تھی؟ انکی تاریخ پیدائش ایک معمہ تھی۔ اپنی ڈائری میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
تاریخ پیدائش :۔ جس دن دنیا میں کوئی ماں کا لعل پیدا نہ ہوسکا سوائے اخلاق احمد کے۔ 
جب بھی کوئی ان کے باپ کا نام پوچھتا وہ سمجھتے شاید ان پر شک کیا جارہا ہے۔ غصے سے جواب دیتے ’’میں کوئی حرام کا تخم نہیں سمجھے۔ اپنے باپ کی باقاعدہ نکاح خوانی کے بعد وجود میں آیا‘‘
موت سے چند دن پہلے وہ اپنے صحن کی دیوار کی مرمت کرانا چاہتے تھے جو کئی جگہ سے ٹوٹ گئی تھی۔ دیوار کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے دیوار چین کا معائنہ کررہے ہوں لیکن افسوس موت نے مہلت نہ دی۔ ان کی موت پر مردوں سے زیادہ عورتیں غمگین ہیں۔ چند عورتوں کی مسلسل کراہیں مرحوم کے کردار کو مشکوک کررہی ہیں۔ ایک راوی سے مروی ہے کہ ایک دن مرحوم نے اللہ رکھی سے کہا تھا ’’ تیرے وصل کی آرزو میں ایسا نہ ہو کہ میں موت سے واصل ہوجاؤں‘‘ ان کے تکیے کے نیچے سے ایک خط بھی برآمد ہوا ہے جس کے الفاظ ہیں:۔ 
’’ شاید تم کچھ کہنا چاہتی تھیں۔ شاید میں کچھ کہنا چاہتا تھا۔ شاید ہم دونوں نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو ہماری زبان نہ کہہ سکی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدمات جہاں بیگم تمہاری ناک کتنی نفیس اور قابل فخر ہے، آنکھیں کتنی حسین اور قابل پرستش ہیں، بال کتنے لانبے اور قابل تقلید ہیں، تم خود کتنی پر وقار اور قابل محبت ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے اپنے یاقوتی ہونٹوں سے نکلی لازوال مسکراہٹ میٹھے خنجر کی طرح میرے دل میں پیوست کردی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم میری محبت کا جواب بے رخی سے دو گی تو ضرور مجھے اختلاج قلب ہوجائے گا یا کوئی ذہنی مرض پیدا ہوجائے گا یا میرے اعصاب جواب دے جائیں گے یا میری ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی، سمجھیں؟‘‘
مرحوم کی بائیوگرافی سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے بے شمار عورتوں سے بے شمار کامیاب عشق کئے۔ چند عورتوں سے انہوں نے ازراہ محبت شادی کی اور چند سے ازراہ ہم دردی۔ جب بھی انہوں نے کسی عورت سے شادی کی، اس نے انکا شکریہ ادا کیا اور جب طلاق دی انکا احسان مانا۔ ان کا قول تھا کہ ایک شادی سے دوسری شادی تک کا سفر پر پیچ گھاٹیوں اور صبر آزما راستوں سے گزرتا ہے۔ مرحوم کی رومانی اور عشقیہ داستان حیات واقعی پاکستان کے نووارد عاشقوں کے لئے سرمایۂ حیات ہے۔ 
مرحوم ایک مزاح نویس تھے جو عمر بھر نہ مسکرائے۔ مگر موت کے وقت ایک بھرپور مسکراہٹ ان کے چہرے پر دیکھی گئی۔ جیسے جستجو نے مراد پالی ہو، جیسے انتظار کو منزل مل جائے۔ آپ کو معلوم ہے مزاح نویس کا کام ہی تجزیہ نگاری ہے۔ مرحوم عین موت کے وقت بھی تجزیہ کرنے بیٹھ گئے، کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ یہ دیکھو ! دھوپ اور چھاؤں کا تلاطم ہے، نور اور سائے کی مڈ بھیڑ ہے‘‘
مرنے والے کی کتنی اچھائیوں کا ذکر کیا جائے اور کن کن خوبیوں کا رونا رویا جائے۔ جی ہاں وہ اچھے سیلز مین بھی تھے۔ مرنے سے چند منٹ پہلے بستر مرگ پر اپنی سونے کی گھڑی منافع سے بیچی اور پھر اللہ کو پیارے ہوگئے :
اب قبر میں لکھ کتابیں پڑھ معجون
انا للہ و انا اللہ راجعون۔ 
شکر ہے موت کالعدم قرار دیدی گئی ورنہ۔ ۔ ۔