Tareekh Ka Jabr - Nusrat Javeed


تاریخ کا جبر 
نصرت جاوید 

سیاست میں حقائق نہیں لوگوں کے دلوں میں ان کے حوالے سے بھڑکائے جذبات اہم ہوا کرتے ہیں۔ یہ بات بالکل برحق کہ گزشتہ جمعرات کے دن طویل انتظار کے بعد سنائے سپریم کورٹ کے فیصلے نے نواز شریف کو وزارتِ عظمی کے عہدے کےلئے نااہل قرار نہیں دیا۔ دو معزز ججوں کے لکھے اختلافی نوٹ نے مگر اس کی سفارش کی۔ اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں کا نواز شریف کو ”صادق اور امین“ قرار نہ دینا اپنی جگہ ایک بہت اہم بات تھی۔ اس سے بھی کہیں زیادہ سخت اور عوام میں مقبول جو بات ہوئی وہ شریف خاندان کو جرائم کی دُنیا کا ”گاڈفادر“ پکارنا تھا۔ شاعرانہ انداز میںاس خاندان کی دولت کے پیچھے کسی ”جرم“ کی موجودگی کا ذکر بھی ہوا۔ اس مشتبہ ”جرم“ کی تلاش ہی کےلئے سپریم کورٹ کے تمام ججوں نے باہمی اختلافات کے باوجود چھ ریاستی اداروں پر مشتمل جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (JIT) کی تشکیل کا حکم دیا ہے۔
استغاثہ کسی ملزم کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم نہ کر پائے تو اسے شک کا فائدہ دے کر بری کردیا جاتا ہے۔ نواز شریف کے لئے ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے۔ JIT اپنی تشکیل کے 60 روز کے دوران وہ تمام شواہد جمع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی جو پانامہ دستاویزات منکشف ہو جانے کے بعد بھی نواز شریف کے سیاسی مخالفین سپریم کورٹ کے روبروپیش نہیں کر پائے تھے۔ گزشتہ جمعرات کے روز سنائے فیصلے نے درحقیقت وزیر اعظم کے خلاف ایک فردجرم تیار کی ہے۔ عام الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ طویل جدوجہد کی بدولت ایک FIR لکھ دی گئی ہے۔ اب اس FIR میں بیان کردہ الزامات کے ثبوت تلاش کرنا ہیں۔ یہ ثبوت تلاش کرنے والی ٹیم براہِ راست سپریم کورٹ کو جواب دہ ہوگی۔ ہر پندرہ دنوں کے بعد اپنی تفتیش کی پیش رفت کے بارے میں رپورٹ دے گی اور اس تفتیش کو 60 دنوں کے اندر اندر مکمل ہونا ہے۔
یہ فیصلہ آجانے کے بعد نواز شریف کے پاس ”بچ گئے“ والی فرحت کا اظہار کرنے کا جواز ہی موجود نہیں تھا۔ وہ مگر مطمئن دکھائی دیئے کیونکہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے انہیں یوسف رضا گیلانی کی طرح فارغ نہیں کیا۔ انہیں اپنے دفاع کا ایک اور موقعہ بخش دیا ہے۔
ایک حوالے سے گزشتہ جمعرات کو سنایا گیا فیصلہ ”تاریخ“ یوں بھی بناسکتا ہے کہ نواز شریف وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی ا پنے خلاف لگائے الزامات کاایک ایسی تفتیشی ٹیم کو جواب دیتے رہیں گے جو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی عطاءکردہ قوت کے باعث قطعاً بااختیار اور آزاد ہے۔ اس ٹیم میں ISI اور MI کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ ان نمائندوں کو اپنے شعبے میں محض کام کی بدولت آگے بڑھنے کےلئے وزیر اعظم کی آشیر واد ہرگز درکار نہیں ہے۔
کوئی پسند کرے یا نہیں،جمعرات کے روز سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ دستاویزات پر سنایا گیا فیصلہ عمران خان کی جیت ہے۔ وہ مگر مطمئن نہیں۔ نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے بھی تفتیشی ٹیم کے سامنے ملزم کی صورت پیش ہونے والی ”تاریخ“ کے تماشائی بننے کو تیار نہیں۔ان کا اصرار ہے کہ آزادانہ تفتیش کو یقینی بنانے کےلئے نواز شریف اب وزارت عظمیٰ کے منصب سے الگ ہوجائیں۔ وزیر اعظم چونکہ تیار نہیں ہوئے اس لئے عمران خان نے اپنے پیروکاروں کو جمعہ 28 اپریل کے روز اسلام آباد میں جمع ہونے کا حکم دیا ہے۔ہمیں خبر نہیں کہ اس دن محض ایک جلسہ ہوگا یا عمران خان کے پرستار 14 اگست 2014ء کی طرح اس روز اسلام آباد پہنچ جانے کے بعد نواز شریف کا استعفیٰ آنے تک اس شہر میں دھرنا دئیے بیٹھے رہیں گے۔ جمعرات 20 اپریل کو سنائے فیصلے نے لہذا مسئلہ حل نہیں کیا۔ اس ملک میں ہیجان اور انتشارکو مزید ایندھن فراہم کردیا ہے۔ خلفشار سے مفر اب ممکن ہی نہیں۔
اپنی جان کی امان پاتے ہوئے انتہائی ادب واحترام کے ساتھ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے سامنے ہاتھ باندھ کر التجا کررہا ہوں کہ پیر کے روز انہوں نے عمران خان کو صبر کی جو تلقین کی وہ ایک کوشش رائیگاں تھی۔ تحریک انصاف کی جگہ کسی اور جماعت کو بھی اگرجمعرات 20 اپریل جیسا فیصلہ ملا ہوتا تو وہ اپنی پوری توجہ وزیر اعظم کے استعفیٰ کے حصول پر مرکوز کر دیتی۔ تخت یا تختہ والی جنگوں میں صبر نہیں دکھایا جاتا۔ دشمن کے پاﺅں لڑھک جائیں تو اسے ایک اور دھکا دے کر زمین پر گرایا جاتا ہے۔
اصولی طورپر اگرچہ مناسب یہی تھا کہ نواز شریف کو 20 اپریل 2017ء کے فیصلے تک دھکیلنے کے بعد عمران خان 67 روز مزید انتظار کرلیتے۔ ان کی بے صبری ایک حوالے سے سپریم کورٹ پر عدم اعتماد بھی ہے۔ اس شک کا ٹھوس اظہار کہ براہِ راست ا س کو جوابدہ ہونے کے باوجود چھ ریاستی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل JIT نواز شریف کے خلاف ثبوت جمع کرنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کرے گی۔
میں ذاتی طورپر مجوزہ JIT میں ISI اور MI کے نمائندوں کی موجودگی کا مخالف ہوں۔ خدانخواستہ اگر صرف ان دو اداروں کے نمائندے ہی نواز شریف کو ”بدعنوان“ ثابت کرنے والے شواہد فراہم کریں گے تو نواز شریف اور ان کے حامیوں کو پیغام یہ جائے گا کہ ”بالآخر فوج نے انہیں زچ کردیا۔“ پاکستان جس مشکل دور سے گزر رہا ہے اس دور میں ہمارے دفاع کو یقینی بنانے والے قومی ادارے کے بارے میں یہ تاثر پھیلنا ایک بہت ہی خطرناک بات ہوگی۔فیصلہ مگر سنایا جاچکا ہے۔ اسے تسلیم کرنا ہر پاکستانی کی مجبوری ہے۔ تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ اب صرف خیر کی دُعا ہی کی جاسکتی ہے۔کاش عمران خان بھی اس نازک پہلو کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مزید 60 دن انتظارکرنے کو تیار ہوجاتے۔ وہ مگر تخت یا تختہ والی جنگ کے جنون میں مبتلا ہیں۔ جمعہ 28 اپریل کے دن اسلام آباد میں ایک اور ”التحریر اسکوائر“ کا منظر بنانا اب ان کی مجبوری ہے۔ تاریخ کا جبر جس کا اصل مواد جمعرات 20 اپریل 2017ء کو سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے فیصلے نے فراہم کیا ہے۔